عدالتوں سے توشہ خانہ اور سائیفر والے مقدمات کے فیصلے ہوئے اور سامنے بھی آ گئے، اس حوالے سے تبصرے اور تجزیئے بھی ہو رہے ہیں، ہمارے صحافی بھائی اور سینئر حضرات اپنی اپنی رائے سے آگاہ بھی کر رہے ہیں۔ قوم الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے یہ سب دیکھ اور سن رہی ہے کہ ایک کیس میں سزا منگل کو ہوئی تو دوسرے میں بدھ کو ہو گئی۔ میرے لئے اس میں خاص بات یہ ہے کہ توشہ خانہ کیس میں دونوں میاں بیوی کو سزا ہو گئی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے یہ فیصلہ ملزموں (اب مجرم) کی عدم موجودگی میں سنایا کہ عمران خان عدالت (اڈیالہ جیل) آئے اور مختصر سوال جواب کے بعد واپس اپنے کمرہ حراست کی طرف چلے گئے جس کے بعد سزا سنائی گئی، اس وقت تک بشریٰ بیگم عدالت میں نہیں پہنچی تھیں، سزا کی خبر بریک ہوئی تو وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ سزا گزارنے کے لئے خود ہی اڈیالہ جیل پہنچ گئیں، یوں انہوں نے باہر رہ کر اپنی ضمانت کی کوشش نہ کی اور وفاداری نبھائی۔ اس سارے مسئلہ اور معاملہ پر میری اپنی ذاتی رائے یقیناً ہے لیکن میرے خیال میں فوری ردعمل کا وقت نہیں۔ یوں بھی پہلے ہی اپنے دو دوستوں کے ذکر میں دیر ہو چکی جو گزشتہ ہفتے کے دوران آگے پیچھے چلے گئے، ان کے حوالے سے یادوں کا ایک ذخیرہ ہے جس کو بتدریج ہی کھولنا ہوگا۔

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات 5 فروری کوہونگے

کراچی سے خبر ملی کہ نفیس صدیقی ایڈووکیٹ مختصر علالت کے بعد چل بسے اور ان کی تدفین بھی ہو گئی۔ اس سے دو تین روز قبل اسلام آباد سے خبر تھی کہ پی ایف یو جے کے اپنے دھڑے کے صدر پرویز شوکت انتقال فرما گئے۔ میرا ان دونوں سے گہرا تعلق رہا گو نوعیت مختلف تھی نفیس صدیقی تو اپنے اندر کئی صفات لئے ہوئے تھے وہ وکالت میں بینکنگ امور کے ماہر تھے تو سیاست میں بھی اپنا رنگ جما چکے تھے۔ حالیہ دنوں میں وہ سیاست سے الگ رہ کر کالم نویسی کر رہے تھے۔ وسیع مطالعہ اور سیاسی تجربہ ہونے کے باعث ان کے کالموں میں بڑی خوبصورتی سے حالات کا تجربہ کیا جاتا تھا جو متاثر کن بھی ہوتا کہ انہوں نے مارکسزم بھی بہت پڑھا اور خیالات ترقی پسندانہ تھے۔

تحریک انصاف کا الیکشن کیلئے پلان سی سامنے آ گیا

نفیس صدیقی سے میرا تعلق کب اور کیسے ہوا یہ تو یاد نہیں، اتنا علم ضرور ہے کہ کراچی والے دوست نسیم الدین قمر ایڈووکیٹ پنجاب یونیورسٹی میں بھی طالب علم رہے اور یہیں ان سے تعلق ہوا پھر وہ سرکاری ملازم ہوئے تو ان کی لاہور میں آمد و رفت بڑھ گئی جلد ہی وہ یہ ملازمت چھوڑ کر وکالت کرنے لگے اور ان سے ملنے جاتے ہوئے نفیس صدیقی اور کئی دیگر احباب سے تعلق استوار ہوا اور جلد ہی دوستی اور گھریلو تعلقات میں تبدیل ہو گیا۔ جس کی ایک بڑی وجہ ان کی اہلیہ شاہدہ صدیقی تھیں (دونوں میں علیحدگی ہو گئی جو مہذب پیرائے میں رہی) شاہدہ بہن کا تعلق صحافت سے تھا اور یوں یہ دوستی مزید بڑھی اور دونوں خاندانوں تک آ گئی۔ میری اہلیہ اور شاہدہ صدیقی میں بھی گاڑھی چھننے لگی یوں آنا جانا بھی ہوا۔ میرے پانچ بچوں میں سے تین پہلے والے چھوٹے تھے کہ ہمارا کراچی جانا ہوا۔ ان دنوں نفیس صدیقی نارتھ ناظم آباد میں رہتے تھے وہ شب و روز یادگار ہیں جب بچوں سمیت سب نے خوب انجوائے کیا اور یہ تعلقات اچھے نبھے، میری اہلیہ کی وفات تک سلسلہ ہائے بات چیت بھی چلتا رہا 1988ء میں جب میں برطانیہ اور امریکہ گیا تو شاہدہ صدیقی اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ لندن میں تھیں ان سے وہاں بھی ملاقات رہی۔

عمران خان جیل میں 14 سال سزا کاٹیں گے یا 10 سال؟ ماہر قانون کی رائے نے سب کو حیران کر دیا

نفیس صدیقی نے تو سیاست میں بھی پرجوش حصہ لیا مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک چلی تو نفیس صدیقی اور شاہدہ بہن پیش پیش تھے۔ گرفتار اور رہا بھی ہوئے نفیس تحریک استقلال (اصغر والی) کے سرگرم عہدیدار تھے۔ تحریک کے بعد جب مارشل لاء لگا اور بحالی جمہوریت کے لئے نوابزادہ نصراللہ خان کی محنت سے ایم آر ڈی بنی تو تحریک استقلال بھی اس کا حصہ تھی اور نفیس بہت سرگرم تھے۔ ایک وقت وہ آیا جب مارشل لاء کے تحت گرفتاریاں شروع ہوئیں اور عہدیدار پکڑے جانے لگے جب مرکزی قیادت کی باری آئی اور باری بارئی سب گرفتار ہونے لگے اور ان کی جگہ دوسرے راہنماؤں کو ذمہ داری سونپی جاتی رہی یوں ایک وقت آیا کہ نفیس بھی مرکزی سربراہ ہو گئے۔ ان کی گرفتاری کی کوشش ہوئی تو وہ کراچی سے لاہور آ گئے۔ دوستی تھی اور انہوں نے اسی تعلق سے میرے ساتھ رابطہ کیا اور کہا کہ ان کو جہانگیر بدر سے ملنا ہے۔ حسب سابق میں نے ان کو گھر پر بلایا کہ ہمارا گھریلو تعلق تھا اور آتے جاتے ایک دوسرے کے ہاں ٹھہرتے تھے۔ میں نے اپنے بھائی ڈاکٹر ضیاء اللہ خان بنگش سے کہا کہ وہ اپنے لیڈر جہانگیر بدر سے رابطہ کر کے نفیس صدیقی سے ملاقات کا اہتمام کر دیں۔ نفیس سے گزارش کی کہ وہ رابطے تک اطمینان سے میرے گھر ہی قیام کریں چنانچہ ایک دو روز میں ڈاکٹر ضیاء اللہ بنگش کے توسط سے یہ رابطہ ہو گیا تو وہ چلے گئے۔ عرض کرتا چلوں کہ دیر بعد مجھے ایک مرحوم صحافی دوست نے بتایا کہ بچ گئے ہو۔ نفیس لاہور میں تھے تو آپ کے ایک صحافی دوست نے آئی بی کو اطلاع دی اور کہا کہ نفیس کو گرفتار کرنا ہے تو چودھری خادم کا تعاقب کرو، یہ ان سے ضرور ملے گا لیکن ایسا نہ ہوا کہ میں صبح گھر سے سکوٹر پر دفتر کے لئے نکلتا تو نفیس سوئے ہوتے تھے اور پھر وہ میری عدم موجودگی میں جہانگیر بدر کے بلانے پر چلے بھی گئے، تو کافی عرصہ سے ان کے ساتھ ملاقات تو نہ ہوئی لیکن فون پر رابطہ یوں رہا کہ میں ان کا کالم پڑھ کر اس پر بات کرنے کے لئے فون کر لیتا تھا۔ یوں یہ تعلق آخری دم تک رہا وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو سیاستدان، وکیل اور کالم نگار کی حیثیت سے روانہ ہوئے اور انہی ادوار کے حوالے سے یاد بھی رکھے جائیں گے۔ اللہ مغفرت کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

8 فروری کو پی ٹی آئی کارکن اپنا غصہ ووٹ کے ذریعے نکالیں گے: اسد قیصر

دوسرے دوست پرویز شوکت کا تعلق نہ صرف ہمارے پیشہ صحافت سے تھا بلکہ ہم نے کئی برس ایک ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر ٹریڈ یونین کارکن کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ پرویز شوکت وفاقی صحافتی تنظیم (پی ایف یو جے) کی سیاست میں عبدالحمید چھاپرا (مرحوم) سے وابستہ تھے بلکہ ایک طرح ان کے شاگرد ہی تھے۔ سر گرم کارکن راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور متحرک راہنما تھے۔ تاہم پھر جب بڑے اٹھ گئے تو ان کے شاگرد حضرات کا دور آیا اور فیڈریشن ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ میری اور میرے جیسے کئی سینئر حضرات کی کاوش کام نہ آئی پرویز شوکت اپنے دھڑے کے صدر بن گئے تاہم ایک بات ان کے کریڈٹ میں ہے کہ ان سے اسلام آباد میں آخری ملاقات ہوئی اور میں نے پھر سے افہام و تفہیم کی بات کی تو ان کی پیشکش تھی کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مستعفی ہونے کو تیار ہیں۔ باقی سب بھی ایسا کریں پھر ایک مشترکہ بی ڈی ایم کے ذریعے نیا انتحاب کر لیا جائے معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی اور پرویز شوکت رخصت ہو گئے یوں میں کسی سے بات ہی نہ کر سکا اور اب تو وہ اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اچھے انسان تھے اللہ میرے ان دوستوں کی مغفرت فرمائے۔

عدالت کا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے فحش مواد ہٹانے کا حکم

QOSHE -         اپنے دوست نفیس صدیقی اور پرویز شوکت کے لئے! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        اپنے دوست نفیس صدیقی اور پرویز شوکت کے لئے!

11 5
01.02.2024

عدالتوں سے توشہ خانہ اور سائیفر والے مقدمات کے فیصلے ہوئے اور سامنے بھی آ گئے، اس حوالے سے تبصرے اور تجزیئے بھی ہو رہے ہیں، ہمارے صحافی بھائی اور سینئر حضرات اپنی اپنی رائے سے آگاہ بھی کر رہے ہیں۔ قوم الیکٹرونک میڈیا کے توسط سے یہ سب دیکھ اور سن رہی ہے کہ ایک کیس میں سزا منگل کو ہوئی تو دوسرے میں بدھ کو ہو گئی۔ میرے لئے اس میں خاص بات یہ ہے کہ توشہ خانہ کیس میں دونوں میاں بیوی کو سزا ہو گئی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے یہ فیصلہ ملزموں (اب مجرم) کی عدم موجودگی میں سنایا کہ عمران خان عدالت (اڈیالہ جیل) آئے اور مختصر سوال جواب کے بعد واپس اپنے کمرہ حراست کی طرف چلے گئے جس کے بعد سزا سنائی گئی، اس وقت تک بشریٰ بیگم عدالت میں نہیں پہنچی تھیں، سزا کی خبر بریک ہوئی تو وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ سزا گزارنے کے لئے خود ہی اڈیالہ جیل پہنچ گئیں، یوں انہوں نے باہر رہ کر اپنی ضمانت کی کوشش نہ کی اور وفاداری نبھائی۔ اس سارے مسئلہ اور معاملہ پر میری اپنی ذاتی رائے یقیناً ہے لیکن میرے خیال میں فوری ردعمل کا وقت نہیں۔ یوں بھی پہلے ہی اپنے دو دوستوں کے ذکر میں دیر ہو چکی جو گزشتہ ہفتے کے دوران آگے پیچھے چلے گئے، ان کے حوالے سے یادوں کا ایک ذخیرہ ہے جس کو بتدریج ہی کھولنا ہوگا۔

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات 5 فروری کوہونگے

کراچی سے خبر ملی کہ نفیس صدیقی ایڈووکیٹ مختصر علالت کے بعد چل بسے اور ان کی تدفین بھی ہو گئی۔ اس سے دو تین روز قبل اسلام آباد سے خبر تھی کہ پی ایف یو جے کے اپنے دھڑے کے صدر پرویز شوکت انتقال فرما گئے۔ میرا ان دونوں سے گہرا تعلق رہا گو نوعیت مختلف تھی نفیس صدیقی تو اپنے اندر کئی صفات لئے ہوئے تھے وہ وکالت میں بینکنگ امور کے ماہر تھے تو سیاست میں بھی اپنا رنگ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play