عام انتخابات کے لئے رائے شماری کا دن سر پر آ گیا ہے اب صرف ایک ہفتہ اور دو روز باقی ہیں، پھر ڈبہ کھل جائے گا اور پتہ چل جائے گا کہ کس کی قسمت نے یاوری کی اور ملک کے تمام تر مسائل کا کانٹوں بھرا ہار اس کے گلے میں پڑ گیا۔ملک کے مسائل یقینی طور پر بہت بڑھ چکے جس کا اعتراف بھی ہر جماعت کر رہی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا کہ ان کا حل ان کے انتخاب ہی سے ممکن ہے، قریباً سبھی جماعتوں نے اپنا اپنا پروگرام پیش کر دیا، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سو صفحات پر مشتمل منشور جاری کیا گیا،اس میں ہر شعبہ کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور دعویٰ کیا گیا کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں یہ کام تندہی سے کیے جائیں گے۔دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی نے دس نکاتی منشور اور اس کی تشریح پر مشتمل پروگرام دیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کی طرف سے کوئی منشور پیش نہیں کیا گیا تاہم مولانا فضل الرحمن کے مطابق ملک کے مسائل قرآن و سنت کے نفاذ ہی سے حل ہوں گے۔

لاہور میں نامعلوم افراد کی کار پر فائرنگ، ن لیگی امیدوار کے بھائی سمیت 5 افراد زخمی

ملک میں سیاسی جماعتوں کی بہتات ہے تاہم تین جماعتیں مسلم لیگ(ن)،پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت العلماء اسلام(ف) ملک گیر مہم چلائے ہوئے ہیں، چوتھی سیاسی جماعت تحریک انصاف ہے جس کے امیدوار آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ان کو انتخابی نشان بلا نہ مل سکا کہ الیکشن کمیشن نے جماعتی انتخابات نہ کرانے کے الزام میں نشان چھین لیا تھا اب اس جماعت کے امیدوار مختلف انتخابی نشانات کے تحت آزاد حیثیت سے انتخابی دنگل میں ہیں اور نظر بظاہر مقابلہ انہی جماعتوں کے درمیان نظر آ رہا ہے۔اگرچہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم کا جو انداز اختیار کیا اس نے ماحول کو گرما دیا اور انہی کے جلسوں کی وجہ سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ مقابلہ انہی جماعتوں کے درمیان ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

لاہور کو یہ شرف حاصل ہو گیا کہ ان دوجماعتوں کے بڑوں سمیت دوسرے امیدوار میدان میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری لاہور سے بھی امیدوار ہیں، جبکہ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے خود محمد نواز شریف، مریم نواز شریف، محمد شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف بھی میدان میں، دونوں بھائیوں میں سے محمد شہباز شریف دو حلقوں سے قومی اسمبلی اور ایک سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ حمزہ شہباز اور مریم نواز شریف بھی قومی اور صوبائی نشستوں کے لئے قسمت آزما ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثریت مل جانے کی صورت میں وزارت عظمیٰ تو محمد نوازشریف کے حصے میں آئے گی اور صوبے کی اکثریت ملی تو پھر مقابلہ وزارتِ اعلیٰ کے لئے ہو گا۔ امکانی طور پر 90ء کی دہائی والا ماحول ہو گا کہ دونوں بھائی وفاق اور صوبے کے سربراہ ہوں گے البتہ مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز کے لئے اعلان کا انتظار کرنا ہو گا یہ ممکنہ حکمت ہے اور شریف خاندان نے پہلے ہی سے فیصلہ کر رکھا ہو گا۔

چیف جسٹس سے اپیل ہے بےقصوروں کو رہائی دلائیں،علیمہ خان

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ایک ایسے حلقے سے امیدوار ہیں جہاں سے مشکل وقت میں بھی چودھری اسلم گل نے35ہزار ووٹ حاصل کر لئے تھے اور اب تو اس حلقے سے مسلم لیگ(ن) نے عطاء تارڑ کو میدان میں اتارا ہوا ہے۔ تارڑ صاحب سابق صدر رفیق تارڑ کے پوتے ہیں تاہم ان کا اپنا تعلق اِس حلقے سے نہیں، دونوں ہی اجنبی ہیں تاہم بلاول بھٹو کے لئے یہ حلقہ یوں مفید ہے کہ یہاں نچلے متوسط طبقہ کے افراد کی اکثریت ہے اور محنت کشوں کی بھی بھاری تعداد ہے، متوسط اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندان کم ہیں۔

ابتداء میں لاہور بھی دوسرے شہروں کی طرح ”ماٹھا“ نظر آیا،لیکن مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے جلسوں اور ریلیوں نے دلچسپی بڑھا دی، اب تو بینروں اور فلیکسوں کی بہار آئی ہوئی ہے تاہم گلی محلوں میں پرانا دور لوٹ کر نہیں آیا۔تحریک انصاف کے سلمان اکبر راجہ، ڈاکٹر یاسمین راشد، سابق گورنر پنجاب اور میئر لاہور حماد اظہر کے والد میاں اظہر ان کے متبادل کے طور پر میدان میں ہیں،مگران کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔یہ حضرات آزاد ہونے کی وجہ سے اپنی انتخابی مہم خود نہیں چلا سکے ان کے ووٹر ہی ان کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔ڈاکٹر یاسمین راشد، محمد نواز شریف کے مقابل ہیں تو صنم جاوید، مریم نواز کے حلقے میں ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔یہ دونوں جیل میں ہیں۔مقابلے دلچسپ ہیں، نتیجے کا پُرشوق انتظار ہو گا۔

لاہور کے نجی ہوٹل میں فرٹیلائزر ڈیلرز کنونشن کا انعقاد، ملک بھر سے کھادڈیلروں کی شرکت

اس انتخابی دنگل میں رائے دہندگان بھوک، بیماری اور بیروزگاری کے ساتھ مقامی مسائل کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سارے کے سارے مقامی حکومت(بلدیاتی اداروں) کے کرنے کے ہیں لیکن مروجہ طریقہ یہی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین سے نالیوں کی مرمت اور سڑکوں کی بحالی کے مطالبے کئے جاتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

QOSHE -           رائے شماری میں نو روز باقی - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          رائے شماری میں نو روز باقی

7 0
31.01.2024

عام انتخابات کے لئے رائے شماری کا دن سر پر آ گیا ہے اب صرف ایک ہفتہ اور دو روز باقی ہیں، پھر ڈبہ کھل جائے گا اور پتہ چل جائے گا کہ کس کی قسمت نے یاوری کی اور ملک کے تمام تر مسائل کا کانٹوں بھرا ہار اس کے گلے میں پڑ گیا۔ملک کے مسائل یقینی طور پر بہت بڑھ چکے جس کا اعتراف بھی ہر جماعت کر رہی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا کہ ان کا حل ان کے انتخاب ہی سے ممکن ہے، قریباً سبھی جماعتوں نے اپنا اپنا پروگرام پیش کر دیا، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سو صفحات پر مشتمل منشور جاری کیا گیا،اس میں ہر شعبہ کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور دعویٰ کیا گیا کہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں یہ کام تندہی سے کیے جائیں گے۔دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی نے دس نکاتی منشور اور اس کی تشریح پر مشتمل پروگرام دیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کی طرف سے کوئی منشور پیش نہیں کیا گیا تاہم مولانا فضل الرحمن کے مطابق ملک کے مسائل قرآن و سنت کے نفاذ ہی سے حل ہوں گے۔

لاہور میں نامعلوم افراد کی کار پر فائرنگ، ن لیگی امیدوار کے بھائی سمیت 5 افراد زخمی

ملک میں سیاسی جماعتوں کی بہتات ہے تاہم تین جماعتیں مسلم لیگ(ن)،پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت العلماء اسلام(ف)........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play