مریم نواز شریف،پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا ریکارڈ قائم کرنے جا رہی ہیں،ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد شریف خاندان پاکستان کا پہلا سیاسی خاندان ہو گا جس کا چوتھا فرد پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جائے گا اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہوگا، قبل ازیں ان کے والد میاں نواز شریف دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین بار وزیر اعظم پاکستان بن کر ریکارڈ قائم کر چکے ہیں،ان کے چچا میاں شہباز شریف چار مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے،اب وہ دوسری بار وزیر اعظم بن رہے ہیں۔شریف خاندان کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کو پاکستان کی وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی لئے انہیں پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ رموز حکومت سمجھ لیں،انہی ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ خود بھی پہلے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر وزارت عظمیٰ تک پہنچے،میاں شہباز شریف بھی وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد وزیر اعظم بنے اور اب اسی لئے مریم نواز کو پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جا رہا ہے اور مستقبل میں انہیں وزیر اعظم پاکستان بنانے کی سوچ ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور آصف زرداری بھی اقتدار کی لائن میں ہیں،کل کلاں کو بلاول بھٹو بھی وزیر اعظم بننا چاہیں گے،ابھی دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو سپورٹ دینے کا اعلان تو کر دیا ہے،دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ یہ سپورٹ کب تک قائم رہتی ہے؟تازہ ترین حالات کے مطابق ماضی میں سولہ مہینوں تک اکٹھے حکومت کرنے والے اب پھر اکٹھے ہو رہے ہیں، یہ بھی دیکھنے والی بات ہو گی کہ یہ دوبارہ کب تک اکٹھے چلیں گے؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

دوسری طرف حالیہ الیکشن کی شفافیت پر بہت زیادہ سوالات اٹھ رہے ہیں،یوں تو آج تک پاکستان میں کوئی الیکشن ایسا نہیں ہوا جس کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور نہ اٹھا ہو، آٹھ فروری کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک بھر میں مختلف سیاسی جماعتیں احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں، احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج میں نہ صرف تاخیر کی گئی بلکہ مبینہ طور پر رد و بدل بھی کیا گیا۔ جو سیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں ان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) جماعت اسلامی،جے یو آئی، جی ڈی اے اور کئی دوسری سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے کہا گیا کہ 2018ء کے انتخابات کے نتائج آنے میں 66 گھنٹے لگے تھے لیکن 2024ء کے انتخابات کے نتائج 36 گھنٹوں میں سنا دیے گئے، لیکن کوئی ان کے اس جواز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا، قارئین کو یاد ہو گا کہ 2018ء میں رزلٹ مینجمنٹ سسٹم (آر ٹی ایس) متعارف کرایا گیا تھا لیکن عین وقت پر یہ سسٹم بیٹھ گیا تھا، وہ الیکشن بدھ کے روز ہوئے تھے اور مبینہ طور پر سسٹم کے بیٹھ جانے کی وجہ سے رات دو بجے تک کسی بھی صوبائی یا قومی حلقے کا ایک نتیجہ بھی سرکاری طور پر سامنے نہیں آیا تھا جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت متعدد جماعتوں کی جانب سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سسٹم پر زیادہ دباؤ کے باعث کارکردگی متاثر ہونے کا عذر پیش کیا گیا تھا۔ اس بار الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) استعمال کیا گیا جو انٹرنیٹ کے بغیر آف لائن نتائج دینے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا لیکن یہ انتظام کر کے انتخابات کے روز انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر دی گئی جس کے کئی منفی اثرات سامنے آئے، پہلا یہ کہ بہت سے لوگ اپنے ووٹ اور اپنے پولنگ اسٹیشن کے بارے میں آن لائن معلومات حاصل کرنے سے قاصر رہے، دوسرا یہ ہوا کہ دونوں سروسز بند ہونے کے باعث اور متبادل سسٹم ہونے کے باوجود انتخابی نتائج کی ترسیل میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی، لوگوں کا کہنا ہے کہ آج کے اس ٹیلی کمیونی کیشن کے ترقی یافتہ دور میں بھی اگر انتخابی نتائج کو تیزی کے ساتھ جمع نہیں کیا جا سکتا تو اس سے بڑی نااہلی اور کیا ہو سکتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کا نومنتخب رکن اسمبلی اعجاز سواتی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام تر مسائل اور نا مساعد حالات کے باوجود پاکستانی عوام باہر نکلے اپنی رائے کا اظہار کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں ایک جمہوری حکومت چاہتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد جو صورت حال سامنے آئی اور جس طرح احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں وہ اچھے آثار نہیں ہیں۔ الیکشن اس لیے کرائے گئے تھے کہ ایک عرصے سے جاری اور ملک پر طاری بے یقینی کی فضا کا خاتمہ ہو جائے اور ملکی معاملات کو کسی واضح ڈگر پر لایا جا سکے لیکن اس وقت جو صورت حال ہے اس سے ملک میں ایک عرصے سے جو غیر یقینی کیفیت تھی اس کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

آئی ایم ایف کی شرط پر گیس مزید مہنگی کرنے کی منظوری

امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستانی الیکشن میں دھاندلی کے دعووں کی مکمل تحقیقات دیکھنا چاہتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ آزادانہ تحقیقات کے لیے پاکستان کا قانونی نظام ہی پہلا قدم ہو گا، بی بی سی کے مطابق امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان ممالک کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گیا کہ پاکستانی عوام کے انتخاب کے فیصلے پر پابندی لگائی گئی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ انتخابات کے روز موبائل سروسز کی بندش اور بعد ازاں انتخابی نتائج میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس کے رد عمل میں نگران وزیر اعظم نے کہا ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں، انہوں نے کہا کہ کسی ملک کے کہنے پر مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ ہمارے دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدی (پیر پگارو) نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم ایسے الیکشن کو مسترد کرتے ہیں، ادھر متعدد افراد مختلف امیدواروں کی کامیابی کے خلاف درخواستیں لے کر عدالت جا پہنچے،یہ ایک احتجاج ہی تھا کہ الیکشن میں شفافیت کو مد نظر نہیں رکھا گیا یا پھر الیکشن ہونے کے بعد نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، یہ الگ بات ہے کہ عدالت نے ان درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔

ترک مسلح افواج کے ڈپٹی چیف کاجوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز کا دورہ

الیکشن ہونے سے پہلے سب کی سوالیہ نظریں اس بات پر تھیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں، اب انتخابات ہو چکے تو وہی سوالیہ نظریں اور زیادہ گہری ہو چکی ہیں، سوال یہ ہے کہ حالات اب کیا جہت اختیار کر سکتے ہیں؟ مگر دھاندلی کی گونج مسلسل بڑھ رہی ہے۔

QOSHE -             سیاسی حالات اب کس کروٹ؟ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

            سیاسی حالات اب کس کروٹ؟

15 0
15.02.2024

مریم نواز شریف،پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا ریکارڈ قائم کرنے جا رہی ہیں،ان کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد شریف خاندان پاکستان کا پہلا سیاسی خاندان ہو گا جس کا چوتھا فرد پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن جائے گا اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہوگا، قبل ازیں ان کے والد میاں نواز شریف دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین بار وزیر اعظم پاکستان بن کر ریکارڈ قائم کر چکے ہیں،ان کے چچا میاں شہباز شریف چار مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے،اب وہ دوسری بار وزیر اعظم بن رہے ہیں۔شریف خاندان کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کو پاکستان کی وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی لئے انہیں پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ رموز حکومت سمجھ لیں،انہی ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ خود بھی پہلے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر وزارت عظمیٰ تک پہنچے،میاں شہباز شریف بھی وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد وزیر اعظم بنے اور اب اسی لئے مریم نواز کو پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جا رہا ہے اور مستقبل میں انہیں وزیر اعظم پاکستان بنانے کی سوچ ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور آصف زرداری بھی اقتدار کی لائن میں ہیں،کل کلاں کو بلاول بھٹو بھی وزیر اعظم بننا چاہیں گے،ابھی دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو سپورٹ دینے کا اعلان تو کر دیا ہے،دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ یہ سپورٹ کب تک قائم رہتی ہے؟تازہ ترین حالات کے مطابق ماضی میں سولہ مہینوں تک اکٹھے حکومت کرنے والے اب پھر اکٹھے ہو رہے ہیں، یہ بھی دیکھنے والی بات ہو گی کہ یہ دوبارہ کب تک اکٹھے چلیں گے؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

دوسری طرف حالیہ الیکشن کی شفافیت پر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play