عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے اس کی ابتداء پنجاب سے ہوئی، پھر سندھ اور بعد میں دوسرے دونوں صوبوں اور وفاق کا مرحلہ آئے گا۔پنجاب میں پہلی بار خاتون وزیراعلیٰ ہوں گی اس کے لئے مسلم لیگ(ن) نے مریم نواز شریف کو نامزد کیا اور پارلیمانی پارٹی نے توثیق کر دی۔گزشتہ روز (جمعہ) پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا اس کی صدارت سبطین خان نے کی جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، انہوں نے اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے ایوان کو جو بتایا اس کے مطابق پہلے روز صرف حلف برداری ہونا تھی، جبکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے لئے جو بتایا گیا وہ قواعد سے تو مطابقت نہیں رکھتا، تاہم تاحال ذمہ داری سپیکر سبطین خان کی ہے اس لئے ان کے طرزِ عمل پر اعتراض بھی اراکین کی حلف برداری کے بعد ہونے والے اجلاس میں ہو سکے گا۔ بہرحال انتخابی عمل کے بعد منتظر عمل شروع ہو چکا اور پنجاب اسمبلی کے پہلے روز ہی طرزِ عمل ظاہر ہو گیا کہ مستقبل کے لئے ایوان میں حالات کیا ہوں گے۔پہلے ہی روز مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کے درمیان نعرہ بازی ہو گئی اور اندازہ ہوا کہ ایوان کو چلانا کتنا مشکل ہو گا۔شاید اِسی بناء پر قیادت نے سپیکر کے لئے نامزدگی میں تبدیلی کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کی بجائے ملک احمد خان کو اس منصب کے لئے چن لیا گیا جو جماعت کی ترجمانی کرتے چلے آئے،پریکٹسنگ وکیل ہیں اور جواب دہی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کو صوبائی کابینہ کا رکن بنایا جائے گا، ارکان نے حلف اُٹھا لیا، مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد201 بتائی گئی ہے۔

مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن سامنے آگئی

حلف اٹھانے والوں میں نامزد وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے علاوہ مریم اورنگزیب بھی ہیں،ان کو قائد مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف کی ہدایت پر وفاق کے بجائے پنجاب میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یوں متوقع طور پر وہ یہاں صوبائی وزیر اطلاعات ہوں گی اس کے لئے عظمیٰ بخاری اور ملک احمد خان کا نام بھی گردش کرتا چلا آ رہا تھا تاہم مریم اورنگزیب کو نامزد وزیراعلیٰ مریم نواز کی مدد کے لئے پنجاب میں رکھا گیا ہے۔ دیگر عہدوں کے لئے قیادت فیصلہ کر چکی اس لئے وزیراعلیٰ کی حلف برداری کے بعد ہی کابینہ تشکیل پائے گی، حلف برداری کے بعد اراکین نے رجسٹر پر دستخط کئے اور اجلاس ہفتہ کے لئے ملتوی کیا گیا۔آج سپیکر کا انتخاب پہلے ہو گا اس کی نگرانی سپیکر سبطین خان ہی کریں گے اور پہلے انتخاب کے بعد نئے منتخب سپیکر سے حلف لینے کے بعد سبکدوش ہو جائیں گے۔نئے سپیکر چارج سنبھال کر ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرائیں گے اور قائد ایوان کے لئے انتخابی شیڈول کا اعلان کریں گے جس کے مطابق باقاعدہ انتخاب ہو گا،سنی اتحاد کونسل (تحریک انصاف) کی طرف سے میاں اسلم اقبال کو مقابلے میں اتارا گیا جو 9مئی سے روپوش تھے اور دو روز قبل پشاور میں ظاہر ہو کر راہداری ضمانت کرائی اب ان کو آزادی کے لئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا ہے۔

بھارتی خاتون اپنے والد کی یاد میں لاہور کا تھانہ دیکھنے پہنچ گئیں

گزشتہ روز(جمعہ) پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف والے جو اب سنی (اتحاد) ہیں، کس انداز میں کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ فیصل آباد سے منتخب رکن رانا آفتاب احمد خان نمایاں ہوئے،جنہوں نے مہمانوں کی آمد کے حوالے سے سوال اٹھایا رانا آفتاب احمد خان کے لئے یہ ایوان نیانہیں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نہ صرف اسمبلی کے رکن بلکہ وزیر بھی رہ چکے اور پارلیمانی تجربے کے حامل ہیں۔اسلم اقبال بھی رکن اور وزیر رہ چکے ہوئے ہیں ان کا ایوان میں حاضر رہنا عدالتی صوابدید پر ہو گا کہ ان کا نام9مئی کے واقعات میں کئی ایف آئی آر میں ہے اِسی لئے پہلے روز ہی یہ خدشہ ظاہر کر دیا گیا کہ ان کی آمد پر گرفتار کر لیا جائے گا جس پر سپیکر سبطین خان نے واضح کیا کہ ایسا ہوا تو وہ پروڈکشن آرڈر جاری کریں گے،دونوں اطراف سے فیصلے اعلیٰ قیادت کی منشاء اور منظوری سے ہوتے ہیں اِس لئے اراکین قبول بھی کرتے ہیں۔سنی اتحاد کی طرف سے میاں اسلم اقبال قائد ایوان کے لئے انتخاب میں حصہ لیں گے تو مریم نواز کے منتخب ہونے کے بعد قائد حزبِ اختلاف ان کو ہی ہونا ہو گا۔ البتہ ایک اطلاع کے مطابق رانا آفتاب احمد خان ان کی نیابت کے لئے نامزد ہوں گے۔دیکھئے آج اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔

ملتان سلطان اور پشاور زلمی کا میچ دیکھتے ہوئے انضمام الحق کے قریبی دوست مجتبیٰ کھوکھر دل کا دورہ پڑنے انتقال کر گئے

ملک کے معروضی حالات کا تقاضہ تو یہی ہے کہ تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور معیشت کو سنبھالنے اور چلانے کے فیصلے اتفاق رائے سے کر لیں یہ بات کہتے سب ہیں، لیکن عمل مختلف ہوتا ہے، حتیٰ کہ وفاق میں مجوزہ اتحادی حکومت بھی آسان نہیں ہو گی گو پیپلزپارٹی نے پورا وزن مسلم لیگ (ن) کے پلڑے میں ڈالا ہے تاہم اپنی شرائط بھی بتا دی ہیں، پہلی فرمائش آصف علی زرداری کی صدارت تھی جو آسانی سے منظور کر لی گئی کہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور یوں بھی موجودہ آئینی صورتحال میں صدر کا عہدہ اہم ہونے کے باوجود وزیراعظم کی سفارش کا پابند ہے، البتہ آصف علی زرداری ایک ایسے مدبر ثابت ہو سکتے ہیں جو حریفوں کو بھی سنبھال لیں اور مصالحتی کردار بھی ادا کر سکیں۔ان کو ایسا کرنا ہو گا کہ ایم کیو ایم بھی اتحادی اور معتبر ہے اس کو پیپلزپارٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں اس کے علاوہ ایم کیو ایم نے آئین کو ناکارہ قرار دے کر جو تین ترامیم تیار کر رکھی ہیں ان پر بھی پیپلزپارٹی کے تحفظات ہیں اس لئے یہ مسئلہ بھی متوقع وزیراعظم اور صدر کے لئے باہمی مشاورت کا ہو گا۔اس کے علاوہ دیگر سیاسی امور بھی باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کا تقاضہ کریں گے جہاں تک حالاتِ حاضرہ میں موجودہ مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات کا سوال ہے تو ہر دو حضرات کے تعلقات خوشگوار اور دونوں ہی ان کو جاری رکھنے کے قائل ہیں۔

پی سی بی کاآسٹریلوی انڈر 19 کرکٹ لیگ کو تسلیم کرنے سے انکار

بات کو یہیں تک رکھتے ہیں کہ آئندہ آنے والے حالات اور واقعات مشکل ترین،عوام کی توقعات بہت ہیں ہر دو بڑی جماعتوں نے بڑھاوا بھی دیا ہوا ہے اس لئے برسر اقتدار اتحاد کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوں گے۔میرے خیال میں بڑا مسئلہ منتخب اراکین کی فرمائشوں اور مطالبات کا ہو گا کہ ان کا بڑا مسئلہ تبادلے اور اپنے لئے ترقیاتی منصوبے ہوتے ہیں، جبکہ تقاضہ وقت یہ ہے کہ نہ صرف سرکاری ملازمین کو تحفظ کا یقین ہو،بلکہ ترقیاتی پروگرام بھی باقاعدہ منصوبہ بندی سے اور مساوی ہونا چاہئے۔یہ نہ ہو کہ کہیں زیادہ اور کہیں کم ہو اس سے منصوبہ بندی متاثر ہوتی ہے۔یوں بھی گڈ گورننس کی ضرورت کہیں زیادہ ہے،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس پر زیادہ توجہ دینا ہو گی کہ عوام نہ صرف بیروز گاری، مہنگائی سے تنگ ہیں،ان کو صحت اور تعلیم کے مسائل بھی ہیں اور سرکاری اہلکاروں سے بھی پریشان ہیں اللہ سے بہتری کی دُعا ہے۔

''ہیلتھ کارڈ مریم نواز نے متعارف کروایا تھا،، عظمی بخاری کا بیان

QOSHE -         یہاں تک تو پہنچے، اللہ سے بہتری کی دُعا کریں! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        یہاں تک تو پہنچے، اللہ سے بہتری کی دُعا کریں!

14 17
24.02.2024

عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے اس کی ابتداء پنجاب سے ہوئی، پھر سندھ اور بعد میں دوسرے دونوں صوبوں اور وفاق کا مرحلہ آئے گا۔پنجاب میں پہلی بار خاتون وزیراعلیٰ ہوں گی اس کے لئے مسلم لیگ(ن) نے مریم نواز شریف کو نامزد کیا اور پارلیمانی پارٹی نے توثیق کر دی۔گزشتہ روز (جمعہ) پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا اس کی صدارت سبطین خان نے کی جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، انہوں نے اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے ایوان کو جو بتایا اس کے مطابق پہلے روز صرف حلف برداری ہونا تھی، جبکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے لئے جو بتایا گیا وہ قواعد سے تو مطابقت نہیں رکھتا، تاہم تاحال ذمہ داری سپیکر سبطین خان کی ہے اس لئے ان کے طرزِ عمل پر اعتراض بھی اراکین کی حلف برداری کے بعد ہونے والے اجلاس میں ہو سکے گا۔ بہرحال انتخابی عمل کے بعد منتظر عمل شروع ہو چکا اور پنجاب اسمبلی کے پہلے روز ہی طرزِ عمل ظاہر ہو گیا کہ مستقبل کے لئے ایوان میں حالات کیا ہوں گے۔پہلے ہی روز مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کے درمیان نعرہ بازی ہو گئی اور اندازہ ہوا کہ ایوان کو چلانا کتنا مشکل ہو گا۔شاید اِسی بناء پر قیادت نے سپیکر کے لئے نامزدگی میں تبدیلی کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کی بجائے ملک احمد خان کو اس منصب کے لئے چن لیا گیا جو جماعت کی ترجمانی کرتے چلے آئے،پریکٹسنگ وکیل ہیں اور جواب دہی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کو صوبائی کابینہ کا رکن بنایا جائے گا، ارکان نے حلف اُٹھا لیا، مسلم لیگ(ن) سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد201 بتائی گئی ہے۔

مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن سامنے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play