ہندوستان میں انیسویں صدی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ دہلی اور لکھنو کے شعرا کی آپس میں معاصرانہ چشمکیں چلتی رہتی تھیں کہ مشاعروں کا رواج تھا طرہ مصرعہ دیا جاتا تھا اور اس پر گرہ لگانی ہوتی تھی یعنی شعر کا دوسرا مصرعہ لگا کر شعر مکمل کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ لکھنؤ کا ایک شخص دہلی آیا تو دیکھا کہ ایک طرح مصرعہ پر شعراء سر گرداں ہیں کہ اس پر کیا گرہ لگائی جائے یعنی دوسرا مصرعہ لگا کر شعر کو مکمل کیا جائے وہ طرح مصرعہ تھا کہ

رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں!!

جب لکھنو سے وارد شخص نے دلی والوں کو اس طرح مصرعہ پر پریشان دیکھا تو اس نے نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ جان کی امان پاؤں تو اس پر گرہ لگا کرمیں شعر مکمل کر دیتا ہوں مگر آپ برا نہ ماننا۔ اس کی یہ بات کہنے پر دلی والوں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس سے ہر گز ناراض نہ ہوں گے تو اس نے پورا شعر اس طرح بنا کر سامعین کی بولتی بند کردی کہ:

جنوبی افریقہ نے آل راؤنڈر جوان جیمز کو انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے کپتان نامزد کر دیا

سنا ہے دلی میں کچھ الو کے پٹھے!!

رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں!!

توجناب من انیسویں صدی میں جب ہندوستان کے مسلمان ان لغویات میں غرق تھے اور رگ گل سے بلبل کے پر باندھ رہے تھے اس وقت آج کی ترقی یافتہ اقوام میں ایک بیداری کی لہر پیدا ہو چکی تھی اور زمین اپنے خزانے اُگل رہی تھی اور ان خزانوں کارخ مغربی اقوام کی طرف ہی تھا مگر افسوس کہ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی سلطنت کا سورج بادشاہوں اور ان کے مقرر کردہ امراء کی عیاشیوں اور نازک اندامیوں کی بدولت غروب ہو رہا تھا اورہندوستان کے خزانے یورپ منتقل ہو رہے تھے کہ ہندوستان میں اٹھارہویں صدی کے آغاز سے انیسویں صدی کے وسط تک خاندان مغلیہ میں اقتدار کی باہمی رسہ کشی اورعیاشیوں نے عوام کو ان سے دور کر دیا کہ جب حکمران عوام پر نئے سے نئے ٹیکس تو لگاتے جاتے مگروہ ٹیکس عوام پر خرچ کرنے کی بجائے مقتدر طبقات کے اللے تللے اور ان کی عیاشیوں پر خرچ ہوں تو یہ لابدی اور ناگزیر امر ہے کہ وہاں بیرونی مداخلت ہوگی اور یہی سب کچھ ہندوستان میں مغلوں کیساتھ ہواکہ اورنگزیب عالمگیر کے بعدمغلوں کی رعایا سے دوری اور خوشامدی قسم کے لوگوں سے دربار کا بھرا رہنا ہندوستان میں مغل بادشاہوں کے زوال کا سبب بنا۔ مغلوں نے جدید عہد کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے اپنے حرم آباد کیے اورشہزادوں اور شہزادیوں کی کثیر تعداد تولد پذیر ہوتی چلی گئی جس کے نتیجہ میں شہزادوں کی کثیر تعداد نے تخت و تاج کے حصول کے بہت سارے امیدوار پیدا کر دئیے کہ جن کی حصول اقتدار کے لئے باہمی چپقلش نے بیرونی مداخلت کا دروازہ کھول دیا جو بالآخر انگریزوں سے 1857ء کی جنگ میں ہندوستان کے اقتدارپر منتج ہوا اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکے چار نور نظر شہزادوں کے سر انگریزوں کی فوج نے کا ٹ کراس کے سامنے پیش کئے۔جناب من!مغل بادشاہوں نے اپنی بادشاہت کے دور میں جو تقریباً چالیس لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل تھی جو غلطیاں کیں وہ آج کے پاکستان کے ماضی میں بھی دُہرائی گئی ہیں اور آج بھی وہی غلطیاں جاری وساری ہیں کہ مغلوں نے ہندوستان میں اسکول، کالج،ہسپتال نہ بنائے اور اپنے لوگوں کی قدرنہ کی اور ان کو کیڑے مکوڑے کا درجہ دیا جو شدید غربت اور ناخواندگی کا شکار تھے اور مغلوں کی ترجیحات صرف تعمیرات پر تھیں اور بڑے بڑے قلعے اور عمارتیں غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کی سے تعمیر کیں بالکل اسی طرح پاکستان کا حال سب کے سامنے ہے کہ اغیار کی کاسہ لیسی کو اختیار کیا گیا اپنی عوام کی قدر ہی نہ کی گئی اور مغلوں کی طرح وی وی آئی پی کلچر کو ثقافت کا حصہ بنادیا گیا اور بجائے اسکے کہ حکمران طبقہ سادگی اختیار کر تا تکلفات اور عیاشیوں کے قعر مذلت میں گر گیا اور معصوم عوام پر بے ہنگم ٹیکس لگا کر انکو قوت لایموت تک کا محتاج کر دیاگیا سائنس اور دیگر دنیاوی علوم کے دروازے عام لوگوں کیلیے بند کر دئیے گئے کہ ایک طرف غریب لوگ جہاں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں سیکیورٹی اور پروٹوکول کے نام پر پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے ہر سال حکمرانوں پر کروڑوں روپے خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ حکمران طبقہ اپنی حرکتوں پرنظر ثانی کرے اور سادگی اور خود انحصاری کی پالیسی کو اختیار کرے کہ اسی صورت میں ہی منزل مقصود تک رسائی ممکن ہے۔

سابق بیو روکریٹ اور معروف افسانہ نگار وحید بھٹی انتقال کرگئے

QOSHE -          رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں!! - کاشف درویش مندرانی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں!!

9 0
16.01.2024

ہندوستان میں انیسویں صدی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ دہلی اور لکھنو کے شعرا کی آپس میں معاصرانہ چشمکیں چلتی رہتی تھیں کہ مشاعروں کا رواج تھا طرہ مصرعہ دیا جاتا تھا اور اس پر گرہ لگانی ہوتی تھی یعنی شعر کا دوسرا مصرعہ لگا کر شعر مکمل کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ لکھنؤ کا ایک شخص دہلی آیا تو دیکھا کہ ایک طرح مصرعہ پر شعراء سر گرداں ہیں کہ اس پر کیا گرہ لگائی جائے یعنی دوسرا مصرعہ لگا کر شعر کو مکمل کیا جائے وہ طرح مصرعہ تھا کہ

رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں!!

جب لکھنو سے وارد شخص نے دلی والوں کو اس طرح مصرعہ پر پریشان دیکھا تو اس نے نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ جان کی امان پاؤں تو اس پر گرہ لگا کرمیں شعر مکمل کر دیتا ہوں مگر آپ برا نہ ماننا۔ اس کی یہ بات کہنے پر دلی والوں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس سے ہر گز ناراض نہ ہوں گے تو اس نے پورا شعر اس طرح بنا کر سامعین کی بولتی بند کردی کہ:

جنوبی افریقہ نے آل راؤنڈر جوان جیمز کو انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے کپتان نامزد کر دیا

سنا ہے دلی میں کچھ الو کے پٹھے!!

رگ گل........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play