الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ بھی۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی، کپتان عمران خان اس وقت مجرم ہیں،ان کو دو مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر24سال کی سزا ہوئی، دور ایسا ہے کہ اس پر بھی بحث کرا دی گئی کہ اگر عمران کی تمام اپیلیں مسترد ہو گئیں تو ان کو کل کتنی سزا بھگتنا ہو گی، مجھے اپنے کورٹس رپورٹنگ کے تجربے کی بناء پر یہ سوال اور جواب بڑا عجیب لگا اِس لئے کہ اس حوالے سے قانون بالکل واضح ہے،ان کو یہ سزائیں دو الگ الگ عدالتوں نے دو مختلف مقدمات میں دی ہیں اِس لئے ہر ایک کا اطلاق ساتھ ہی ہو گا اور14سال والی سے پہلے دس سال والی مدت مکمل ہو گی تو وہ رہا نہیں ہوں گے اور14 سال والی پوری کر کے رہا ہوں گے تاہم وہ پورے 14 سال جیل میں نہیں رہیں گے کہ قانون اور ضابطے کے مطابق سال میں کئی بار رعایتیں ملتی ہیں اور سزا کم ہوتی رہتی ہے اِس لئے اگر بالکل ہی بدقسمت ہوئے تو پھربھی آٹھ نو سال کے بعد تشریف لے آئیں گے ورنہ یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ اپیل در اپیل کی وجہ سے وہ بری ہو جائیں یا سزا میں کمی ہو،جہاں تک میں نے ان مقدمات، الزامات اور شہادتوں کا جائزہ لیا اور فاضل جج حضرات خصوصاً خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات کے فیصلے کا جائزہ لیا ہے تو دونوں مقدمات میں میرٹ پر کیس مضبوط ہیں اور اس بناء پر ریلیف ملنا خاصا دشوار ہوگا تاہم بیرسٹر علی ظفر سے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ تک متعدد اچھے وکلاء کی اعانت ان کو میسر ہے اِس لئے یہ بھی امکان قوی ہے کہ وہ اپیل کی پیروی میرٹ سے زیادہ قانون خلاء اور تکنیکی نکات کی رو سے کریں گے، میرے لئے حیرت یہ ہے کہ زمین نہ رہی والے بابر اعوان کہاں ہیں؟ جو عمران خان کی جلد رہائی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور جب تک عمران کھلی عدالت میں پیش ہوئے وہ بھی بھاگ بھاگ کر پیروی کرتے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website