یہ موسم سرما درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ وارد ہوا، ملک خصوصاً خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں سخت سردی پڑ رہی ہے۔پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت کئی درجے منفی ہو گیا جبکہ وسطی پنجاب میں یہ تین سے چار سنٹی گریڈ تک آ گیا۔کم از کم درجہ حرارت کے ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں کمی ہوئی جو 9سنٹی گریڈ تک بھی رہا،سرد موسم کی یہ سختی اپنی جگہ کہ اِس دوران سموگ اور دھند نے پڑاؤ ڈال لیا جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔اس کے ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثر کی وجہ سے تاحال موسم سرما کی بارش بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی ابھی ایسے کوئی آثار ہیں۔اب محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ اِس ماہ کے آخری ہفتوں میں وسطی پنجاب میں بھی بارش ہو گی،بارش نہ ہونے سے خشک سردی نے ملک بھر میں وبائی امراض کا دہانہ کھول دیا اور خشک سالی نے رنگ دکھایا،گندم کی بوائی ہو بھی چکی اب موسم کی اس ہیئت کے باعث فضل بُری طرح متاثر ہو رہی ہے، سخت سردی اور کہرے کے باعث پودے پھوٹنے میں تاخیر ہو رہی ہے،تاخیر ہو رہی ہے ایسے میں پیداوار کا ہدف کیسے پورا کیا جائے گا،اِس حوالے سے کسان اور عام لوگ پریشان ہیں جبکہ حکام بالا کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت اور رہنما کو کوئی خیال آ رہا ہے۔سردی کی لہر اور کہرے نے سینے کے امراض میں بے حد اضافہ کیا ہے۔ہسپتال نمونیے کے مریضوں سے بھر گئے، ہزاروں بچے متاثر ہوئے اور قریباً 200 بچے وفات پا چکے ہیں اِس حوالے سے بھی کسی پریشانی کا اظہار نظر نہیں آیا،صارفین کی شکایت ہے کہ اس سخت موسم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور گیس آ نہیں رہی جبکہ ہر دو سروسز کے بل چلے آ رہے ہیں جو چار گنا تک اضافے کے ہیں۔

لاہور میں دفعہ 144 کے خلاف ورزی پر گرفتاریاں شروع

اِس سلسلے میں مجھے اپنا سکول کا وقت یاد آ رہا ہے جب سکول جاتے ہوئے منہ سے دھواں نکالتے جاتے تھے، ہاتھ جیبوں سے باہر نکالنا مشکل ہوتا تھا، گھر میں ہوتے تو انگیٹھی تاپتے تھے تاہم اس دور میں بے احتیاطی کے باوجود نمونیہ کے کیس شاذو نادر ہی تھے، حالانکہ اس دور کو پرانا اور دقیانوسی زمانہ پکارا جاتا ہے،ایسا کچھ نہیں تھا اور آج کے زمانے کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود اطمینانِ قلب نصیبوں میں تھا، مجھے آج تک اپنی دادی جان کی وہ شفقت یاد ہے، صبح کے وقت رضائی میں منہ چھپائے ہوئے کو جگاتیں اور بازار سے کلچے لانے کے لئے بھیجتیں، خود انہوں نے دو انگیٹھیاں جلا رکھی ہوتی تھیں۔ ایک پر دودھ والی دیگچی ہوتی دودھ ابلتا تو وہ سبز چاء کا قہوہ ڈال دیتیں جو پہلے سے بنا کررکھا ہوتا تھا، میں کلچے لے کر آتا تو مجھے منہ ہاتھ دھو کر تیار ہونے کی ہدایت کی جاتی،میں موسم کی مناسبت سے موجود کپڑے پہن کر حاضر ہو جاتا تو دوسری انگیٹھی پر توا رکھ کر دیسی گھی سے کلچہ فرائی کر کے ناشتے کے لئے دیا جاتا اور ساتھ دوسرے چولہے سے ابلتی ہوئی کشمیری چاء کا پیالہ بھی دے کر ناشتہ ختم کرنے کی ہدایت ہوتی اور پھر میں جیب خرچ لے کر سکول روانہ ہو جاتا، سکول میں بھی قلفی جمتی، ٹھنڈ ہمیں پڑھنے اور کھیلنے کودنے سے نہ روک سکتی تھی، کئی سردیوں کے بعد ایسی ٹھنڈ پڑی ہے تو یہ سب یاد آ گیا،ورنہ اب جن موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم کو واسطہ ہے یہ معمول کی بات تھی اور آج جو توبہ توبہ کی جا رہی ہے، ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ بارش کی دُعا کی جاتی تھی، اگر کبھی بارش میں طویل وقفہ ہوتا تو دَُعائیں مانگی جاتی تھیں، کئی بار گرمی یا سردی میں ایسا ہوتا تو نماز استسقاء ادا کی جاتی، دُعا ہوتی تو بارش بھی ہو جاتی تھی، آج بھی یہ ضرورت موجود ہے لیکن کوئی توجہ نہیں کرتا،حالانکہ کئی بار توجہ دلائی گئی، معلوم نہیں کہ اب نماز ادا کر کے اللہ کے دُعا کیوں نہیں کی جا رہی؟

ون وے ٹریفک اب ہرگز نہیں چلنے دیں گے،فاروق ستار

موسم کی بات ہو گئی، اب ذرا ملکی سیاست پر بھی غور کیا جائے تو یہ بھی ٹھنڈی ٹھار ہے،میرے لئے پریشانی یہ ہے کہ ریلیوں اور جلسوں میں اتنے لوگ کہاں سے کیسے آ رہے ہیں کہ مجموعی طور پر عوام کے اندر ابھی تک انتخابی جوش پیدا نہیں ہوا۔ یہ تو بلاول نے میدان گرمایا تو اب مسلم لیگ(ن) نے بھی ”مَسل“ دکھانا شروع کئے ہیں۔ یہ سب قوم کو تسلی اور دلاسہ دے رہے ہیں لیکن کسی کو موجودہ حالات سے غرض نہیں کہ اشیاء ضرورت اور خورد نوش کے نرخ کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں،اس گرانی نے مجھ جیسے لوگوں کو اپنا دورِ قدامت یاد کرا دیا اور اب ہم سب اس زمانے کی بات کرتے ہیں جب آمدنی اتنی نہ تھی لیکن بازار اتنا سستا تھا کہ لوگ بڑی آسان اور خوشحال زندگی بسر کرتے تھے، اشیاء زیادہ تر خالص ملتی تھیں اگر کسی دکاندار سے شکایت ہوتی تو وہ ”نکوُ“ بن جاتا اور اسے معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔اس دور میں بھی جھگڑے ہو جاتے لیکن نوبت ایسے تنازعہ اور کشیدگی تک نہیں جاتی تھی،سیاست میں مقابلہ ہوتا لیکن کشیدگی نہیں ہوتی تھی اور ایسا ہی ہونا چاہئے،لیکن دُکھ ہے کہ آج کے دور میں تہذیب کہیں گم ہو گئی ہے اور ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ انتخابی جوش و خروش جلسوں اور میٹنگوں تک ہے ابھی عوامی سطح تک نہیں۔ اگرچہ پروپیگنڈہ بہت ہو رہا ہے، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ابر ِ رحمت سے نوازے اور ملک میں امن و امان بھی مثالی بنا دے۔

دوحہ :قطر ایم ایم اے کمیٹی اور پاکستان ایم ایم اے فیڈریشن کے نمائندگان میں ملاقات

8فروری کے انتخابات کے لئے تیاریاں مکمل ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دائرہ اثر میں مصروف ہیں۔ مولانا ابھی تک کے پی سے باہر نہیں نکلے۔ مسلم لیگ (ن) اور استحکام پاکستان پارٹی کو دوسروں صوبوں کی فکر نہیں، توجہ پنجاب پر ہے۔ بلاول سندھ سے باہر نکل کر اپنا رنگ جما رہے ہیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے، زبان خلق اپنی جگہ ہے جہانگیر ترین کا تازہ بیان قابل غور ہے اگرچہ کوئی انکشاف نہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ چلیں گے۔

QOSHE -       سردی کا موسم اور انتخابی ماحول! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      سردی کا موسم اور انتخابی ماحول!

12 8
25.01.2024

یہ موسم سرما درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ وارد ہوا، ملک خصوصاً خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں سخت سردی پڑ رہی ہے۔پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت کئی درجے منفی ہو گیا جبکہ وسطی پنجاب میں یہ تین سے چار سنٹی گریڈ تک آ گیا۔کم از کم درجہ حرارت کے ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں کمی ہوئی جو 9سنٹی گریڈ تک بھی رہا،سرد موسم کی یہ سختی اپنی جگہ کہ اِس دوران سموگ اور دھند نے پڑاؤ ڈال لیا جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔اس کے ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثر کی وجہ سے تاحال موسم سرما کی بارش بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی ابھی ایسے کوئی آثار ہیں۔اب محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ اِس ماہ کے آخری ہفتوں میں وسطی پنجاب میں بھی بارش ہو گی،بارش نہ ہونے سے خشک سردی نے ملک بھر میں وبائی امراض کا دہانہ کھول دیا اور خشک سالی نے رنگ دکھایا،گندم کی بوائی ہو بھی چکی اب موسم کی اس ہیئت کے باعث فضل بُری طرح متاثر ہو رہی ہے، سخت سردی اور کہرے کے باعث پودے پھوٹنے میں تاخیر ہو رہی ہے،تاخیر ہو رہی ہے ایسے میں پیداوار کا ہدف کیسے پورا کیا جائے گا،اِس حوالے سے کسان اور عام لوگ پریشان ہیں جبکہ حکام بالا کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت اور رہنما کو کوئی خیال آ رہا ہے۔سردی کی لہر اور کہرے نے سینے کے امراض میں بے حد اضافہ کیا ہے۔ہسپتال نمونیے کے مریضوں سے بھر گئے، ہزاروں بچے متاثر ہوئے اور قریباً 200 بچے وفات پا چکے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play