آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں، پولنگ کا عمل جاری ہے لیکن میں رت جگے کی وجہ سے ابھی تک ووٹ ڈالنے نہیں جا سکا، گزشتہ شب میری بیٹی،داماد اور بچے برمنگھم سے وطن آتے ہوئے عمرہ کی سعادت حاصل کرکے آئے تو ایئرپورٹ پر ان کے لئے جانا پڑا۔ واپسی قریباً تین بجے ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی نیند کے بعد پھر جاگا اور نماز سے فراغت کے بعد مزید ڈیڑھ گھنٹہ گہری نیند لے لی تاہم بچے دیر تک سوتے رہے فیصلہ ہوا دوپہر کے بعد جائیں گے، باہر نکل کر دیکھا کہ صورت حال کیا ہے تو یہاں زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آیا، کچھ محلے والے ووٹ کا حق استعمال کر آئے تھے ان کی زبانی علم ہوا کہ پولنگ سٹیشن پر زیادہ بھیڑ نہیں البتہ ایک بجے دوپہر کے بعد ممکن ہے، بہرحال ہمارا فیصلہ تو یہی تھا مل کر جائیں گے کہ سب کا پولنگ سٹیشن ایک ہی ہے البتہ الیکٹرونک میڈیا بڑا پرجوش ہے ریٹنگ کا بھی مسئلہ ہے ہر چینل نے الیکشن کی خصوصی نشریات شروع کر رکھی ہیں، مسلسل سلسلہ چلے تو باتیں کم رہ جاتی ہیں، ایسا ہی کچھ حال چینل کی سکرین پر نظر آنے والے حضرات کا بھی ہے کہ وہ خود آپس میں بھی بات کرلیتے ہیں، کوئی حتمی بات نہیں کر پاتا، تاہم اپنی اپنی پسند کے حوالے سے تجزیہ ضرورہو جاتا ہے، سب کا دعویٰ ہے کہ ان کی نشریات ہی اعلیٰ ہیں، فیصلہ تو ناظرین کریں گے میں کون ہوتا ہوں،ایسا کرنے والا، البتہ حیرت زدہ ضرور ہوں کہ یہ حضرات انتخابات کے لئے تاریخ کے تعین سے اب تک تجزیئے کرتے چلے آ رہے ہیں ابھی تک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے البتہ رائے سب کی اپنی اپنی ہے۔

لاہور کی 7صوبائی نشستوں پر ن لیگ، 3پر آزاد امیدوار کامیاب

میں بھی بہت بڑا تجزیہ نگار ہوں لیکن انہی صفحات تک محدود ہوں، میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ بڑی چھلانگ نہ لگاؤں اور حالات کو ان کے موافق ہی چھوڑ دوں، اب تک میں جو سنتا اور پڑھتا چلا آ رہا ہوں اگر اس کا تجزیہ کروں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ آج پولنگ کے اختتام پر جب نتائج آئیں گے تو تمام جماعتیں احتجاج کرتی نظر آئیں گی کہ عوامی فیصلہ کسی بھی جماعت کے حق میں واضح اکثریت والا نہیں ہے۔ ایک بار پھر کسی ایک جماعت کو بھی سادہ اکثریت نہیں ملے گی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی توقعات پورا نہیں ہوں گی اور کراچی کے حوالے سے احتجاجی ہی ملے گا، البتہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سخت محنت اور انتخابی مہم کے بعد بھی یہ جانتی ہیں کہ ان کے لئے کھلا میدان نہیں ہوگا اور طاقت (اکثریت) کا توازن برقرار رکھا جائے گا میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار پھر اتحادی حکومت بننے جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو متحدہ، استحکام پاکستان پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام اتحادی کے طور پر مل جائیں گی اور بقول محمد شہبازشریف اس صورت میں نوازشریف نہیں کوئی دوسرا وزیراعظم ہوگا فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا ان کا یہ جواب اس سوال کے سلسلے میں تھا کہ اگر سادہ اکثریت نہ ملی تو کیا وہ (شہباز) وزیراعظم ہوں گے، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ایسا ہوگا اور پیپلزپارٹی کو ایک تو اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن کے فرائض سرانجام دے گی تاہم ایک امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ آصف علی زرداری سے بات ہو تو کچھ لو دو پر بات منتج ہو اور بلاول کو سرنڈر کرنا پڑے میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ اگر یہی صورت ہو تو پیپلزپارٹی کو 88والی غلطی نہیں کرنا چاہئیے اور اپوزیشن بنچوں کو ترجیح دے کر اگلے الیکشن کا انتظار کرنا چاہیے، اس طرح بلاول کے تجربے میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ ”پارلیمانی جمہوریت“ کے رمز و رموز بہتر جان جائیں گے۔

این اے 130 ، نوازشریف کامیاب ہوئے یا یاسمین راشد؟ سب سے بڑا غیر سرکاری نتیجہ آ گیا

میں نے 1988کا ذکر کیا تو میری دانست میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو بیساکھیوں والی حکومت نہیں لینا چاہیے تھی۔ بعدازاں یہ ثابت بھی ہوا کہ اقتدار لینا زیادہ سود مند نہیں تھا کہ جلد رخصت ہوئیں اور اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو دوتہائی مل گئی، اس سلسلے میں، میں نے ڈاکٹر جہانگیر بدر(مرحوم) سے کہا تھا تو ان کا جواب تھا پارٹی ورکرز تھک چکے، کچھ آرام چاہتے ہیں لیکن اب تو ایسی کوئی بات نہیں، سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی برسراقتدار رہی اور باقی صوبوں میں مشرف دور کے سوا کوئی بڑی تکلیف نہیں آئی تھی بہرحال فیصلہ تو خود انہوں نے کرنا ہے اپنا تو صرف خیال ہی خیال ہے۔

اسد قیصر جیتے یا ہارے؟ مکمل غیر سرکاری نتیجہ آ گیا

گزشتہ روز کے کالم میں، میں نے الیکشن کے بعد والے حالات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور سب سے حالات کو درست رکھنے کی اپیل کی تھی، میرے ان خدشات کے اشارے آج (الیکشن ڈے) بھی نظر آئے جب کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی طرف سے خطرے کے الارم پر انگلی رکھ دی گئی اور اپنے دعوؤں کے برحق ہونے کا اعلان کیا، یہ اعلان ایسے یقین کے ساتھ تھا کہ خواہشات پوری نہ ہوئیں تو احتجاج یقینی ہے، ایسا ہی کچھ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی طرف سے سامنے آیا، اب تو یہ ممکن نہیں کہ دونوں جماعتوں کے دعوے حقیقت بن جائیں، کراچی تو چار حصوں میں تقسیم ہوگا، کسی ایک کی زیادہ اور پھربتدریج کم اکثریت ہوتی چلی جائے گی اور پھر اس صورت حال میں احتجاج ہی کا راستہ ہوگا اور اس کے لئے اعلان کئے جا رہے ہیں، اس لئے کراچی کے حوالے سے خدشہ بے معنی نہیں۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے کہ حال ہی میں ہمارے رشتہ دار میری بھانجی کی صاحبزادی کی بارات لے کر آئے۔ بارات میں کراچی اور اندرون سندھ کے بالغ نظر حضرات بھی تھے۔ ان سے بات ہوئی تو ان کا خیال تھا کہ کراچی میں حصہ بقدر جثہ ممکن ہے تاہم سندھ میں سانگھڑ کی ایک نشست کے سوا پیپلزپارٹی باقی تمام نشستیں جیت لے گی۔ سندھ حکومت آسانی سے مل جائے گی البتہ وفاق کا معاملہ پورے ملک کا ہے اس لئے یہ نتائج کے بعد ہی علم ہوگا کہ کون کیا ہے کس نے کتنا حصہ وصول کیا۔

ٹیکسلا این اے 54؛پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار عذرا مسعود کو واضح برتری، چودھری نثار کا تیسرا نمبر

لاہور کی حد تک مسلم لیگ (ن) کی واضح برتری نظر آ رہی ہے اور پروپیگنڈہ بھی یہی ہے تاہم ووٹر کا کچھ اندازہ نہیں۔ تحریک انصاف کے حامی اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کرتے البتہ اعتماد کے حضرات کو بتاتے ہیں کہ وہ ووٹ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کو دینگے چاہے کسی دوسرے کیمپ سے ہو کر جانا پڑے، اس لئے کسی جگہ کوئی سرپرائز بھی ہو سکتا ہے البتہ این اے 127میں بلاول بھٹو کی کامیابی کے دعوے جاری ہیں جن کی حقیقت آج شام سامنے آ جائے گی تاہم اس حلقے میں جیالوں نے کوشش سرتوڑ کی حتیٰ کہ کراچی سے کئی رہنما یہاں آئے اور کئی روز ٹھہرے، شیری رحمن اور شہلا رضا نے بھی خوب محنت کی۔ یوں بھی جیالوں کی عزت اور لاہور کی لیڈرشپ اور کارکنوں کا امتحان تھا۔ دیکھیں سرخرو ہوتے ہیں یا نہیں۔

این اے 182 کا بھی مکمل غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجہ آ گیا

اس الیکشن کی انتخابی مہم نے کم از کم وقتی طور پر عوامی مسائل اوجھل کر دیئے۔ نگران حکومت مسلسل بوجھ لادے جارہی ہے۔ گیس مزید مہنگی کی جارہی ہے۔ بجلی کی فیول ایڈجسٹمنٹ جان نہیں چھوڑ رہی، لوگ بے حال ہیں اب یہ سوچتے ہیں کہ شاید الیکشن ہی ان کے لئے مداوا بن جائیں کہ اب تو بولنے کی بھی سکت نہیں رہی۔ مہنگائی نے بے دم کر دیا، منافع خور، ذخیرہ اندوز مافیالوٹے چلا جا رہا ہے۔ حکومت اس کی مددگار ہے، اللہ ہی ہے ان کی سن لو! اب تک سب خیر ہے اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

میرا خدشہ بڑی حد تک درست نظر آیا جب دو بجے دوپہر کے بعد ووٹ ڈالنے گیا تو بڑا سکون تھا،اس کا فائیدہ کس کو ہو گا،یہ سب تجزیہ نگار حضرات کا کہنا ہے کہ کنگز پارتی کو ہی ہو گا۔

این اے 81 گوجرانوالہ ، ن لیگ یا پی ٹی آئی کا آزاد امیدوار کامیاب؟ غیر حتمی نتیجہ آ گیا

QOSHE -          الیکشن بھی ہو گئے اور اب - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         الیکشن بھی ہو گئے اور اب

10 5
09.02.2024

آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں، پولنگ کا عمل جاری ہے لیکن میں رت جگے کی وجہ سے ابھی تک ووٹ ڈالنے نہیں جا سکا، گزشتہ شب میری بیٹی،داماد اور بچے برمنگھم سے وطن آتے ہوئے عمرہ کی سعادت حاصل کرکے آئے تو ایئرپورٹ پر ان کے لئے جانا پڑا۔ واپسی قریباً تین بجے ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی نیند کے بعد پھر جاگا اور نماز سے فراغت کے بعد مزید ڈیڑھ گھنٹہ گہری نیند لے لی تاہم بچے دیر تک سوتے رہے فیصلہ ہوا دوپہر کے بعد جائیں گے، باہر نکل کر دیکھا کہ صورت حال کیا ہے تو یہاں زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آیا، کچھ محلے والے ووٹ کا حق استعمال کر آئے تھے ان کی زبانی علم ہوا کہ پولنگ سٹیشن پر زیادہ بھیڑ نہیں البتہ ایک بجے دوپہر کے بعد ممکن ہے، بہرحال ہمارا فیصلہ تو یہی تھا مل کر جائیں گے کہ سب کا پولنگ سٹیشن ایک ہی ہے البتہ الیکٹرونک میڈیا بڑا پرجوش ہے ریٹنگ کا بھی مسئلہ ہے ہر چینل نے الیکشن کی خصوصی نشریات شروع کر رکھی ہیں، مسلسل سلسلہ چلے تو باتیں کم رہ جاتی ہیں، ایسا ہی کچھ حال چینل کی سکرین پر نظر آنے والے حضرات کا بھی ہے کہ وہ خود آپس میں بھی بات کرلیتے ہیں، کوئی حتمی بات نہیں کر پاتا، تاہم اپنی اپنی پسند کے حوالے سے تجزیہ ضرورہو جاتا ہے، سب کا دعویٰ ہے کہ ان کی نشریات ہی اعلیٰ ہیں، فیصلہ تو ناظرین کریں گے میں کون ہوتا ہوں،ایسا کرنے والا، البتہ حیرت زدہ ضرور ہوں کہ یہ حضرات انتخابات کے لئے تاریخ کے تعین سے اب تک تجزیئے کرتے چلے آ رہے ہیں ابھی تک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے البتہ رائے سب کی اپنی اپنی ہے۔

لاہور کی 7صوبائی نشستوں پر ن لیگ، 3پر آزاد امیدوار کامیاب

میں بھی بہت بڑا تجزیہ نگار ہوں لیکن انہی صفحات تک محدود ہوں، میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ بڑی چھلانگ نہ لگاؤں اور حالات کو ان کے موافق ہی چھوڑ دوں، اب تک میں جو سنتا اور پڑھتا چلا آ رہا ہوں اگر اس کا تجزیہ کروں تو یہ واضح ہوتا ہے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play