کیا فیصلہ ہی غلط تھا؟
اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو طوفان برپا ہے یہ غیر متوقع تو نہیں لیکن انتخابی نشان کے حوالے سے سہ رکنی بنچ کے روبرو بانی کی جماعت کے حامی وکلاء کے موقف کے بالکل بر عکس ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ ان حضرات کی تربیت ہی اس پیمانے پر ہوئی ہے کہ جب موقع ملے مخالف پر چڑھ دوڑو اور افترا پردازی کی حد کر دو، جہاں تحریک انصاف سے انتخابی نشان بلا کی واپسی کا تعلق ہے تو کسی بھی سیاسی شخصیت یا جماعت نے اسے اچھا نہیں جانا، حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی والوں نے بھی حمایت کی اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ کا فیصلہ قانونی لحاظ سے درست اور اسے خود تحریک انصاف کے وکلاء نے تسلیم کیا۔ تاہم اعتراض یہ کیا کہ فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا گیا اور اسی وجہ سے نظرثانی اپیل تیار کر کے دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
امریکا کی پاکستان پر ایران کی جانب سے حملے کی مذمتجہاں تک ہمارے ملک کے عدالتی نظام کا تعلق ہے تو یہ ہمیشہ سے تنقید کی زد میں رہا ہے۔ اس کے باوجود مروجہ اور معروف پریکٹس یہی ہے کہ جس کے حق میں فیصلہ ہو وہ مطمئن اور خوش اور جس کے خلاف ہو وہ ناراض اور گفتنی نا گفتنی شروع کر دیتا ہے لیکن تحریک انصاف والے حضرات تو خود کو درجہ حق پر فائز خیال کرتے ہیں، ان کی پسند کے مطابق حق میں فیصلے ہوتے رہے تو وہ بہت خوش اور مطمئن تھے۔ جونہی بازی پلٹی وہ بھی ناراض ہو گئے اور ان کی ناراضی سے جو کچھ ہوتا وہ اس کا اندازہ سوشل میڈیا دیکھ کر ہوتا ہے۔ جہاں تک عدالتی فیصلوں پر تنقید کا معاملہ ہے تو یہ فیصلے کے بعد جائز ہے اور نیک نیتی شرط ہے۔ دوسرے معنوں میں فیصلے کے حسن وقبح پر تو بات کی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تنقید نگار کی نگاہ میں........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website