پرانی کتابیں پڑھیں خواہ وہ فسانہ و ناول ہی کیوں نہ ہوں، وہاں دکھائی دیتا تھا کہ فلاں کام اور فلاں پیشہ پر ”چار حرف“۔۔۔

ہم نے، شروع میں جب ”چار حرف“ کی ترکیب پڑھی تو ہماری سمجھ میں نہ آیا، کیا مطلب ہے؟ سیاق و سباق سے اتنا تو جان گئے تھے کہ ”چار حرف“ کی ”اصطلاح“، اظہارِ نفرت کے لئے استعمال ہوتی ہے، مگر صحیح صحیح مراد نہ سمجھ پائے، والد گرامی سے پوچھا تو کہنے لگے، بیٹا! ”چار حرف“ سے مراد لفظِ لعنت ہے، لکھنے والا اپنے قلم سے یہ لفظ ادا کرتے ہوئے گھبراتا ہے، مہذب اور مسلمان لفظِ لعنت کو اپنی زبان و قلم سے ادا کرتے ہوئے گھبراتے اور ڈرتے ہیں کہ کہیں اس کے استعمال سے وہ اس وعید کی گرفت میں نہ آ جائیں کہ جو پیارے رسولؐ نے فرمائی تھی۔ رسولؐ رحمت نے سختی سے ”لعنت بھیجنے سے منع فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو کسی کو لعنت کرتا ہے، اگر وہ اس کا مستحق نہ ہو تو کرنے والے پر ہی لعنت آ پڑتی ہے“ اور لعنت کا مطلب ہوتا ہے، مولائے رحمان و رحیم کی رحمت سے خالی اور دور ہو جانا۔“

عام انتخابات کے انعقاد کے بعد آرمی چیف نے قوم کیلئے پیغام جاری کر دیا

بعد میں جب خود کچھ مطالعہ کا شوق بڑھا تو احادیث مبارکہ میں، اس حوالے سے، کئی احکامات سامنے آتے گئے۔ ترمذی میں ایک باب ہے ”لعنت کے بارے میں“۔ اس میں عبداللہ بن مسعود، نبوی ارشاد سے آگاہ کرتے ہیں، کہ آپؐ کا واضح فرمان ہے،“مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا۔“

قرآنی الفاظ ”ویل لکل ھمز، لمز“ میں بھی لعن طعن کرنے اور عیب جوئی میں مصروف رہنے والوں کے لئے ہلاکت اور ”ویل“ جیسی بھیانک جہنم کا اعلان ہے، ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے، ”ویل“ وہ خطرناک ترین گڑھا ہے کہ جس سے خود جہنم، دن میں کئی بار پناہ مانگتی ہے۔

انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی دوڑ، ایم کیوایم نے بھی بڑا اعلان کر دیا

ہم مسلمان ہیں، خود کو دوسروں سے بہتر مسلمان سمجھتے ہیں، لیکن مسلمانی کے تقاضوں سے کوسوں دور ہیں، وہ اسلامی، اخلاق و اوصاف جو دوسروں سے کہیں بڑھ کر انسان بناتے اور تہذیب و تمدن کا مجسم کامل ٹھہراتے ہیں، کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو تنقید کے آرے میں چیرنے پھاڑنے کو ہر وقت مستعد ہوتے ہیں، مگر اپنے آپ کو سنوارنے کے لئے تیار نہیں ہو پاتے، دوسروں کی آنکھ کا تنکا نظر آ جاتا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر دکھائی نہیں دیتا۔ دوسروں کے پلنگ پر پڑی چادر کی شکنوں پر تو تبصرے کرتے رہتے ہیں مگر اپنی پیڑھی تلے ڈانگ نہیں پھیرتے۔۔۔

استحکام پاکستان پارٹی کی رہنما ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے خلاف مقدمہ درج

یہ ہمارا عام معاشرتی چلن ٹھہرا ہے کہ ہم دوسروں پر انگلی اٹھانے میں تیزی دکھاتے ہیں، یہ نہیں دیکھ پاتے کہ تین انگلیاں خود ہماری طرف اشارہ کر رہی ہیں، مخالفین پر گرجتے برستے ہیں، خوب تیر و نشتر چلاتے ہیں، بولتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کون سا فقرہ تہذیب کے دائرے سے باہر ہے اور کون سا کلمہ شریعت کے منافی ہے۔

تول تول کر بولنے اور بول بول پر تولنے والے، لوگ دکھائی دینا بند ہو گئے ہیں، شاید کال پڑ گیا ہے، قحط الرجال کا رونا تو ہر دور ہی میں رہا ہے، مگر تحریر و تقریر کی اخلاقیات کے خاتمے اور فقدان کا ماتم تو اب زوروں پر آ گیا ہے، عامیوں کا کیا رونا، خواص و راہ نما کہلانے والے بھی لفظ کی حرمت کو سرعام پامال کرتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ ذرائع ابلاغ، ان کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک لفظ کو دنیا کی گواہی کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کی زبانوں کی تیزی اور تندی، صرف ان کی ”بدزبانی“ کی دلیل نہیں بنتی، ان کی قوم و معاشرہ کی بدتہذیبی کو بھی شہرت و ثبوت فراہم کر دیتی ہے۔۔۔

این اے 264:جمال رئیسانی نے اختر مینگل کو ہرادیا

کْھلے ڈْلّے انداز میں، بدزبانی کرنے والوں کو کیا ”حکیمانہ باتیں“ سنانا۔ جو رسولِؐ رحمت کے واضح فرامین کی لاج نہ رکھیں اور جلسہ و جلوس میں، جان بوجھ کر، عمداً گالی گلوچ اور ”لعنت لعنت“ کی گردان کرنے سے نہ ہچکچائیں، ان کو ”تہذیب و تمدن“ کے واسطے دینا، فضول ہے۔

گزشتہ دور میں ایک پارٹی کے لیڈروں نے ”اپنے مقاصد میں ناکام ہونے“ پر پارلیمینٹ پر لعنت بھیجی تھی اور اجتماعی طور پر,پارلیمنٹ کو چھوڑ دیا تھا، سمجھا جا رہا تھا، کھسیانی بلّی کھمبا نوچے کے مصداق، ان لیڈروں کی سیاسی ناکامی نے مایوسی کو چہروں سے دل پر ڈال دیا ہے اور یوں زبان تلخ تر ہو گئی تھی، مگر بعد میں، اس ”لعنت“ پر تکرار اور ”ثابت قدمی“ نے بتایا کہ جو کچھ کہا تھا۔ وہ اپنی عادات و اخلاق کے عین مطابق اور سوچ سمجھ کر کہا تھا۔ ان دونوں ”لعنت کرنے والوں“ کی اس تند مزاجی اور تیز زبانی پر، مختلف طبقات نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ دین داروں نے اس پر پیارے رسولؐ کی تعلیمات کا واسطہ ہی دیا تھا اور بتایا تھا کہ ”اسلام اور پاک رسولؐ ”لعنت لعنت“ کرنے کو پسند نہیں کرتے۔ صحیح بخاری، کتاب الادب میں، آپؐ کے بارے میں حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ آپؐ فحش گوئی اور لعنت کرنے والے نہ تھے، نہ ہی گالی گلوچ کرنے والے تھے، جب کبھی (بہت) ناراض ہوتے تو فرماتے ”اس کو کیا ہو گیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔“

برطانیہ نے پاکستان کے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تحفظات کا اظہار کر دیا

وہ لیڈر اور ان کے متوسلین کے لئے، ایک حدیثِ پاک (جو بخاری کتاب الحدود میں ہے) کہ ”ایک شخص، جو شراب پیتا تھا، اور بار بار پکڑ کر، آپؐ کے حضور حاضر کیا جاتا تھا۔ جب کئی پھیرے ہو گئے تو ایک آدمی نے (اس کے بارے میں) کہا اس پر لعنت ہو، بار بار، دربار رسالت میں لایا جاتا ہے (اس کو شرم نہیں آتی)۔

رسولؐ رحمت نے یہ فقرہ سنا تو، فرمایا:

”اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم، تم نہیں جانتے کہ (لعنت کرنا) اللہ اور اس کے رسولؐ کو پسند نہیں۔“

رسولؐ رحمت نے ایک عادی شرابی کے لئے بھی، لعنت کو پسند نہیں کیا، اور یہاں اس پارلیمینٹ پر لعنت کی گئی ہے جہاں ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی ہوتی ہے اور غالب ترین باتیں عوام کی فلاح اور مملکت ِ خداداد کی اصلاح و استحکام اور ترقی و بقاء کے لئے ہی ہوتی ہیں۔۔۔

بلوچستان اسمبلی، اب تک آنے والے نتائج کے مطابق کس جماعت نے کتنی نشستیں حاصل کیں ؟

ہم شاید اس موضوع پر یا اس حوالے سے کچھ نہ لکھتے مگرایک لیڈر کہ جنہوں نے مال روڈ پر، گرجتے ہوئے ”ایک ہزار بار, پارلیمنٹ پرلعنت بھیجی تھی،وہ بھی اس الیکشن میں منتیں سماجتیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح پارلیمنٹ میں پہنچادیے جائیں,یعنی اپنے ہی کہے کوچہِ لعنت میں پہنچنے کے لیے بے قرار ہوئے پڑے ہیں,انہی کی طرح وہ لیڈران بھی جو بارھا پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے رہے ہیں۔

ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ شیخ رشید، کہہ مکرنیوں کے لاکھ ماہر ہوں وہ بھی اپنی بیان کردہ اور بار بار بیان کردہ ”لعنت گاہ " کی طرف،کبھی رخ نہیں کریں گے۔

سمجھنے کو تو ہم عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کے تمام لوگوں کے بارے میں بھی یہی سمجھتے تھے کہ ”وہ جس پارلیمینٹ پر لعنت بھیجتے رہے,وہاں سے جلالی انداز میں استعفے دے کر چلے گئے,اب اس طرف رخ نہیں کریں گے، مگر وہ تمام تر قدغنوں اور مشکلات کے باوجود،انتخابی نشان نہ ہونے کے باوصف بھی، اسی پارلیمینٹ میں پہنچنے کی منصوبہ بندیاں کر چکے ہیں۔۔۔

QOSHE -              پھر ”کوچہ ئ  لعنت“ کی طرف۔۔۔? - رانا شفیق پسروری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

             پھر ”کوچہ ئ  لعنت“ کی طرف۔۔۔?

9 0
10.02.2024

پرانی کتابیں پڑھیں خواہ وہ فسانہ و ناول ہی کیوں نہ ہوں، وہاں دکھائی دیتا تھا کہ فلاں کام اور فلاں پیشہ پر ”چار حرف“۔۔۔

ہم نے، شروع میں جب ”چار حرف“ کی ترکیب پڑھی تو ہماری سمجھ میں نہ آیا، کیا مطلب ہے؟ سیاق و سباق سے اتنا تو جان گئے تھے کہ ”چار حرف“ کی ”اصطلاح“، اظہارِ نفرت کے لئے استعمال ہوتی ہے، مگر صحیح صحیح مراد نہ سمجھ پائے، والد گرامی سے پوچھا تو کہنے لگے، بیٹا! ”چار حرف“ سے مراد لفظِ لعنت ہے، لکھنے والا اپنے قلم سے یہ لفظ ادا کرتے ہوئے گھبراتا ہے، مہذب اور مسلمان لفظِ لعنت کو اپنی زبان و قلم سے ادا کرتے ہوئے گھبراتے اور ڈرتے ہیں کہ کہیں اس کے استعمال سے وہ اس وعید کی گرفت میں نہ آ جائیں کہ جو پیارے رسولؐ نے فرمائی تھی۔ رسولؐ رحمت نے سختی سے ”لعنت بھیجنے سے منع فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو کسی کو لعنت کرتا ہے، اگر وہ اس کا مستحق نہ ہو تو کرنے والے پر ہی لعنت آ پڑتی ہے“ اور لعنت کا مطلب ہوتا ہے، مولائے رحمان و رحیم کی رحمت سے خالی اور دور ہو جانا۔“

عام انتخابات کے انعقاد کے بعد آرمی چیف نے قوم کیلئے پیغام جاری کر دیا

بعد میں جب خود کچھ مطالعہ کا شوق بڑھا تو احادیث مبارکہ میں، اس حوالے سے، کئی احکامات سامنے آتے گئے۔ ترمذی میں ایک باب ہے ”لعنت کے بارے میں“۔ اس میں عبداللہ بن مسعود، نبوی ارشاد سے آگاہ کرتے ہیں، کہ آپؐ کا واضح فرمان ہے،“مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا۔“

قرآنی الفاظ ”ویل لکل ھمز، لمز“ میں بھی لعن طعن کرنے اور عیب جوئی میں مصروف رہنے والوں کے لئے ہلاکت اور ”ویل“ جیسی بھیانک جہنم کا اعلان ہے، ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے، ”ویل“ وہ خطرناک ترین گڑھا ہے کہ جس سے خود جہنم، دن میں کئی بار پناہ مانگتی ہے۔

........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play