پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا سپیکر ڈپٹی سپیکر کے انتخابات بہتر ماحول میں ہو گئے۔ بعد ازاں قائد ایوان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو سپیکر ملک احمد خاں اور سنی اتحاد کونسل کے درمیان پارلیمانی تنازعہ ہو گیا اور حزب اختلاف کی طرف سے بائیکاٹ کے باعث یکطرفہ رائے شماری ہوئی، مریم نوازشریف کے حق میں 220 اراکین نے ووٹ ڈالا اور وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئیں۔ اب انہوں نے برق رفتاری سے کام شروع کر دیا ہے اور ابتدائی فیصلوں اور ہدایات ہی سے اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کو والد اور چچا کی معاونت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں بعد میں بات کرتے ہیں پہلے اس بائیکاٹ کا ذکر ہو جائے جو قائد ایوان کے انتخاب کے وقت ہوا۔

امریکا نے قرضوں سے آزادی کیلئے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کردی

ملک احمد خان کا تعلق قصور سے اور وہ وکیل ہیں، ان کے والد بھی رکن رہے اور وہ خود بھی چار بار پہلے منتخب ہو چکے ہیں یوں ان کو آئین و قانون کا علم ہے اور پارلیمانی تجربہ بھی ہے۔ میری ان کے والد سے یاد اللہ تھی تو ان سے بھی اچھے مراسم ہیں، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سپیکر کے لئے پہلے مجتبیٰ شجاع الرحمن کا نام سامنے آیا تھا تاہم بعد میں قائد مسلم لیگ اور مرکزی صدر مسلم لیگ محمد نوازشریف اور محمد شہباز شریف کی باہم مشاورت کے بعد یہ فیصلہ تبدیل ہوا اور ملک احمد خان کے نام قرعہ نکل آیا اس تبدیلی پر انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے کہ ملک احمد خان اپنی جماعت، راہنماؤں کا دفاع کرتے چلے آئے تھے اور ہر سوال کے جواب میں موقف پیش کرتے تھے۔ چنانچہ کرسی صدارت پر بیٹھ کر انہوں نے ثابت کیا کہ ان پر اعتماد اور یہ انتخاب درست تھا تاہم مجھے تھوڑا تعجب ہوا کہ قواعد و قانون کے سہارے پارلیمانی روایت پر پوری طرح عمل نہ ہوا۔

بی آر ٹی پشاور کے سٹیشن پر خاتون کی چوری کی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہوگئی

دوسری طرف رانا آفتاب احمد خان ہیں جو چھٹی بار اس ایوان میں آئے۔ میرے ان کے ساتھ تعلقات بھی دیرینہ اور برادرانہ ہیں، اس لئے میں ان سے واقف ہوں۔ ان کی سیاست پیپلزپارٹی میں پروان چڑھی وہ صوبائی صدر اور وزیر بھی رہے۔ پھر اس صدارت سے خود مستعفی ہوئے شکوہ تھا کہ ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس کے علاوہ فیصل آبادی سیاست میں راجہ ریاض کی ان کے ساتھ مخاصمت ہو گئی میرے خیال میں راجہ ریاض کی زیادتی تھی کہ ایک ہی جماعت کے ٹکٹ ہولڈر ہوتے ہوئے انہوں نے الیکشن میں رانا آفتاب سے بے وفائی کی حالانکہ پارٹی میں دونوں حضرات کے درمیان خصوصی تعاون تھا اور فیصل آباد سے جلوس نکلتے تو دونوں ہم رکاب ہوتے تھے۔ اور پھر یہ اتفاق ہوا کہ رانا پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے تو راجہ بھی ادھر پہنچ گئے۔ بہر حال اب راجہ مسلم لیگ (ن) کے ہیں لیکن رانا آفتاب ثابت قدم رہے اور اب منتخب رکن صوبائی اسمبلی ہی نہیں۔ اپنی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ بھی ہو گئے اور ان کو میاں اسلم اقبال کی جگہ وزیر اعلیٰ کا امیدوار بھی نامزد کیا گیا۔ یہ بھی قانون دان اور پریکٹسنگ وکیل ہیں اور پارلیمانی تجربہ بھی بہت ہے۔

دوران پرواز ایک چوہے کے سامنے آنے سے بھگدڑ مچ گئی، جہاز 3 دن تک دوبارہ اُڑان نہ بھر سکا

یہ ساری تمہید بلا مقصد نہیں، در اصل میں نے قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر پارلیمانی روایت کو نظر انداز ہوتے دیکھا تو سوچا کہ ابھی تو ابتداء عشق ہے اس لئے اپنے خیالات کا اظہار کر ہی دوں۔ ہوا یوں کہ جب قائد ایوان کے انتخاب کا وقت آیا تو رانا افتاب احمد نے نکتہ اعتراض پر بات کی اجازت مانگی جو سپیکر نے بوجوہ نہ دی کہ قواعد کے مطابق قائد ایوان کے انتخابی عمل کے موقع پر کوئی اور کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین واک ٓؤٹ کر گئے اور یہ پارلیمانی حق ہے۔ عرض کروں کر سپیکر احمد خان کا فرض تھا لیکن خود مریم نواز شریف نے ان سے کہا کہ اپوزیشن کو منا کر واپس لایا جائے اس پر چار رکنی کمیٹی بنا کر ان کو بھیجا گیا۔ تاہم معاملہ نمٹ نہ سکا۔ بعد ازاں یہ اراکین واپس آئے لیکن پھر بات کی اجازت نہ ملنے پر بائیکاٹ کر گئے۔ اس پر سپیکر کی طرف سے خبردار کیا گیا کہ اپوزیشن والے تشریف لے آئیں وہ نہ آئے تو قواعد کے مطابق انتخابی عمل شروع کر دیا جائے گا وہ تشریف نہ لائے تو ووٹنگ شروع کرا دی گئی۔

کچے کے ڈاکوؤں نے ایک پولیس اہلکار سمیت انسداد پولیو پروگرام کے افسر کو اغوا کر لیا

میں نے انتخابات سے پہلے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں سیاسی استحکام کا ذکر کیا جاتا ہے کہ اس سے ہی معاشی استحکام ہوگا تاہم آثار یہ ہیں کہ انتشار والی کیفیت جاری رہے گی۔ گرچہ ضرورت ہے کہ جمہوری عمل جاری رہے۔ پنجاب اسمبلی میں اس ابتدائی تنازعہ اور اپوزیشن کے شور شرابے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے یوں بھی بانی کی ہدایت پر تحریک انصاف نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، یوں توقعات اور خواہشات کو فی الحال بریک لگ گئی ہے۔ بہر حال میں پارلیمانی روایات کا ذکر کر رہا تھا تو سپیکر ملک احمد خان نے قانون و قواعد کے مطابق تو عمل کیا لیکن پارلیمانی روایت کو کماحقہ پیش نظر نہیں رکھا اور ایسا ہی دوسری طرف سے بھی ہوا اور یہ رانا آفتاب احمد خان کی قیادت میں ہوا، سپیکر کو آخری حد تک اپوزیشن کو واپس لانے کا عمل کرنا چاہئے تھا تو اپوزیشن کو بھی مان کر واپس آنا اور انتخابی عمل میں حصہ لینا چاہئے تھا۔ ایسا ہوتا تو اپوزیشن کی تعداد بھی ظاہر ہو جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا یوں یہاں بھی ابتدا ہی میں جو تنازعہ بنا اس کی بناء پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہنگامہ آرائی شاید جاری رہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے اپنی پہلی ہی تقریر میں تعاون کا ذکر کیا تھا میں تو اپنے دونوں دوستوں (سپیکر قائد سنی کونسل پارلیمانی پارٹی) سے عرض کروں گا کہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ذاتی تعلقات ہی کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ دونوں میں یہ خصوصیت ہے اور خود رانا آفتاب اعتدال پسند ہیں توقع اچھے کی ہے اللہ ایسا ہی کرے۔

خلیجی ممالک نے بھارتی فلموں پر پابندی لگادی

میں نے وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا ذکر کیا اور بزرگوں کی معاونت کے بارے میں لکھا ہے تو اس کا اندازہ ان کے ابتدائی اقدامات سے ہو جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے رمضان شریف کی آمد کے حوالے سے ایک بہت بڑے رعائتی پیکج کا اعلان کیا اور اس کی حد بھی بہت ہی متوازن ہے۔ وزیر اعلیٰ کی طرف سے 30 ارب روپے مختص کر کے60لاکھ سے زیادہ خشک راشن بیگ کی تیاری کی ہدایت اور مستحقین کی فہرست تیار کر کے منصفانہ تقسیم کی جائے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی رائے دی کہ ساٹھ ہزار روپے کی آمدنی والا بھی اس مہنگائی کے دور میں مستحق ہی نظر آتا ہے۔ توقع ہے کہ یہ کام احسن طریقے سے ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کو تجربہ ہے، محمد نوازشریف اور چھوٹے بھائی محمد شہباز شریف کے ادوار میں ایسا ہوتا رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے کونسلروں سے یونین کمیٹی کی سطح پر فہرستیں تیار کرائی جاتیں اور ان کے مطابق راشن کونسلر حضرات کو دیا جاتا کہ تقسیم کی ذمہ داری ان کی تھی۔ اس سلسلے کی تشہیر نہیں کی جاتی تھی۔ اس لئے یہ بھی بزرگوں ہی کا ویژن ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ابھی کام شروع کیا ہے اس لئے مزید کی گنجائش نہیں صرف اتنا عرض کروں گا کہ اگر مریم نوازشریف محکموں کو متحرک کروانے میں کامیاب ہو گئیں تو عوام کو حقیقی فائدہ ملنا شروع ہو جائے گا۔

’عمران خان نے مقتدرہ کے ساتھ ملکر 2018ء کا الیکشن جیتا تھا، 2024ء میں جو ’’چن‘‘ چڑھایا گیا ہے یہ بھی تو . . .‘ سہیل وڑائچ نے سب کچھ لکھ دیا

QOSHE -             وزیراعلیٰ کا انتخاب، پارلیمانی روایات؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

            وزیراعلیٰ کا انتخاب، پارلیمانی روایات؟

8 19
29.02.2024

پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا سپیکر ڈپٹی سپیکر کے انتخابات بہتر ماحول میں ہو گئے۔ بعد ازاں قائد ایوان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو سپیکر ملک احمد خاں اور سنی اتحاد کونسل کے درمیان پارلیمانی تنازعہ ہو گیا اور حزب اختلاف کی طرف سے بائیکاٹ کے باعث یکطرفہ رائے شماری ہوئی، مریم نوازشریف کے حق میں 220 اراکین نے ووٹ ڈالا اور وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئیں۔ اب انہوں نے برق رفتاری سے کام شروع کر دیا ہے اور ابتدائی فیصلوں اور ہدایات ہی سے اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کو والد اور چچا کی معاونت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں بعد میں بات کرتے ہیں پہلے اس بائیکاٹ کا ذکر ہو جائے جو قائد ایوان کے انتخاب کے وقت ہوا۔

امریکا نے قرضوں سے آزادی کیلئے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کردی

ملک احمد خان کا تعلق قصور سے اور وہ وکیل ہیں، ان کے والد بھی رکن رہے اور وہ خود بھی چار بار پہلے منتخب ہو چکے ہیں یوں ان کو آئین و قانون کا علم ہے اور پارلیمانی تجربہ بھی ہے۔ میری ان کے والد سے یاد اللہ تھی تو ان سے بھی اچھے مراسم ہیں، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سپیکر کے لئے پہلے مجتبیٰ شجاع الرحمن کا نام سامنے آیا تھا تاہم بعد میں قائد مسلم لیگ اور مرکزی صدر مسلم لیگ محمد نوازشریف اور محمد شہباز شریف کی باہم مشاورت کے بعد یہ فیصلہ تبدیل ہوا اور ملک احمد خان کے نام قرعہ نکل آیا اس تبدیلی پر انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے کہ ملک احمد خان اپنی جماعت، راہنماؤں کا دفاع کرتے چلے آئے تھے اور ہر سوال کے جواب میں موقف پیش کرتے تھے۔ چنانچہ کرسی صدارت پر بیٹھ کر انہوں نے ثابت کیا کہ ان پر اعتماد اور یہ انتخاب درست تھا تاہم مجھے تھوڑا تعجب ہوا کہ قواعد و قانون کے سہارے پارلیمانی روایت پر پوری طرح عمل نہ ہوا۔

بی آر ٹی پشاور کے سٹیشن پر خاتون کی چوری کی واردات کی سی سی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play