دفتر کے لئے تیاری کے بعد جو پہلا کام کیا اسی نے دل جلا کر رکھ دیا اس کے بعد دن کیسے گزر رہا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ضرورت کے لئے سبزی لینے نام نہاد سبزی منڈی علامہ اقبال ٹاؤن گیا تو پھر سے لٹ جانے کا احساس ہوا، مٹر جا رہے ہیں اور بھنڈی آ رہی ہے۔ بھنڈی اور مٹر میری پسند ہیں۔ بھنڈی کا نرخ چار سو روپے فی کلو اور مٹر تین سو فی کلو بیچے جا رہے تھے یہ گزشتہ ہفتے دو سو روپے فی کلو تھے۔ اسی حوالے سے جب ایک خاتون نے نرخ پوچھ کر ارادہ خریداری ترک کیا تو مجھے اپنے جیسے سفید پوش حضرات کا المیہ تڑپانے لگا۔ پیاز مزید مہنگا ہو گیا ہے جبکہ فروٹ کے لئے سوچنا پڑتا ہے کہ قیمتیں ادویات کی طرح ہیں اور جو کچھ بھی لیا جاتا ہے وہ دواجان کر ہی استعمال ہوتا ہے۔ گزشتہ روز ایک ڈرائیور صاحب نے بتایا کہ ان کے گھر گیس نہیں آ رہی پہلے کوئی گیزر یا ہیٹر نہیں اب کھانا پکانا اور ناشتہ کر کے کام پر آنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا المیہ مزید یہ تھا کہ اسی گیس کا ایک ماہ کا بل دس ہزار روپے آ گیا۔ جلے کٹے انسان نے بتایا کہ میں یہ بل ادا نہیں کر سکتا اس لئے گیس کا کنکشن کٹوا رہا ہوں کہ گیس کا میٹر ہوتے ہوئے بھی بازار ہی سے روٹیاں لانا پڑتی ہیں تو پھر بہتر ہے کہ مہنگے کوئلے اور لکڑی سے کام چلایا جائے کہ ایک ہی مرتبہ دس ہزار تو دینا نہیں ہوں گے، یہ صاحب ایک پرانی موٹر سائیکل پر مالکان کار کی رہائش تک آتے جاتے ہیں، ان کو یہ بھی شکوہ تھا کہ ان کی غربت واضح ہے اور یہ وبال جان ہے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ٹریفک وارڈن یا کانسٹیبل روک لیتا اور پھر منت سماجت کے بعد چالان بھگتنا پڑتا ہے جبکہ انہی لوگوں کے سامنے بڑی کاروں والے موبائل فون کانوں پر لگائے ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور یہ ان کو نہیں پوچھتے۔

’اب تحریک انصاف کا نام تو رہے گا لیکن ۔ ۔ ۔‘ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا موقف بھی آگیا

مہنگائی کم آمدنی، بے روز گاری اور بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بلوں کا ماتم ہر روز ہوتا ہے اور اب تو احساس ہونے لگا کہ سفید پوش اور غریب طبقہ خیراتی طور پر زندہ ہے اور رکھا جا رہا ہے تاکہ اس دور میں کسی کو عوام تو کہا جا سکے اگرچہ یہ عوام کہلانے والے لوگ اب زندہ ہیں نہ ان کا شمار مردوں میں ہوتا ہے بلکہ جو چلا جائے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے اچھا ہوا۔ اس کی مصیبتوں سے جان چھوٹ گئی اندازہ ہوتا ہے کہ اب میرے ملک میں صرف دو طبقات رہ گئے ایک وہ جو مراعات یافتہ ہیں جن کی صحت پر کوئی مہنگائی اثر انداز نہیں ہوتی اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو نان جویں کو ترس رہا بلکہ تڑپ رہا ہے۔ ابھی تک یہ طبقہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی بھوک مٹا رہا ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب یہ لوگ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں ایسا ہوا تو پھر اس ملک میں فسادات پھوٹ پڑیں گے اور اشرافیہ کے سارے خواب بکھر کر رہ جائیں گے۔ بہتر ہے کہ اب بھی سنبھل لیا جائے کہ وہ وقت نہ آئے اور اس کے لئے کوئی تسلی اور کوئی وعدہ تو کام نہیں آ سکتا البتہ عملی اقدامات سے حالات سنوارے جا سکتے ہیں۔ اگر بر وقت اہتمام نہ ہوا تو پھر وہ وقت بھی (اللہ نہ کرے) آ سکتا ہے جب یہ بھوکے لوگ بھوک مٹانے نکل پڑیں۔ ابھی تک تو اکثر حضرات بھوکے رہ کر بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور پھر یہ بے بس ہو گئے تو نہ معلوم کیا ہو جائے گا ملک میں نگران حکمران بھی بڑے بڑے منصوبے بنا اور ان کو مکمل کرا رہے ہیں کہا یہی جاتا ہے یہ ترقی کا دور ہے لیکن یہ سب ترقی بھوک کے سامنے بے معنی ہے۔

بلے کے نشان سے متعلق فیصلے پر پیپلزپارٹی کا ردعمل بھی آگیا

میں نے آج بلاول بھٹو کی لاہور سے کامیابی/ ناکامی کا جائزہ لینا تھا لیکن سبزی منڈی اور پھر سپیڈو بس نے چکرا کر رکھ دیا میں معمول کے مطابق گھر سے دفتر کے لئے نکلا تو ہفتے کی چھٹی ہونے کے باوجود بس میں بھیڑ زیادہ تھی۔ یہ اندازہ تو پہلے سے ہے کہ عام لوگوں نے بسوں کا رخ کر لیا ہے جو ابھی تک سبسڈائیز نرخوں پر چل رہی ہیں اور 20روپے میں سروس دی جا رہی ہے۔ ان بسوں میں اب بھیڑ ہونے لگی اور ہر سٹاپ پر درجنوں افراد کھڑے ملتے ہیں، کہ بسوں کی تعداد بھی کم ہے اور چلتی بھی تھوڑے روٹس پر ہیں اب بھی فوری طور پر کم از کم 12 سو بسوں کی فوری ضرورت ہے تاکہ کسی طور سفر تو سستا ہو کیونکہ موجودہ نگران حکومت نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ ہر روز مہنگائی میں اضافہ کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ محکمے صارفین سے مذاق بھی کرتے ہیں آج کل سوئی گیس ناردرن کی طرف سے صارفین کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ وہ گھروں میں گیس ہیٹر نہ جلائیں پرانے گیزر مرمت کرا کے ان میں آٹو میشن والا نظام لگوائیں ورنہ بل بڑھے گا۔ ان اللہ کے بندوں کو جواب تو یہی دیا جا سکتا ہے کہ ہمیں تو گیس ہی نہیں ملتی گیزر کیسے چلیں گے۔

لاہور بارایسوسی ایشن کے انتخابات کے نتائج سامنے آگئے

میں نے آج انتخابی مہم کے حوالے سے لکھنا تھا اور خصوصی طور پر بی بی شہید کے صاحبزادے کی انتخابی سرگرمیوں کا جائزہ لینا تھا کہ صبح صبح واسطہ مہنگائی اور بس کی بھیڑ سے پڑ گیا اور دل کی جلن نکال لی کہ میرے پاس تو یہی ذریعہ ہے چلتے چلتے مختصر یہ ذکر کر لوں کہ الیکٹرونک میڈیا پر بلاول بھٹو زرداری کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سن لیا اور یہ بھی کہ پاکستان عوامی تحریک نے حلقہ این اے 127 سے بلاول بھٹو کی حمایت کا اعلان کر دیا یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے محترم طاہر القادری منتخب ہوئے اور پھر انہوں نے استعفیٰ بھی دے دیا یوں اس حمایت سے بلاول کو فائدہ ہوگا جبکہ بلاول نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ”پیٹ“ کے موقف کی تائید بھی کر دی۔ ڈاکٹر طاہر القادری تو سیاست سے منہ موڑ کر دینی کاموں میں مصروف اور کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ عالمی سطح پر ان کا بہت کام ہے اور وہ مصروف بھی بہت ہیں۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ ایک دور میں نوابزادہ نصراللہ خان کی محنت سے بی بی شہید بھی اس سیکریٹیریٹ میں آئیں۔ یہاں اجلاس ہوا اور اے آر ڈی کو جی ڈی اے میں تبدیل کر کے ڈاکٹر طاہر القادری کو صدر چن لیا گیا۔ یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے اور پھر محترمہ کا یہاں سے رخت ہونا بھی یاد ہے۔ علامہ طاہر القادری جلد ہی اکتا گئے اور صرف ڈھائی ماہ ہی کے بعد جی ڈی اے نوابزادہ کے سپرد کر کے کینیڈا چلے گئے تھے۔

سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ، 5 جوان شہید، 3 دہشتگرد بھی مارے گئے

QOSHE -             ہمارے ملک میں دو طبقاتی نظام رائج!  - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

            ہمارے ملک میں دو طبقاتی نظام رائج! 

7 1
14.01.2024

دفتر کے لئے تیاری کے بعد جو پہلا کام کیا اسی نے دل جلا کر رکھ دیا اس کے بعد دن کیسے گزر رہا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ضرورت کے لئے سبزی لینے نام نہاد سبزی منڈی علامہ اقبال ٹاؤن گیا تو پھر سے لٹ جانے کا احساس ہوا، مٹر جا رہے ہیں اور بھنڈی آ رہی ہے۔ بھنڈی اور مٹر میری پسند ہیں۔ بھنڈی کا نرخ چار سو روپے فی کلو اور مٹر تین سو فی کلو بیچے جا رہے تھے یہ گزشتہ ہفتے دو سو روپے فی کلو تھے۔ اسی حوالے سے جب ایک خاتون نے نرخ پوچھ کر ارادہ خریداری ترک کیا تو مجھے اپنے جیسے سفید پوش حضرات کا المیہ تڑپانے لگا۔ پیاز مزید مہنگا ہو گیا ہے جبکہ فروٹ کے لئے سوچنا پڑتا ہے کہ قیمتیں ادویات کی طرح ہیں اور جو کچھ بھی لیا جاتا ہے وہ دواجان کر ہی استعمال ہوتا ہے۔ گزشتہ روز ایک ڈرائیور صاحب نے بتایا کہ ان کے گھر گیس نہیں آ رہی پہلے کوئی گیزر یا ہیٹر نہیں اب کھانا پکانا اور ناشتہ کر کے کام پر آنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کا المیہ مزید یہ تھا کہ اسی گیس کا ایک ماہ کا بل دس ہزار روپے آ گیا۔ جلے کٹے انسان نے بتایا کہ میں یہ بل ادا نہیں کر سکتا اس لئے گیس کا کنکشن کٹوا رہا ہوں کہ گیس کا میٹر ہوتے ہوئے بھی بازار ہی سے روٹیاں لانا پڑتی ہیں تو پھر بہتر ہے کہ مہنگے کوئلے اور لکڑی سے کام چلایا جائے کہ ایک ہی مرتبہ دس ہزار تو دینا نہیں ہوں گے، یہ صاحب ایک پرانی موٹر سائیکل پر مالکان کار کی رہائش تک آتے جاتے ہیں، ان کو یہ بھی شکوہ تھا کہ ان کی غربت واضح ہے اور یہ وبال جان ہے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ٹریفک وارڈن یا کانسٹیبل روک لیتا اور پھر منت سماجت کے بعد........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play