انتخابات اور ان کا نتیجہ
اگر1970ء کے انتخابات کو شمار کیا جائے تو بارہواں اور اگر انہیں فہرست سے نکال دیا جائے تو گیارھواں یومِ انتخاب آنے کو ہے۔ 8فروری 2024ء کی تاریخ سپریم کورٹ کی مداخلت (یا حکم) پر الیکشن کمیشن نے صدرِ پاکستان سے مشاورت کے بعد مقرر کی تھی،اور تاحال اِس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔اعلیٰ ترین عدالت کے اعلیٰ ترین جج نے اسے پتھر پر لکیر قرار دے رکھا ہے،اور ہدایت کر رکھی ہے کہ اس کے بارے میں وسوسوں اور اندیشوں کو پھیلنے یا پھیلانے سے روکا جائے، اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے،جس سے8 فروری ڈگمگاتا نظر آتا ہے۔سینیٹ میں باقاعدہ قرارداد منظور کر لی گئی کہ انتخابات ملتوی کیے جائیں،اِس حرکت کو ملک بھر میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا، لیکن قر ارداد کے محرکین اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔اور تو اور،ایک اور قرارداد اِسی مفہوم اور مضمون کی جمع کرا دی گئی ہے، جس میں التواء کی مدت کا تعین بھی کر دیا گیا۔8فروری کو 8 مئی تک لے جانے کی تجویز پیش کر کے داد (اور بے داد) وصول کی جا رہی ہے۔جماعت اسلامی کے روشن دماغ سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنی قرارداد پیش کر رکھی ہے،جس میں التواء کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے 8فروری ہی کو انتخابات کے انعقاد پر زور دیا گیا ہے۔شکوک و شبہات کبھی پھیلتے اور کبھی سمٹتے نظر آتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) شدید دباؤ سے گذر رہی ہے یا یہ کہیے کہ بڑی حد تک گذر چکی ہے۔ حلیفوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے اپنے پرانے کارکنوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی سے تو معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں لیکن مسلم لیگ(ق) غصے میں ہے۔ سابق گورنر پنجاب چودھری سرور انتخاب میں حصہ لینے سے انکاری ہیں۔بلاول بھٹو زرداری لاہور سے انتخاب لڑنے کے لیے پُرعزم ہیں، اور........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website