غالباً یہ عمر کے اس حصے کی وجہ ہے یا بچپن کی وہ تربیت اس طرف مائل کرتی ہے کہ ہر دم معروضی حالات دیکھ کر احادیث رسول اکرمؐ یاد آتی ہیں اور انسانی تعلقات بھی یادوں کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے موسمی وائرل کا شکار چلا آ رہا ہوں۔ کھانے پینے میں احتیاط اور آزمودہ نسخوں کا استعمال جاری تھا۔ کبھی اضافہ ہوا تو پھر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، چنانچہ دفتری امور بھی گھر بیٹھ کر سرانجام دینا پڑے تاہم گزشتہ روز سے اس وائرل انفیکشن میں مزید شدت آ گئی کہ گلا بالکل بند ہو گیا۔ بولا ہی نہیں جاتا، چنانچہ آرام، غرارے اور پیناڈول کا نسخہ آزما رہا ہوں۔ دقت خصوصاً اس وقت ہوتی ہے کہ کسی مہربان کا فون آئے،اس طرف سے تو آواز صاف سنائی دیتی ہے جواب نہیں دے پاتا لہٰذا فون سننے سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔

بالاج ٹیپو قتل کیس، گوگی بٹ کا بہنوئی خواجہ ندیم وائیں گرفتار

ان حالات میں تو گھر سے باہر نکلنا بھی دشوار نظر آتا ہے۔ چنانچہ کمرے میں بند ہو کر رہ گیا۔ ٹیلی ویژن دیکھنا ہی ایک ذریعہ ہے کہ اخبار فروش آج کا اخبار پھینک کر نہیں گیا، چنانچہ ٹی وی کے علاوہ فیس بک اور ویٹس ایپ سے گزارہ کرنا مجبوری ہے۔ گزشتہ روز کے کالم پر قارئین کی رائے بھی موصول ہوئی ہے اور طرح طرح کے تبصرے ملے ہیں۔

خیال تو تھا کہ آج حکومت سازی کے حوالے سے مزید بات کروں گا کہ ہمارے تحریک انصاف والے بھائی حالیہ انتخابات میں اپنی پذیرائی کو سنبھال نہیں پا رہے اور اپنا روپ دکھانا شروع ہو گئے ہیں لیکن اس دوران سوشل میڈیا کے توسط سے علم ہوا کہ نذیر ناجی چل بسے ہیں وہ طویل علالت کے بعد اللہ کے حضور حاضر ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ نذیر ناجی اچھے قلمکار تھے۔ ان کے ساتھ تعلق کی کئی پرتیں ہیں۔جو نرم گرم رہی بلکہ چند روز قبل میں ان کے بھائی علی اصغر عباس سے ذکر کر رہا تھا کہ روزنامہ ”مساوات“ کے دور میں ان کے ساتھ ہونے والی ایک زیادتی کا ازالہ اور معذرت کرنا چاہتا ہوں تو ان سے پتہ چلا کہ مرحوم شدید علیل ہیں اور اب ان کی یادداشت بھی ساتھ چھوڑ گئی ہے، اس لئے یہ ہو نہیں سکے گا۔ چنانچہ ارادہ بدلا اور ان کی صحت کے لئے دعا گو رہا۔ اب ان کی وفات، نمازِ جنازہ اور تدفین کی جو تفصیل دیکھی، اس کے مطابق نماز اور تدفین آج (جمعرات) کو ہونا ہے اس وقت میں خود علیل اور طبی ہدایت کے مطابق گھر تک محدود ہوں اس لئے شرکت سے محروم رہا البتہ دعائے مغفرت کرتا رہوں گا۔ نذیر ناجی میں انسانی خامیاں تھیں لیکن وہ ایک اہل صحافی تھے جن کو قلم پر کمانڈ تھی۔ انہوں نے اپنی قلم سے آغا شورش کاشمیری جیسے بڑے قلمکار کا مقابلہ کیا اور ہفت روزہ شہاب کی ادارت کے دوران چٹان (ہفت روزہ) کے ساتھ متھا لگائے رکھا تاہم یہ ایک عارضی دور تھا، وہ پھر سے مثبت تحریروں کی طرف لوٹ آئے اور نام کمایا، ان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جا سکتا ہے لیکن اس دنیا فانی میں کسی نے بھی مستقل نہیں رہنا اس لئے جانے والے کے لئے کلمہ خیر ہی کہنا بہتر ہوتا ہے وہ اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ آخری منزل کو روانہ ہو گئے۔

پنجاب اسمبلی اجلاس، ن لیگ نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب سے متعلق اچانک حیران کن اعلان کر دیا

مسلمان کے لئے ان کی خوبیوں کا تذکرہ ہی بہتر روایت ہے۔

میں نے سوشل میڈیا کا ذکر کیا تو ٹی وی پر امریکی ترجمان کا فرمان نظر سے گزرا، انہوں نے پاکستان میں اظہار رائے کا ذکر کیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے تشویش ظاہر کی ہے۔ اصولی طور پر یہ درست موقف ہے لیکن امریکی ترجمان کی زبان سے اچھا نہیں لگا کہ امریکہ اظہار رائے تو کیا انسانی المیہ پر ایسا موقف سامنے لا چکا ہے جس سے انسانیت شرما رہی ہے، امریکی نمائندہ نے سلامتی کونسل میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔ اس میں غزہ میں جنگ بندی اور وہاں سے اسرائیلی فوج کے نکلنے کو کہا گیا تھا۔غزہ میں اسرائیل نہ صرف ناجائز قابض ہے بلکہ اب مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی کرتا چلا جا رہا ہے۔ غزہ کھنڈر بن چکا، قریباً ایک لاکھ فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے۔ ہسپتال، مساجد اور گرجا گھر بھی نشانہ بنے۔ اس بربریت کے خلاف مسلمان ممالک مذمت سے آگے بڑھ نہیں پا رہے تو اس کی وجہ بھی امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کی آڑ میں خود یہ جنگ مسلط کئے ہوئے ہے۔ اس ملک (امریکہ) کے ترجمان کی طرف سے انسانیت کی بات مضحکہ خیز تو لگی تاہم یہ یقین ہو گیا کہ 1977ء کی طرح امریکہ پھر سے ہمارے ملک میں مداخلت کر رہا ہے ورنہ حقائق جانتے ہوئے بھی اظہار رائے کے پردے میں پاکستان میں جاری تخریب کاری کی حمایت نہ کی جاتی بلکہ بات حقیقت پسندی سے ہوتی، جہاں اظہار رائے کے تحفظ کا ذکر ہوتا وہاں اس کی حدود کا بھی تعین ضرور کیا جاتا، میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی تنظیم کے بینر تلے آزادی صحافت کی جدوجہد میں ملازمتوں سے فراغت اور قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کیا ہے،ہمیں کسی بھی دور(سول یا آمرانہ) میں یہ آزادی نصیب نہیں ہوئی تاہم یہ جانتا ہوں کہ اس امریکہ بہادر نے آمرانہ ادوار میں مظالم اور اظہار رائے پر پابندی کی اس طرح مذمت کبھی نہیں کی۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس، ن لیگ کے اراکین اسمبلی کیا چیز ہاتھ میں اٹھا کر اسمبلی پہنچ گئے ؟ جانئے

میں خود ایک عمر رسیدہ صحافی ہوں جس نے بہت ادوار دیکھے۔بیرونی ممالک کے اندازِ صحافت کو بھی دیکھا، میرا اپنا تجربہ ہے کہ خود امریکہ میں اس ملک کی پالیسیوں کے خلاف بات کرنا کتنا مشکل اور اس کے بدلے میں جو کارروائی کی جاتی ہے، اس پر بات کرنا بھی ناممکن ہے۔بہرحال یہ ایک اہم ایشو ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی درست اقدام تو نہیں،اس سلسلے میں عدالت کے احکام کی بات کر لی جائے تو بہتر۔ سندھ ہائیکورٹ کے دو مختلف حکم نظر سے گزرے ہیں۔ ایک فاضل جج نے ہدایت کی کہ سوشل میڈیا سے فحش مواد کو ہٹایا جائے، اسی ہائیکورٹ سے حکم ہوا کہ سوشل میڈیا پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔قارئین خود اندازہ لگائیں کہ ہر دو احکام پر عمل کیسے ہو گا۔کیا سوشل میڈیا کے ذریعے فراڈ، دھوکا بازی، فحاشی اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری رہے، کیا سوشل میڈیا کو پاکستانیوں کے حقوق پامال کرنے کی مکمل آزادی ملنا چاہئے اور کیا سوشل میڈیا کے ذریعے ملک دشمنی جائز ہے؟ اور اس میڈیا کے توسط سے بیرونی ممالک سے پاکستان کے اندرونی معاملات پر بے جا مداخلت کی اجازت ہونا چاہئے۔اس کا جواب بھی تو ملے، میں بھی مکمل آزادی کا قائل ہوں لیکن ان تمام اخلاقی، قانونی اور صحافتی پابندیوں کے ساتھ جو میری تنظیم کا حقیقی موقف چلا آ رہا ہے اس لئے یہ امور اسی پہلو سے دیکھنا ہوں گے۔

ثناء جاوید اور شعیب ملک کی قذافی سٹیڈیم سے نئی تصاویر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی

QOSHE -         ہم،غم اور آزادی کے نام پر مداخلت؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        ہم،غم اور آزادی کے نام پر مداخلت؟

8 18
23.02.2024

غالباً یہ عمر کے اس حصے کی وجہ ہے یا بچپن کی وہ تربیت اس طرف مائل کرتی ہے کہ ہر دم معروضی حالات دیکھ کر احادیث رسول اکرمؐ یاد آتی ہیں اور انسانی تعلقات بھی یادوں کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے موسمی وائرل کا شکار چلا آ رہا ہوں۔ کھانے پینے میں احتیاط اور آزمودہ نسخوں کا استعمال جاری تھا۔ کبھی اضافہ ہوا تو پھر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، چنانچہ دفتری امور بھی گھر بیٹھ کر سرانجام دینا پڑے تاہم گزشتہ روز سے اس وائرل انفیکشن میں مزید شدت آ گئی کہ گلا بالکل بند ہو گیا۔ بولا ہی نہیں جاتا، چنانچہ آرام، غرارے اور پیناڈول کا نسخہ آزما رہا ہوں۔ دقت خصوصاً اس وقت ہوتی ہے کہ کسی مہربان کا فون آئے،اس طرف سے تو آواز صاف سنائی دیتی ہے جواب نہیں دے پاتا لہٰذا فون سننے سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔

بالاج ٹیپو قتل کیس، گوگی بٹ کا بہنوئی خواجہ ندیم وائیں گرفتار

ان حالات میں تو گھر سے باہر نکلنا بھی دشوار نظر آتا ہے۔ چنانچہ کمرے میں بند ہو کر رہ گیا۔ ٹیلی ویژن دیکھنا ہی ایک ذریعہ ہے کہ اخبار فروش آج کا اخبار پھینک کر نہیں گیا، چنانچہ ٹی وی کے علاوہ فیس بک اور ویٹس ایپ سے گزارہ کرنا مجبوری ہے۔ گزشتہ روز کے کالم پر قارئین کی رائے بھی موصول ہوئی ہے اور طرح طرح کے تبصرے ملے ہیں۔

خیال تو تھا کہ آج حکومت سازی کے حوالے سے مزید بات کروں گا کہ ہمارے تحریک انصاف والے بھائی حالیہ انتخابات میں اپنی پذیرائی کو سنبھال نہیں پا رہے اور اپنا روپ دکھانا شروع ہو گئے ہیں لیکن اس دوران سوشل میڈیا کے توسط سے علم ہوا کہ نذیر ناجی چل بسے ہیں وہ طویل علالت کے بعد اللہ کے حضور حاضر ہوئے ہیں۔ دعا ہے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play