اسی شہر میں پیدا ہوا، یہیں پرورش پائی، نرم و گرم وقت یہیں دیکھا، بچپن میں تحریک پاکستان کا نظارہ کیا اور پھر قیام پاکستان کے ساتھ تاریخ کی وسیع تر منتقلی آبادی کے خونچکاں منظر بھی نظر سے گزر گئے کہ جالندھر کے گاؤں میں بیاہی جانے والی میری ایک پھوپھو کی تلاش میں اپنی دادی جان کے ساتھ مہاجر کیمپوں میں جاتا رہا، والد صاحب قومی خدمات میں مصروف گھر کو نظر انداز کئے ہوئے تھے۔ یوں اسی پر آشوب دور میں پلے۔ بڑھے اور پڑھے۔ ہائی سکول کی تعلیم ہی کے دوران ملکی سیاست کے تغیر و تبدل دیکھے اور اسی میں 53 اور 56 کے ادوار بھی تھے جن کے دوران بلدیاتی انتخاب بھی ہوئے اور یقین مانیئے ہائی سکول کا طالب علم ہونے کے باوجود ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ یوں تعلیم اور تربیت کے مراحل سے گزرنے اور ایک سال درویشی میں گزارنے کے بعد 1963ء میں پیشہ صحافت نصیب میں مل گیا کہ خبریں بنا کر چھپوانے کی غرض سے اخبارات کے چکر لگاتے لگاتے۔ عبداللہ ملک مرحوم کے کہنے پر علاقہ رپورٹر بننے کے بعد امروز کی رپورٹنگ ٹیم میں شامل ہو گیا۔ یہاں نہ صرف سیکھنے اور صحافت کے پیشے میں آگے بڑھنے کا موقع ملا تو ساتھ ہی تجربہ بھی ہوتا چلا گیا۔ بڑے بڑے انتخابات اور بڑے بڑے ہنگامے بھی کور کئے اور یہ بھی دیکھا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اور سیاست قومی مفادات سے چل کر ذاتی مفادات تک کب، کیوں اور کیسے پہنچی، انتخابات میں کشمکش لڑائی جھگڑے اور ووٹروں کی خاطر تواضع کے مناظر بھی دیکھتا چلا آیا۔ لیکن جو حالات اب اس جہاں کے ہیں ایسے کبھی نہ تھے تاہم یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ جو منظر نظر آ رہا ہے یہ ہمارے انہی راہنماؤں کے رویوں کا ہے کہ سیاسی مخالفت بتدریج ذاتی عداوت تک پہنچ گئی اور جمہوریت کی مضبوطی اور توانائی کے نام پر جمہوریت ہی کو کمزور کیا گیا۔

کیپٹن صفدر کی پی ٹی آئی کا پرچم تھامے بچے سے جا کر ملنے کی ویڈیو وائرل

ان دنوں پھر سے اقتدار کی کشمکش جاری ہے اور 1977ء کے بعد کے تجربات کو پھر سے دہرایا جا رہا ہے حالات ہی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ہی جمہوریت پر عمل کے خوگر نہیں۔ اگر اس کا اندازہ لگانا ہو تو مختلف ٹی وی چینلز کی نشریات دیکھیں ہر ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے عوامی تاثرات پیش کرے اور مختلف حلقہ انتخاب کے مسائل معلوم کر کے نشر کرے۔ ناظرین خوب جانتے ہیں کہ ہر جگہ ایک ہی نوعیت کے مسائل ہیں جو بھی ٹی وی جس بھی حلقے کے رائے دہندگان سے مسائل پوچھتا ہے تو وہاں سے جواب ٹوٹی سڑکیں، گلیاں، سکولوں کی کمی، بے روز گاری اور تعلیمی پریشانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مہربانوں نے ہم کو دیا کیا ہے کہ یہ سب مسائل برحق ہیں اور توجہ کے مستحق ہیں لیکن ان کا دائرہ کار اور نوعیت بھی مقامی مسائل کی ہے اور بلدیاتی نظام کا بنیادی مقصد ان مسائل کو حل کرنا ہے یہ نہیں کہ یہ خدمات اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سے لی جائیں بلکہ یہ تو بلدیات کے کام ہیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت تو قانون سازی اور مفاد عامہ کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں یہی عوامی نمائندے، بلدیاتی نظام سے مسلسل گریز کرتے ہیں کہ گلی، محلوں کے کام کے لئے بھی یہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ عجیب لگے تو وہ 1971ء سے اب تک دیکھ لے کہ آمریت کے دور میں ہی بلدیاتی ادارے فعال ملیں گے اور جمہوریت ادوار میں انتخابات سے گریز ہوگا، مختلف سیاسی جماعتوں کے حالیہ منشور ملاحظہ فرمائیں تو ان میں مقامی نوعیت کے مسائل حل کرنے کا بھی ذکر مل جائے گا ایک جماعت کے منشور میں مقامی اور چھوٹے تنازعات پنچائت کے نظام کے ذریعے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے میری یاد داشت بنیادی جمہوریت کے ایوبی نظام کی طرف چلی گئی اس کے حوالے سے قانون کو ملاحظہ فرمائیں تو اس میں چھوٹے چھوٹے تنازعات کے لئے مصالحتی عدالت کا نظام دیا گیا تھا اور بہت مفید ثابت ہوا تھا لڑائی، جھگڑے اور لین دین سے لے کر کرایہ داری تک کے تنازعات بھی نوے فیصد تک مصالحت پر منتج ہوتے تھے۔ یہی حالت شادی طلاق اور نان و نفقہ والے مصالحتی نظام کی ہے جو اب تک بھی کسی حد تک رائج ہے۔ اس کے علاوہ بلدیاتی نمائندے ہی علاقائی مسائل کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور گلیوں، علاقائی سڑکوں سٹریٹ لائٹ اور صفائی جیسے معاملات بھی یہی دیکھتے ہیں۔

فردوس عاشق اعوان ووٹرز کے سوالات پر ناراض

جبکہ تجاوزات اور تعلیم سے متعلق بھی کئی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ عوامی نمائندوں اور جمہوری ادوار ہی میں ان اداروں کو نظر انداز کیا گیا۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں 1958ء سے اب تک کے تمام آمرانہ اور جمہوری ادوار کا جائزہ لیں تو آمرانہ ادوار میں یہ ادارے فعال ہوں گے، جنرل مشرف کے دور میں جب ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کرایا گیا اور ان اداروں کے اختیارات حقیقی طور پر ایسے تھے کہ لوگ مطمئن ہوئے اور دلچسپی ضلعی حکومتوں میں لی گئی لیکن اراکین اسمبلی کو گوارا نہ ہوا۔ ان کے دباؤ پر جنرل پرویز مشرف سے وزیر اعلیٰ نے رابطہ کر کے اجازت لی اور اراکین اسمبلی کی مداخلت کے لئے ترامیم کرالی گئیں۔ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تھے اور پھر دور مسلم لیگ (ن) کا آیا تو بلدیاتی ادارے ختم کر کے نئے قانون اور پرانے نظام کی بحالی کا کام شروع کیا گیا۔ تب سے معطل بلدیاتی ادارے اب تک بحال نہیں ہوئے حالانکہ درمیان میں نئے صوبائی بلدیاتی نظام کا قانون منظور کر کے انتخابات بھی کرا لئے گئے تھے۔ یہی صورت حال سندھ کی بھی ہوئی وہاں بھی گزشتہ برس ہی انتخابات ہو سکے کراچی کے مینڈیٹ پر اعتراض بھی موجود ہے۔ تاہم یہاں بھی ابھی یہ ادارے مکمل طور پر فعال نہیں ہیں حالانکہ یہ علاقائی مسائل حل کرنے کا فورم ہے۔

پاکستان کے کتنے فیصد نوجوان پاک فوج پر مکمل اعتماد کرتےہیں؟ جانیے

ان گزارشات کا مقصد یہی ہے کہ جو بھی جیتے اس کو پیشگی مبارک، استدعا ہے کہ بلدیاتی نظام کو مضبوط کریں کہ علاقائی مسائل درست طور پر حل ہو سکیں اور اراکین اسمبلی اپنے کام پر توجہ دے سکیں۔

QOSHE -       عوامی، جمہوری حکومتیں اور بلدیاتی نظام؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      عوامی، جمہوری حکومتیں اور بلدیاتی نظام؟

6 2
02.02.2024

اسی شہر میں پیدا ہوا، یہیں پرورش پائی، نرم و گرم وقت یہیں دیکھا، بچپن میں تحریک پاکستان کا نظارہ کیا اور پھر قیام پاکستان کے ساتھ تاریخ کی وسیع تر منتقلی آبادی کے خونچکاں منظر بھی نظر سے گزر گئے کہ جالندھر کے گاؤں میں بیاہی جانے والی میری ایک پھوپھو کی تلاش میں اپنی دادی جان کے ساتھ مہاجر کیمپوں میں جاتا رہا، والد صاحب قومی خدمات میں مصروف گھر کو نظر انداز کئے ہوئے تھے۔ یوں اسی پر آشوب دور میں پلے۔ بڑھے اور پڑھے۔ ہائی سکول کی تعلیم ہی کے دوران ملکی سیاست کے تغیر و تبدل دیکھے اور اسی میں 53 اور 56 کے ادوار بھی تھے جن کے دوران بلدیاتی انتخاب بھی ہوئے اور یقین مانیئے ہائی سکول کا طالب علم ہونے کے باوجود ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ یوں تعلیم اور تربیت کے مراحل سے گزرنے اور ایک سال درویشی میں گزارنے کے بعد 1963ء میں پیشہ صحافت نصیب میں مل گیا کہ خبریں بنا کر چھپوانے کی غرض سے اخبارات کے چکر لگاتے لگاتے۔ عبداللہ ملک مرحوم کے کہنے پر علاقہ رپورٹر بننے کے بعد امروز کی رپورٹنگ ٹیم میں شامل ہو گیا۔ یہاں نہ صرف سیکھنے اور صحافت کے پیشے میں آگے بڑھنے کا موقع ملا تو ساتھ ہی تجربہ بھی ہوتا چلا گیا۔ بڑے بڑے انتخابات اور بڑے بڑے ہنگامے بھی کور کئے اور یہ بھی دیکھا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اور سیاست قومی مفادات سے چل کر ذاتی مفادات تک کب، کیوں اور کیسے پہنچی، انتخابات میں کشمکش لڑائی جھگڑے اور ووٹروں کی خاطر تواضع کے مناظر بھی دیکھتا چلا آیا۔ لیکن جو حالات اب اس........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play