یہ اسیری بھی کیا اسیری ہے!
مقبولیت کا خمار ہو کہ شہرت کا بخار، ہمارے ملک میں گردن توڑ بخار سے زیادہ خطرناک بلکہ ہلاکت خیز ثابت ہوا ہے۔قائداعظم، قائد ملت، قائد عوام، محترمہ فاطمہ جناحؒ، محترمہ بے نظیر بھٹو ہر کسی لیڈر کو اپنی شہرت و مقبولیت کی قیمت چکانا پڑی ہے۔حیرت انگیز طور پر قیمت چکانے والے سادہ پوش لوگ تھے جن کی اکثریت نے عوامی اکثریت کی حمایت یا نمائندگی کے سراب زار میں سرگرانی کی اور بادِ صرصر کے تند و تیز طوفانی تھپیڑوں کی اذیت کی نذر ہوگئے،جبکہ خوش پوش طبقے کے لوگوں نے سادہ لوح افراد سے ہمیشہ ان کی مقبولیت کا خراج وصول کیا۔یہ خراج ویسے تو حیثیت ومرتبہ دیکھ کر وصول کیا جاتا تھا، مگر بعض اوقات، بندے کی اوقات بھی درجہ بندی کا فیصلہ کروا دیتی تھی اس زُمرے میں آنے والے لوگ سماجی اعتبار سے کسی شمار قطار میں نہیں آتے تھے، لیکن مرن دا شوق انہیں شہر کی طرف کھینچ لاتا اور یہ بات تو عالمی سچائی ہے کہ شوق دا کوئی مُل نہیں ہوتا۔ایسے انمول ہیرے جب تک کوئلے کی کان میں رہیں تب تک محفوظ و مامون رہتے ہیں،لیکن اگر وہ پہاڑ کی کان سے کسی حسینہ کے کان تک کے سفر کا سوچیں بھی تو انہیں نانی یاد کرانے والے بلا توقف روک لیتے ہیں۔نانی کی وراثت میں سے بُندے، چوڑیاں، کڑے ملیں نہ ملیں، ہتھ کڑیاں اور بیڑیاں ضرور حصے آ جاتی ہیں اور یہ حصہ بقدر جثہ نہیں،بلکہ بقدر غصہ ہوتا ہے، زبردست کا، غصہ۔ کتنی شدت اور دورانیے کا ہو یہ تو زیر دست کی قسمت اور نصیب پر منحصر ہے۔نصیب جو قلعے کے زندان جیسا........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website