سیاسی خلیج اور عوامی توقعات
اِس وقت قومی سطح پر سیاسی تقسیم سامنے آ چکی ہے ایک طرف وہ جماعتیں ہیں،جنہوں نے حکومت بنانے کے لئے اتحاد کر لیا ہے اور دوسری طرف وہ جماعتیں ہیں جو آٹھ فروری کے انتخابات کو انتہائی متنازعہ قرار دے کر مسترد کر رہی ہیں۔ان میں تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ وہ انتخابات میں جیتی ہے،جسے دھاندلی کر کے ہروایا گیا ہے، جبکہ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام انتخابات کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا شاخسانہ قرار دے رہی ہیں، جس نے الیکشن کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ بلوچستان کی کچھ جماعتیں بھی سرا پا احتجاج ہیں اور انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں،جبکہ سندھ میں جی ڈی اے بھی نتائج کو مسترد کر چکی ہے۔بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا عندیہ دیا ہے،جس میں یہ کہا جائے گا آئی ایم ایف قرض دینے سے پہلے دھاندلی کے بارے میں آڈٹ کرانے کا مطالبہ کرے۔اُدھر مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی ہے وہ دھاندلی کے خلاف اپنے زورِ بازو پر احتجاج کریں گے۔ بقول اُن کے جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو تنقید میرا حق ہے،کیا پارلیمینٹ اتنی بڑی مجبوری ہے کہ ہم اُس کی ممبر شپ کے لئے بوٹ چاٹتے رہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی یہ بات بہت اہم ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن اور بیورو کریسی نے غیر جانبداری نہیں دکھائی،جس کی وجہ سے الیکشن کا سارا عمل بے اعتبار ہو گیا۔انہوں نے آئینی و جمہوری راستے سے دھاندلی بے نقاب کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔اس ماحول میں حکومت سازی کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے اگر تو کوئی یہ سمجھتا ہے ماضی کی طرح یہ گرد بھی رفتہ رفتہ بیٹھ جائے گی اور معاملات نارمل ہو جائیں گے،تو یہ اُس کی خام خیالی ہے۔ماضی کے ماحول اور آج کے حالات میں بڑا فرق ہے۔کشیدہ فضاء کی بو بڑی آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔حالات کو نارمل کرنے کے لئے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website