کہنے کو کچھ ہو نہ ہو لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے اور لکھا بھی جا رہا ہے،پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی تجربہ کار سیاستدان اور پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے وکیل بھی ہیں۔ ترقی پسند اور کھرے انسان ہیں، ہمیشہ اچھی بات کرتے ہیں، معلوم نہیں ان کو کیا سوجھی کہ نگران حکومتوں کے دو افراد کے نام لے کر نگران حکومتوں کے اراکین کو تلاشِ روزگار کے متلاشی قرار دے دیا وہ بڑے غصہ سے کہہ رہے تھے یہ سب نوکریوں کی تلاش میں آئے ہیں، نگران وزیر خزانہ نے ایک بڑے ادارے کی چیئرپرسن شپ سنبھال لی ہے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بن کر تین سالہ نوکری پکی کر رہے ہیں۔

پاکستان کاغزہ جنگ سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم

نگران وزیر خزانہ کا ذکر بھی آ گیا، ان کو بھی ایوب دور کے وزیر خزانہ شعیب کی طرح مہنگائی دکھائی نہیں دیتی کہ شاید یہ بھی بازار سے سودا خود نہیں خریدتیں،جیسے شعیب صاحب کو بازار کے بھاؤ کا علم نہیں تھا،ایسے ہی شاید ان کو بھی معلوم نہیں، شعیب (مرحوم) کی تو اہلیہ سودا خریدتی تھیں، موجودہ نگران وزیر خزانہ شاید ملازمین کے ذریعے سودا سلف منگواتی ہوں گی یا پھر ان کابھی وہی حال ہو گا جو شعیب صاحب کا تھا۔قارئین! الجھیں نہ بات یہ ہے کہ جب دورِ ایوبی میں چینی چار آنے فی سیر مہنگی ہوئی تو لاہور ایئر پورٹ پر اخبار نویسوں نے ان سے سوال کیا اور بتایا کہ چینی مہنگی ہو گئی ہے۔محترم بڑی سادگی سے بولے،”مجھے تو علم نہیں،سودا سلف تو میری بیگم خریدتی ہیں“۔معاف کیجئے، بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچی۔رضا ربانی ہمارے قابل ِ احترام دوست ہیں اور میں ان کی اہلیت کا بھی قائل ہوں، لیکن نہ معلوم انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف اب رخ کیوں کر لیا ہے شاید حال ہی میں ایک صحافی کا نام آنے پر ان کو اچھا نہیں لگا اور انہوں نے دوسرے نگران حضرات کے ساتھ ان کو بھی ساتھ شامل کر لیا ہے، حالانکہ محسن نقوی نے تو بڑا نام کمایا اور اب سبھی ان کو محسن سپیڈ کہتے ہیں شاید ان کو اِسی صفت کی وجہ سے یہ عہدہ مختص کیا گیا ہے کہ یہاں بھی سپیڈ کی ضرورت ہو گی۔ میاں رضا ربانی کو تو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کہ ان کی جماعت سے منسلک مرکزی مجلس عاملہ کے رکن چیئرمین بن کر مستعفی ہوئے اور اِس سے قبل وہ کرکٹ کو ہاکی کی سطح پر لے آئے۔ میں کرکٹ کے بارے میں ہی لکھنا چاہتا تھا اور کارکردگی کا ذکر مقصود تھا کہ درمیان میں میاں رضا ربانی کی برہمی آ گئی۔انہوں نے کرکٹ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہا،لیکن نگرانوں کو طعنہ ضرور دیا کہ وہ مستقل نوکری کی تلاش میں ہیں میرا خیال ہے کہ محسن نقوی کے لئے مستقل نوکری تو شاید کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ خود صحافتی اداروں کے مالک ہیں اور ان کے ملازموں کی تعداد پی سی بی کے اہلکاروں سے تو زیادہ ہو گی البتہ ماہوار مشاہرے کی بات مشکل سی ہے اور میں تو ہر دو اداروں کی ماہانہ آمدنی کا تقابل بھی نہیں کرنا چاہتا، میرا خیال ہے کہ میاں رضا ربانی ایسی ہی تقریر اب سینٹ کے آنے والے اجلاس میں بھی کر دیں گے۔بہرحال میں تو پیشہ ورانہ تعصب کی وجہ سے کوئی الزام تو لگانا ہی نہیں چاہتا البتہ یہ ضرور چاہوں گا کہ وہ یہاں نگران وزیراعلیٰ والی سپیڈ نہ دکھائیں کہ یہاں سے لوگ ناکام گئے ہیں اور اب تو لاہور ہائیکورٹ کے ایک فاضل جج نے سموگ کے کیس کی سماعت کے دوران لاہور کے انڈر پاسز کی تزئین کے حوالے سے بڑے سخت ریمارکس دیئے ہیں جو محترم محسن نقوی کی توجہ کے مستحق ہیں کہ وہ فاضل جج کے ریمارکس کے مطابق تحقیقات ضرور کرائیں گے کہ تزئین کے نام پر انڈر پاسز کی خوبصورت کا ستیاناس کر دیا گیا ہے، پہلے یہاں خوبصورت ٹائلیں تھیں، صرف روشنی کو بہتر کرنے کی ضرورت تھی لیکن یہاں سے ٹائلیں اکھاڑ کر اب جو لکیروں کی صورت میں لائٹیں لگائی گئی ہیں نہ تو وہ خوبصورت ہیں اور نہ ہی دیرپا کہ ابھی لگائی گئی ہیں اور پھر سے خراب ہو گئی ہیں،ٹائلوں کا کیا ہوا کسی کو علم نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ محسن نقوی اس طرف ضرور توجہ دیں گے اور ڈیزائنر سمیت ٹھیکیدار اور متعلقہ افسر بھی کٹہرے میں ہوں گے یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ اب فاضل جج ہائیکورٹ نے نوٹس لیا ہے وہ متعلقہ حکام کو طلب بھی کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے الیکشن کیلئے 30 کروڑ روپے مانگ لیے

میں درحقیقت کرکٹ کی تباہی کا نوحہ لکھنا چاہتا تھا کہ یہ سب سامنے آ گیا، محترم ذکاء اشرف کے حوالے سے میں نے عرض کیا تھا کہ یہ کرکٹ کو ہاکی تک پہنچا کر چھوڑیں گے اور انہوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا اور خود ہی تشریف لے گئے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ٹور سے قبل بھارت میں ہونے والے ورلڈکپ سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ آسٹریلیا کے بعد نیوزی لینڈ میں 4-1 پر منتج ہوا، یوں جس ٹیم کو شاہینوں نے اپنے گھر میں جیتا اس نے اپنے وطن میں بدلہ چکا دیا۔ اس سلسلے میں تکنیکی باتوں کے ماورا مجھے یہ یاد دلانا ہے کہ دنیا کا کوئی کرکٹ بورڈ اپنے عالمی سطح کے کھلاڑیوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتا کہ ان کے خلاف پبلک میں الزام لگائے، بورڈ کے سربراہ کے پاس تو تحقیقات اور کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کے اختیارات ہیں پھر ایسے الزام کا کیا فائدہ جو نہ تو ثابت ہو اور نہ ہی اس کی تحقیقات ہو۔البتہ بدنامی اور دِل شکنی ضرور ہوئی۔سابق چیئرمین موصوف نے تبدیلیوں کا جو دور چلایا وہ راس نہیں آیا،سب غیر ملکی چھوڑ کر چلے گئے اور ان کی جگہ جو اپنے لوگ لگائے انہوں نے اچھے نتائج نہیں دیئے۔ایک کوچ اپنے بھتیجے کی پروموشن کرتے رہے اور ڈائریکٹر صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ سیر و تفریح کا شوق پورا کرتے پائے گئے جبکہ کھلاڑیوں کے ساتھ ان کا اپنا رویہ درست نہیں تھا وہ بھی کھلے بندوں الزام لگاتے رہے اور واپس آ کر انہوں نے مزید کسر پوری کی کہ کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم کے کھیل سے زیادہ لیگز کی فکر ہے یہ تو درست نہیں کہ کھلاڑی پرفارم کرتا ہے تو اس کی گھر کے باہر بھی قدر ہوتی ہے۔ پروفیسر حفیظ تو خود ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن کو بورڈ سے شکایت رہی اور ایک بار تو وہ خود بھی باغی گروپ کا حصہ تھے اب ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ڈائریکٹر سے بری الذمہ ہونے کے بعد ان کے لئے پی ایس ایل کھیلنا بھی ممکن نہیں رہا ایسا ہو تو دِل میں خیال آتا ہی ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

میں کرکٹ کے حوالے سے جتنا جانتا ہوں اس کے مطابق کھلاڑی پر اچھا بُرا وقت آتا جاتا رہتا ہے،ضرورت ہمیشہ یہ رہی کہ کھلاڑیوں کو پرچی کی بجائے میرٹ پر پرکھا اور رکھا جائے اور ایسا انتظام بھی کیا جائے کہ ان کی تحلیل نفسی ہو،اس کے علاوہ زیادہ ضرورت یہ بھی ہے کہ کرکٹ اکیڈمی کا نظام زیادہ بہتر کیا جائے۔اُبھرتے کھلاڑیوں کی مسلسل تربیت کا انتظام ہو،سابق کھلاڑیوں کو بلوا کر لیکچر اور تربیت دلائی جائے اور جو حضرات ٹیم کی انتظامیہ کا حصہ ہوں ان کو سختی سے کوڈ کا پابند کیا جائے جس کے مطابق وہ بات نہیں کر سکتے اور جو حضرات نگران اور کوچ ہوں ان کی اہلیت پہلے سے جانچ لی جائے۔

انتخابات کے لیے تحریک انصاف کو بیرون ملک سے بڑی رقم موصول ہوئی، نجی ٹی وی کا الزام

یہ وقت طعن و تشنیع کا نہیں سنبھالنے کا ہے اور اب اگر یہ ذمہ داری محسن نقوی کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے تو ان کو سابقین کے تجربات اور حالات کو سامنے رکھنا ہو گا، آپس کی مخالفتوں کو ختم کرا کے دوستی اور بھائی چارے کا ثبوت دینا ہو گا۔ مزید برآں اس کھیل کے حوالے سے جو پریشر گروپ ہیں ان کا بھی سامنا کرنا ہوگا، اللہ کرے شاہین پھر سے پرواز کے قابل ہوں۔

QOSHE -        یہ رضا ربانی کو غصہ کیوں؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       یہ رضا ربانی کو غصہ کیوں؟

21 2
27.01.2024

کہنے کو کچھ ہو نہ ہو لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے اور لکھا بھی جا رہا ہے،پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر میاں رضا ربانی تجربہ کار سیاستدان اور پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے وکیل بھی ہیں۔ ترقی پسند اور کھرے انسان ہیں، ہمیشہ اچھی بات کرتے ہیں، معلوم نہیں ان کو کیا سوجھی کہ نگران حکومتوں کے دو افراد کے نام لے کر نگران حکومتوں کے اراکین کو تلاشِ روزگار کے متلاشی قرار دے دیا وہ بڑے غصہ سے کہہ رہے تھے یہ سب نوکریوں کی تلاش میں آئے ہیں، نگران وزیر خزانہ نے ایک بڑے ادارے کی چیئرپرسن شپ سنبھال لی ہے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بن کر تین سالہ نوکری پکی کر رہے ہیں۔

پاکستان کاغزہ جنگ سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم

نگران وزیر خزانہ کا ذکر بھی آ گیا، ان کو بھی ایوب دور کے وزیر خزانہ شعیب کی طرح مہنگائی دکھائی نہیں دیتی کہ شاید یہ بھی بازار سے سودا خود نہیں خریدتیں،جیسے شعیب صاحب کو بازار کے بھاؤ کا علم نہیں تھا،ایسے ہی شاید ان کو بھی معلوم نہیں، شعیب (مرحوم) کی تو اہلیہ سودا خریدتی تھیں، موجودہ نگران وزیر خزانہ شاید ملازمین کے ذریعے سودا سلف منگواتی ہوں گی یا پھر ان کابھی وہی حال ہو گا جو شعیب صاحب کا تھا۔قارئین! الجھیں نہ بات یہ ہے کہ جب دورِ ایوبی میں چینی چار آنے فی سیر مہنگی ہوئی تو لاہور ایئر پورٹ پر اخبار نویسوں نے ان سے سوال کیا اور بتایا کہ چینی مہنگی ہو گئی ہے۔محترم بڑی سادگی سے بولے،”مجھے تو علم نہیں،سودا سلف تو میری بیگم خریدتی ہیں“۔معاف کیجئے، بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک پہنچی۔رضا ربانی ہمارے قابل ِ احترام دوست ہیں اور میں ان کی اہلیت کا بھی قائل ہوں، لیکن نہ معلوم انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف اب رخ کیوں کر لیا ہے شاید حال ہی میں ایک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play