صدر کے تحفظات اور سمری منظور، اجلاس ہو گیا!
قومی اسمبلی کا اجلاس آئینی مدت کے مطابق ہوگیا کہ صدر مملکت نے وفاقی حکومت کی جوابی سمری کے بعد اپنے تحفظات کا اظہار کرکے دستخط کر دیئے اگر وہ اس مرتبہ بھی سمری روک لیتے تو اسمبلی کا اجلاس پھر بھی ہو جانا تھا تاہم ایک نیا آئینی تنازعہ کھڑا ہو جاتا کہ جب صدر نے مقررہ مدت میں اجلاس بلانے کی اجازت نہ دی ہوتی یہ اجلاس اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق سپیکر راجہ پرویز اشرف کی ہدائت پر بلانے کا فیصلہ ہو گیا جب اس حوالے سے خبر شائع ہوئی تو بحث شروع ہو گئی قانونی ماہرین بھی بٹ گئے، ایک طبقے کا موقف تھا کہ صدر نے درست وجوہ کی بناء پر سمری روکی اور اجلاس اس وقت مکمل نہیں کہ خواتین اور اقلیتوں کی تین درجن سے زیادہ نشستیں خالی ہیں، مخالف ماہرین نے اس سے اتفاق نہ کیا اور موقف اختیار کیا کہ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس کی آخری تاریخ 29فروری بنتی اور یہ آئینی مجبوری ہے اس لئے سپیکر کو اجلاس بلانے کا اختیار حاصل ہے تاہم یہ نوبت نہ آئی اور آخری وقت پر صدر نے یہ منظوری دے ہی دی تاہم ساتھ ہی سوشل میڈیا کا سہارا لے کر نگران حکومت پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ جوابی سمری کی زبان درست نہیں ہے بہرحال اجلاس ہوا اور حلف بھی اٹھا لیا گیا، اس کے بعد باقی ماندہ نشستوں اور خالی نشستوں کا مسئلہ حل ہوتا رہے گا، سنی اتحاد کونسل کے مطالبے پر کہ جماعت کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دی جائیں جو حق ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس مسئلہ پر شکایات کے ازالہ کے لئے فل بنچ کی صورت میں سماعت کی اور وکلاء کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور تاریخ متعین نہیں کی اس لئے تاخیر ممکن ہے۔
اعظم سواتی بھی طویل عرصے بعد منظر عام پر آگئےیہ تفصیل اس لئے پیش کی کہ ہمارے ملک میں مسائل........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website