کہا تویہی جا رہا تھا کہ معاشی استحکام کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے اور اس کے لئے عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اللہ اللہ کرکے انتخابی عمل پورا ہو گیا لیکن استحکام تاحال نظر نہیں آرہا، عام حضرات اور منصوبہ سازوں کے حوالے سے نتائج وہ نہ نکلے جس کے لئے یہ سب اہتمام کیا گیا تھا بلکہ نتائج نے معاملے کو الجھا دیا ہے کیونکہ جو نتائج سامنے آئے ان کی وجہ سے عوامی مینڈیٹ منقسم ہو گیا، اس کے ساتھ ہی دیرینہ تنازعہ شروع ہو گیا جو پاکستانی سیاست کا خاصہ ہے، چاروں طرف سے دھاندلی کا شور اٹھا، حتیٰ کہ جیتنے والوں نے بھی الزام لگانا شروع کر دیئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتخابات کی تکمیل کے بعد حکومت سازی کے مراحل طے ہوتے، حکومتیں بن جاتیں اور جماعتوں کے بقول عوامی بہبود کے کام شروع کر دیئے جاتے۔ وفاقی حکومت ایوان کے مکمل تعاون کے ساتھ معاشی خرابیوں کو دور کرنے اور معیشت کی بحالی میں مصروف ہو جاتی لیکن یہاں ایوانوں کی تکمیل سے قبل ہی محاذ آرائی میں شدت آ گئی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو وفاق میں سب سے زیادہ نشستیں مل گئیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی نشستیں توقع سے کم رہ گئیں۔ مسلم لیگ(ن) دوسرے، پیپلزپارٹی تیسرے اور ایم کیو ایم چوتھے نمبر پر آ گئی، مسلم لیگ(ن) کے لئے یہ مایوسی کا عمل تھا کہ اس کا سارا زور اس پر تھا، قائد جماعت محمد نوازشریف سادہ اکثریت کے ساتھ چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے اور ملک کی معیشت کو سنبھال کر ترقی کی طرف گامزن کریں گے۔ جب یہ آس پوری نہ ہوئی تو نئی حکمت عملی بنائی گئی،محمد نوازشریف خود جماعتی رہبر کی حیثیت سے باہر رہے اور چھوٹے بھائی کو اتحادی حکومت بنا کر یہ ہدف پورا کرنے کا موقع دیا کہ ان کو بارہ جماعتی اتحادی حکومت چلانے کا تجربہ ہے اور سولہ ماہ تک انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود یہ کام کیا تھا، تاہم یہ عمل جتنا آسان سمجھا گیا، اتنا آسان ثابت نہ ہوا، ایم کیو ایم کی طرف سے زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا گیا، لیکن چونکہ توازن پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہے کہ اس کے پاس قومی اسمبلی کی 54نشستیں ہیں۔ موجودہ صورت حال میں پیپلزپارٹی اگر اتحاد میں شامل ہو توسادہ اکثریت سے حکومت بن جائے گی۔

اتحادی حکومت اچھا نہیں کرے گی تو سب کو ڈس کریڈٹ ہوگا،رانا ثنااللہ

اسی پس منظر کے ساتھ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے مذاکرات شروع ہوئے تھے، کیونکہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت ہی سے منع کر دیا تھا، یوں پیپلز پارٹی کے پاس بھی ایک ہی راہ تھی اور ہے کہ مسلم لیگ (ن) اتحادی حکومت بنائے دوسری صورت میں ایوان میں کسی کے پاس بھی اکثریت نہ ہوتی اور بالآخر نئے انتخابات کی طرف جانا پڑتا، معروضی حالات میں یہ بہت مشکل مرحلہ ہے اسی حقیقت کی روشنی میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا جو منگل کی شب کے آخری حصے میں تکمیل پذیر ہوا اور معاملات طے پا گئے،فیصلہ ہوا کہ وزیراعظم کے امیدوار محمد شہبازشریف اور صدارت کے لئے آصف علی زرداری موزوں ہوں گے، اس کے علاوہ اور بھی کئی جزئیات طے کرلی گئی ہیں، اس طرح بظاہر سیاسی ہلچل تو کچھ تھم سی گئی ہے لیکن انتشار تاحال استحکام میں بدلے جانے کا یقین مکمل نہیں ہوا کہ تحریک انصاف اپنے بیان پر کھڑی ممکنہ آپشنز استعمال کررہی ہے۔

رائلی روسو بہت اچھی کپتانی کر رہے ہیں: سرفراز احمد

جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو حالیہ انتخابات میں رائے دہندگان نے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود تحریک انصاف کے حمائت یافتہ آزاد امیدواروں کو کامیاب کرایا اور انصافیوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی اکثریت کا دعویٰ کر سکیں، اب تحریک انصاف کا موقف ہے کہ انتخابات میں تاریخی دھاندلی ہوئی ہے۔ فارم 45کے مطابق اس کے حمائت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 180ہے جو جیت گئے اور ان کو فارم 47میں ہرایا گیا اور یہ تعداد 92نشستوں تک محدود کر دی گئی، تحریک انصاف کو آزاد اراکین کی وجہ سے یہ مشکل پیش آئی کہ اس صورت میں اس کو خواتین کی مخصوص نشستیں نہیں ملنا تھیں، اس کے لئے یہ راہ نکالی گئی کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرکے اراکین کو اس میں شامل ہونے کی ہدایت کی گئی اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے الیکشن کمشن سے بھی رجوع کر لیا، ابھی تک مکمل تعدادتو واضح نہیں ہوئی لیکن حمائت یافتہ آزاد منتخب رکن ٹوٹا بھی نہیں اس لئے یہ سب یقینا اسی کونسل کی پارلیمانی و پارٹی کا حصہ بنیں گے تاحال الیکشن کمیشن کا ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم یہ فیصلہ تو ہونا ہی ہے کہ اب سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی اجازت ملتی ہے یا اس میں بھی تاخیر کی جاتی ہے۔

نگران کابینہ نے 35 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی منظوری دے دی

اس سلسلے میں میری رائے چودھری اعتزازاحسن کے موقف کے مطابق ہے کہ تحریک انصاف رجسٹرڈ جماعت ہے، اس کی طرف سے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے خلاف ورزی ہوئی اور سزا کے طور پر انتخابی نشان نہ دیا گیا، تاہم رجسٹریشن موجود ہے اور اس کی پوزیشن دوسری رجسٹرڈ جماعتوں کے برابر ہے،اس لئے آزاد اراکین کو اپنی جماعت ہی میں شامل ہونا چاہیے لیکن ایک بیرسٹر کے مقابلے میں متعدد بیرسٹر حضرات نے دوسرا فیصلہ کر لیا اور سنی اتحاد کونسل کا رخ کیا، حالانکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا خود بھی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزادرکن کی حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں۔ اس لئے اب یہ نکتہ زیر بحث تو آئے گا کہ ایس اے بابر موجود ہیں جنہوں نے اعتراض بھی کر دیا ہے۔

معروف بھارتی ریڈیو پریزنٹرامین سیانی انتقال کرگئے

یہ سارا پس منظر ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ جس سیاسی استحکام کی توقع میں عام انتخابات کرائے گئے وہ حاصل نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے پھر بھڑک لگا دی ہے اور ان کی طرف سے عوامی بہبود کے نعروں کے باوجود محاذ آرائی ہوگی، قومی اسمبلی میں بھاری بھرکم تعداد کے باعث اتحادی حکومت کو مشکل پیش آئے گی اور ہر اجلاس میں ہنگامہ آرائی ہوگی۔ اس صورت حال میں محمد شہبازشریف کو وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بھی آرام اور اطمینان سے کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور یوں معیشت کا سنبھلنا جو لازم ہے وہ بھی مشکل ہو جائے گا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

ان حالات میں اگرچہ اب تک اندرونی کہانی سامنے نہیں آئی کہ اتحاد کا فیصلہ رات گئے ہوا تھا، اس لئے آج ہی کئی باتیں سامنے آئیں گی۔ تاہم میرے خیال میں تنازعہ کسی بات پر نہیں تھا، ایک تو پیپلزپارٹی کو کابینہ میں شرکت پر راضی کرنا اور دوسرا مسئلہ گورنروں کی تقرری تھا،کیونکہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنا گورنر چاہتی ہے جبکہ وہاں گورنر ٹیسوری براجمان ہیں جن کا تقرر پیپلزپارٹی کی رضامندی سے ہی ہوا لیکن ان ٹیسوری صاحب نے اول روز سے ایم کیو ایم کے لئے کام کیا، حتیٰ کہ متحدہ کے تینوں دھڑوں کو پھر سے ایک کرانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایم کیو ایم کو جتوانے کے لئے ہر ممکن مدد کی اور پھر وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کا بھی حصہ بنے رہے اور توازن قائم نہ رکھ سکے۔ یہ امر پیپلزپارٹی کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوا اور اب وہ گورنر کی تبدیلی چاہتی ہے جبکہ محمد شہباز شریف کے لئے یہ مشکل ہے کہ اس طرح متحدہ ناراض ہوتی اور 17ووٹ خلاف ہو جاتے ہیں چنانچہ اس عمل کو دوسری کئی شرائط کے ساتھ حل کیا گیا، صدر کے لئے آصف علی زرداری کو متفقہ امیدوار بنا لیا گیا، بلوچستان میں مخلوط حکومت کی سربراہی پیپلزپارٹی کو مل گئی، پنجاب کی گورنر شپ کا اعلان کر دیاگیا اور باقی سب مراحل سے خود پیپلزپارٹی دستبردار ہو گئی اور اب دلچسپی رکھنے والے سیاسی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ اس اتحاد کی بنیاد خلوص پر نہیں،مفادات پر ہے اس لئے آگے چل کر مشکل تو ہوگی، اس کے علاوہ ایم کیو ایم (متحدہ) کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کم مطالبات پر اتحاد کر کے بتدریج خواہشات اور مطالبات میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے دیکھیں اس معاملے میں کیا ہوتا ہے، ابھی تو کئی مراحل باقی ہیں۔تازہ خبر یہ ہے کہ ایم کیوایم نے شہباز شریف سے ملاقات سے پہلے ہی کہ دیا کہ وہ سندھ کی گورنر شپ سے دستبردار نہیں ہو گی۔

نگراں وفاقی کابینہ کا اجلاس آج طلب

عوام کی حد تک قدرے مایوسی نظر آئی کہ نگران حکومتوں نے عبوری کی بجائے مستقل فیصلوں کی لائن لگا دی ہے اور جب منتخب حضرات منصب سنبھالیں گے تو ان کو مشکل پیش آئے گی۔ میرے نزدیک دو امر اہم ہیں، ایک قرضوں کی ادائیگی اور دوسرا مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی لانا، اگر عوام کی یہ امیدیں برآنہ آئیں تو مایوسی کہاں تک جائے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا، ہماری پھر استدعا ہے کہ سیاسی قائدین اور عناصر اپنے کہے الفاظ کا پاس کریں اور سب سرجوڑ کر ملک اور عوام کی بہبود اور بہتری کے لئے کام کریں کہ صرف کہنا کافی نہیں عمل ضروری ہے۔

QOSHE -          سیاسی استحکام، کیوں،کیسے اور کب؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         سیاسی استحکام، کیوں،کیسے اور کب؟

10 1
22.02.2024

کہا تویہی جا رہا تھا کہ معاشی استحکام کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے اور اس کے لئے عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اللہ اللہ کرکے انتخابی عمل پورا ہو گیا لیکن استحکام تاحال نظر نہیں آرہا، عام حضرات اور منصوبہ سازوں کے حوالے سے نتائج وہ نہ نکلے جس کے لئے یہ سب اہتمام کیا گیا تھا بلکہ نتائج نے معاملے کو الجھا دیا ہے کیونکہ جو نتائج سامنے آئے ان کی وجہ سے عوامی مینڈیٹ منقسم ہو گیا، اس کے ساتھ ہی دیرینہ تنازعہ شروع ہو گیا جو پاکستانی سیاست کا خاصہ ہے، چاروں طرف سے دھاندلی کا شور اٹھا، حتیٰ کہ جیتنے والوں نے بھی الزام لگانا شروع کر دیئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتخابات کی تکمیل کے بعد حکومت سازی کے مراحل طے ہوتے، حکومتیں بن جاتیں اور جماعتوں کے بقول عوامی بہبود کے کام شروع کر دیئے جاتے۔ وفاقی حکومت ایوان کے مکمل تعاون کے ساتھ معاشی خرابیوں کو دور کرنے اور معیشت کی بحالی میں مصروف ہو جاتی لیکن یہاں ایوانوں کی تکمیل سے قبل ہی محاذ آرائی میں شدت آ گئی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو وفاق میں سب سے زیادہ نشستیں مل گئیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی نشستیں توقع سے کم رہ گئیں۔ مسلم لیگ(ن) دوسرے، پیپلزپارٹی تیسرے اور ایم کیو ایم چوتھے نمبر پر آ گئی، مسلم لیگ(ن) کے لئے یہ مایوسی کا عمل تھا کہ اس کا سارا زور اس پر تھا، قائد جماعت محمد نوازشریف سادہ اکثریت کے ساتھ چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے اور ملک کی معیشت کو سنبھال کر ترقی کی طرف گامزن کریں گے۔ جب یہ آس پوری نہ ہوئی تو نئی حکمت عملی بنائی گئی،محمد نوازشریف خود جماعتی رہبر کی حیثیت سے باہر رہے اور چھوٹے بھائی کو اتحادی حکومت بنا کر یہ ہدف پورا کرنے کا موقع دیا کہ ان کو بارہ جماعتی اتحادی حکومت چلانے کا تجربہ ہے اور سولہ ماہ تک انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود یہ کام کیا تھا، تاہم یہ عمل جتنا آسان سمجھا گیا، اتنا آسان ثابت نہ ہوا، ایم کیو ایم کی طرف سے زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا گیا، لیکن چونکہ توازن پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہے کہ اس کے پاس قومی اسمبلی کی 54نشستیں ہیں۔ موجودہ صورت حال میں پیپلزپارٹی اگر اتحاد میں شامل ہو توسادہ اکثریت سے حکومت........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play