ملک کے جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں انہی حالات میں ہمارے سیاست دان حضرات اور سیاسی جماعتوں کا جو طرز عمل ہے وہ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا، ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کے لئے موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور یہ سب بھی ہم عوام اور ملکی بہبود کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ سب کہتے اور مانتے ہیں کہ معیشت اور ملکی مسائل کا حل مکمل اتفاق رائے میں ہے لیکن اسی پر اتفاق نہیں ہو پا رہا ہر ایک اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے کھڑا ہے اور مل کر ملکی اہمیت کے فیصلوں سے گریز کیا جا رہا ہے۔

انہی حالات میں مجھے اپنے حضرت علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری بہت ہی یاد آ رہے ہیں۔ ان کی وفات کا دن 2 شعبان المعظم ہے جو مجھے یاد رہتا ہے تاہم اس بار میں بھی سیاسی منظر نامے کی رو میں بہہ گیا اور ان کا ذکر نہ کر سکا۔ حضرت ابوالحسنات کی نرینہ اولاد بھی حیات نہیں اس لئے ان کے یوم وفات پر یاد کرنے کی ذمہ داری ان کے نواسے نبھاتے ہیں وہ سہ روزہ تقریبات ہی کا اہتمام کرتے ہیں جو 2 شعبان المعظم سے4 شعبان المعظم تک جاری رہتی ہیں، اس دوران حضرات علی ہجویریؒ کے مزار کے پہلو میں مدفون علامہ ابوالحسنات کے مزار پر فاتحہ خوانی اور مختصر محفل بھی ہوتی ہے۔ میں اس بار سیاسی امور میں الجھا رہا اس لئے مجھے تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ان کا یوم وفات آیا اور گزر گیا۔ بہرحال آج مجھے بری طرح یاد آئے کہ جو منظر مسلمان ممالک اور خصوصاً ہمارے پیارے پاکستان کا ہے اس بارے میں وہ احادیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ جو دور گزر رہا اور جو آئے گا اس کے اچھے اور ناپسندیدہ پہلوؤں کے حوالے سے ہمارے پاس راہبری موجود ہے اگر ہم (مسلمان) عمل کریں تو مصائب اور مسائل سے بہتر طور پر نبرد آزما ہو سکتے ہیں کہ ان حالات کے حوالے سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی آگاہ کر کے خبردار کیا گیا تھا کہ مسلمان گمراہی کا راستہ اختیار کریں گے حتی کہ صاحب علم حضرات بھی جانتے بوجھتے بے بسی کا اظہار کریں گے۔ وہ کہتے دولت کی ریل پیل کے باعث برائی میں اضافہ اور اچھائی میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔ جھوٹ پھیلے گا اور کفر کا اثر بڑھے گا۔ حضرت صاحب نے تیل اور سونے کی دولت اور آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کے حوالے سے بھی فرامین کا ذکر کیاا ور بتایا کہ مسلمان دین کا راستہ چھوڑ کر خوار ہوں گے۔

پی ٹی آئی کا آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی ہی جوائن کرانے کا فیصلہ

حضرت علامہ ابوالحسناتؒ کی یہ تمام تر تشریح اور قیامت کے حوالے سے خطبات یاد آئے تو منظر بھی آنکھوں میں گھوم گیا۔ اسرائیل ہماری بے عملیوں کے باعث پورے خطے کے مسلمانوں پر حاوی اور فلسطین کے باشندوں پر ظلم کرتا چلا جا رہا ہے ہم اس کی مذمت پر گزارہ کر رہے ہیں۔

دکھ یہ ہے کہ غزہ کی بربادی اور فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے اور ہم سب بے بسی سے انہی دنیاوی طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو صدا سے اسلام دشمن ہیں، آج ایک ایسی خبر نظر سے گزری جس نے اور پریشان کر دیا۔ میرے خیال میں تو یہ پرانی ہے جبکہ متعلقہ میڈیا کے مطابق یہ تازہ ترین ہے بہر حال نئی ہو یا پرانی۔ بہت افسوس ناک ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھارتی متعصب ترین وزیر اعظم کو 27 ایکڑ زمین ابوظہبی میں مندر بنانے کے لئے بلا معاوضہ دی گئی اور یوں بت شکن قوم بت پرستی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی۔ یہ نئی ہے اور بھی صدمے کا باعث ہے کہ پہلے ہی نہ صرف دبئی میں تین مندر بن چکے ہوئے ہیں بلکہ مودی نے اس مندر کے علاوہ بھی ان کا بھی افتتاح کیا تھا اور اپنی عبادت کی،اس رسم یا تقریب میں امارات کے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے احباب بھی شریک ہوئے اور مبارک باد وصول کی۔ میرے امروز کے ساتھی نواب جاوید یوسف نے فون کر کے میری توجہ مبذول کرائی تھی وہ بہت دکھ کا اظہار کر رہے تھے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کشمیر میں مظالم کی انتہا کر چکا۔ بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے مساجد شہید کی جا رہی ہیں اور ہمارے مسلمان بھائی نہ صرف اپنی سرزمین پر کفر گاہ بنوا رہے بلکہ مندر کے لئے مفت زمین دے کر مودی کا استقبال کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

میں نے یہ سب خود بھی دکھی دل ہی کے ساتھ لکھا ہے اور مزید پریشانی اپنے پیارے پاکستان کے حوالے سے ہے کہ قومی درد اور ملکی سلامتی کا ذکر کرنے والے سیاست دان اپنے اور قومی امور کو بھی مل کر طے نہیں کر سکتے اور انتخابات کے نتائج پر بھی متفق نہیں ہو پا رہے بلکہ تحاریک کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس سے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر کوئی خود کو بالا دست جان کر اقتدار ہی کا خواہش مند تھا اور یہ نہ ہونے پر وہ اب سب کچھ تہس نہس کرنے کے در پے ہیں۔ عام انتخابات ہی کے حوالے سے میں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انتخابات ہو جائیں گے، ہو گئے ہیں، اب بعد از انتخابات حالات کی فکر ہے کیونکہ سیاسی اختلاف نفرت کی نظر ہو چکے ہیں اور اللہ سے دعا کی تھی کہ سب خیریت سے ہو لیکن ہم گناہ گاروں کی دعا بھی مقبول نہیں ہوتی۔ توبہ کی ضرورت ہے لیکن ہم گردن اکڑا کر اللہ کی زمین پر پھر رہے ہیں جو اللہ کو بالکل منظور نہیں۔ میرا ملک قرض کے بہت بڑے بوجھ میں دبا ہوا ہے لیکن کسی نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ یہ قرض اترے گا کب اور کیسے ہر کوئی ہوا میں تیر چلا رہا ہے اور دعوے کر رہا ہے لیکن کچھ بتا نہیں پاتا، بجلی تو ہر ماہ مزید بوجھ کا باعث بنتی ہے اب گیس مزید مہنگی کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے اور جو نرخ بڑھیں گے وہ کسی بھی سفید پوش کے لئے قابل ِ برداشت نہیں ہوں گے کہ یہ تیسرا اضافہ ہو گا اور ہم عالمی مالیاتی ادارے کے احکام ماننے پر مجبور ہیں۔ خدشہ ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور ہم غریب لوگ ماہانہ اخراجات پورے نہ کر سکیں گے۔ یہ حالات صرف ایک ہی صورت میں درست ہونے کا امکان ہے کہ مکمل قومی اتفاق رائے ہو۔ اختلافات ذاتی نوعیت کی محاذ آرائی تک نہ پہنچیں، نفرتوں کو دفن کیا جائے، اپنی ذات کی نفی کر کے ملک سنبھالا جائے، اللہ ہمیں بزرگوں کی ہدایات پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔

تحریک انصاف کے ایک اور سیاسی جماعت سے رابطے بحال ہو گئے

QOSHE -           حالات حاضرہ اور علامہ ابوالحسنات کی یاد! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          حالات حاضرہ اور علامہ ابوالحسنات کی یاد!

7 1
16.02.2024

ملک کے جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں انہی حالات میں ہمارے سیاست دان حضرات اور سیاسی جماعتوں کا جو طرز عمل ہے وہ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا، ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کے لئے موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور یہ سب بھی ہم عوام اور ملکی بہبود کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ سب کہتے اور مانتے ہیں کہ معیشت اور ملکی مسائل کا حل مکمل اتفاق رائے میں ہے لیکن اسی پر اتفاق نہیں ہو پا رہا ہر ایک اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے کھڑا ہے اور مل کر ملکی اہمیت کے فیصلوں سے گریز کیا جا رہا ہے۔

انہی حالات میں مجھے اپنے حضرت علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری بہت ہی یاد آ رہے ہیں۔ ان کی وفات کا دن 2 شعبان المعظم ہے جو مجھے یاد رہتا ہے تاہم اس بار میں بھی سیاسی منظر نامے کی رو میں بہہ گیا اور ان کا ذکر نہ کر سکا۔ حضرت ابوالحسنات کی نرینہ اولاد بھی حیات نہیں اس لئے ان کے یوم وفات پر یاد کرنے کی ذمہ داری ان کے نواسے نبھاتے ہیں وہ سہ روزہ تقریبات ہی کا اہتمام کرتے ہیں جو 2 شعبان المعظم سے4 شعبان المعظم تک جاری رہتی ہیں، اس دوران حضرات علی ہجویریؒ کے مزار کے پہلو میں مدفون علامہ ابوالحسنات کے مزار پر فاتحہ خوانی اور مختصر محفل بھی ہوتی ہے۔ میں اس بار سیاسی امور میں الجھا رہا اس لئے مجھے تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ ان کا یوم وفات آیا اور گزر گیا۔ بہرحال آج مجھے بری طرح یاد آئے کہ جو منظر مسلمان ممالک اور خصوصاً ہمارے پیارے پاکستان کا ہے اس بارے میں وہ احادیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے آگاہ کرتے رہتے تھے۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play