موسم انتخابات ہے یعنی کے الیکشن کا زمانہ آ گیا اور الیکشن کا نام سنتے ہی سب کے چہروں پہ یوں لگتا ہے کہ خوشیاں سی امڈ آئی ہوں یوں تو انتخابات کا انتظار سب کو ہی تھا ان کو بھی جنہوں نے الیکشن لڑنے کی آس لگائی ہوئی ہے اور انکو بھی جنہوں نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار کے انہیں الیکشن لڑوانے کی امید رکھی ہے اور یقینا الیکشن کا موسم پاکستانیوں کے لئے کسی بھی عید کے تہوار سے کم نہیں فرق صرف یہ ہے کہ عید کا تہوار تین دن تک رہتا ہے لیکن جشن انتخابات تو مہینوں جاری رہتا ہے اور جشن انتخابات میں ووٹروں کی عید ہوتی ہے۔کھانے کے لئے رنگ بر نگے مرغن کھانے ملتے ہیں اور بھاری بھاری رقمیں بھی عیدی کی صورت میں عوام میں تقسیم کی جاتی ہیں اور یہ عیدی کا سلسلہ انتخابات کے انعقاد تک رہتا ہے اور یقینا ہم بھی اس جشن الیکشن کو بہت قریب سے دیکھتے آئے ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی بتلا دیں کے ہم نے بچپن اہل سیاست میں ہی گزارا اور بڑے بڑے لیڈروں کو اپنے گھر دیکھا میاں نواز شریف کو بھی اپنے پیارے نانا ابو کی وفات پہ اس وقت دیکھا جب وہ افسوس کے لئے لاہور ہمارے گھر تشریف لائے اور اس سے پہلے نئی نئی آئی جے آئی بنی تھی یعنی نو ستاروں کا اتحاد ہوا تھا اور ہم نے اپنے گھر بڑے شامی صاحب کی بیٹھک میں احسن اقبال، اعجاز الحق، ہمایوں اختر خان، مشاہد حسین،حسین حقانی، جاوید ہاشمی جو کہ بزرگ ترین سیاستدان ہیں سمیت بہت سے رہنماؤں کو قریب سے دیکھا انکے ساتھ وقت بھی گزارا۔ بچپن سے ہی میدان سیاست میں پر پھیلانے کا ہمیں شوق رہا اور اسکول سے ہی ہم جمعیت کا نعرہ لگاتے تھے کیونکہ ہماری نسبت شروع سے ہی جماعت اسلامی سے رہی۔

ہانیہ عامر کا شاہ رخ خان سٹائل میں ڈانس

ہمارے نانا مرحوم میاں محمد شوکت صاحب امیر جماعت اسلامی رہے اور ن لیگ سے ہماری محبت کا رشتہ قائم ہوا تو محض بڑے میاں شریف صاحب کی نسبت سے تھا اور یہ بھی یاد ہے کہ جب بچے تھے تو ایک حادثے میں ہماری ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اتفاق سے ہمارا آپریشن اتفاق ہسپتال میں ہوا اور جب میاں شریف صاحب کو معلوم ہوا کہ شامی صاحب کا بیٹا فیصل ہسپتال میں داخل ہے تو میاں شریف صاحب مرحوم ہم سے ملنے ہسپتال بھی آتے تھے میرے لئے دودھ پھل بھی بھجواتے تھے اور میاں صاحب کی محبت سے ہی ہم میں میاں فیملی سے محبت کا احساس جاگااور ہماری دادی مرحومہ جمشیدہ بیگم جو کہ پانچ وقت نماز پڑھتیں اور تہجد گزار بھی تھیں وہ ہمارے لئے تو دعائیں کرتی ہی تھیں لیکن میاں نواز شریف کے لئے بھی خصوصی دعائے خیر فرماتی تھیں اور یقینا اہل سیاست کو بھی ہم نے بچپن سے ہی قریب سے دیکھا اور اہل سیاست کی سنگت میں ہی ہمیں بھی سیاست کا شوق چڑھا اور یقینا سیاست کے لئے کثیر سرمایہ بھی چاہئیے اور بڑی بڑی گاڑیاں اور ان گاڑیوں کے ساتھ گھیرا بنا کے بھاگنے والے سکیورٹی گارڈ بھی چاہیے لیکن ہمارے پاس نا تو سرمایہ ہے نا ہی بڑی بڑی گاڑیاں لیکن پھر بھی اپنے نازک سے دل کے ساتھ مظلوم عوام کی خدمت کا عزم لئے میدان سیاست میں قدم رکھا یاد ہے۔ پہلا الیکشن کونسلر کا لڑا اور اس وقت کمپین بھی خوب زور و شور سے کی اور کوشش کر کے جناب جنرل مشرف صاحب مرحوم گروپ کی حمایت بھی حاصل ہو گئی اور الیکشن سے ایک دن پہلے ہی مجھے ایس ایس پی صاحب کا فون آیا کہ جناب تیاری ہے میں نے کہہ دیا کہ جناب میری تو تیاری ہے لیکن بڑے شامی صاحب ناراض نظر آ رہے ہیں تو پھر ایس ایس پی صاحب نے کہا آپ کی قسمت اگلی دفعہ سہی اور اسکے بعد سے ہر الیکشن اسی آس و امید کے ساتھ الیکشن لڑتے ہیں کہ شاید کبھی فون کی گھنٹی الیکشن سے پہلے ہی بج جائے لیکن تاحال ایسا نا ہو سکا لیکن امید ہے کہ شاید کبھی تو کھلے گی ہماری قسمت اور جناب مشرف مرحوم کے دور سے لے کر ابتک دو کونسلر اور ایک آزاد ایم پی اے کا الیکشن لڑا اور اب ایک دفعہ پھر آزاد ایم پی اے کی تیاریاں ہیں اور لاسٹ کونسلر کے الیکشن میں ن لیگ کا ٹکٹ واپس کر دیا آزاد الیکشن لڑا اور اب پھر آزاد حیثیت سے کاغذ جمع کروائے اور شامی صاحب تو اکثر ناراض رہتے ہیں اور یہ ناراضگی صرف اسی وجہ سے ہی ہوتی ہے کہ کاغذ کیوں جمع کروائے اور حسب معمول پھر کاغذ جمع کروائے تو شامی صاحب پھر ناراض ہوئے۔ ناراضگی صرف اس بات کی تھی آزاد کاغذ کیوں جمع کروائے او پھر پوچھا کہ کس کا ٹکٹ لیا جائے تو جواب ملا کہ پی ٹی آئی کا لے لیں ٹکٹ اگر ملتا ہے اور میرا خیال تھا کہ شایدشامی صاحب کہیں گے کہ ن کا ٹکٹ لے لو لیکن شامی صاحب نے جناب کپتان کی جماعت کا ٹکٹ لینے کا مفت مشورہ دیدیا اور یقینا الیکشن لڑنا ہمارا شوق ہے اور شوق کا کوئی مل نہیں ویسے آپس کی بات ہے جب جب الیکشن لڑا لکھنے کو ایک نئی کہانی ہی ملی اور اب پھر موسم الیکشن ہے سیاسی گہما گہمی بھی اپنے عروج پہ ہے تمام سیاسی جماعتیں میدان میں اتر چکی ہیں جیت کے لئے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہیں اور اب دیکھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں کیا ہوتا کون سرخرو ہو گا اور پاکستانی عوام اقتدار کس کو سونپے گی یہ بات بھی وقت ہی بتا سکتا ہے تو بہر حال اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا

پولیس کا ہیروئین بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ، بڑی تعداد میں منشیات برآمد

QOSHE -          کون سرخرو ہو گا  - فیصل شامی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         کون سرخرو ہو گا 

9 1
13.01.2024

موسم انتخابات ہے یعنی کے الیکشن کا زمانہ آ گیا اور الیکشن کا نام سنتے ہی سب کے چہروں پہ یوں لگتا ہے کہ خوشیاں سی امڈ آئی ہوں یوں تو انتخابات کا انتظار سب کو ہی تھا ان کو بھی جنہوں نے الیکشن لڑنے کی آس لگائی ہوئی ہے اور انکو بھی جنہوں نے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار کے انہیں الیکشن لڑوانے کی امید رکھی ہے اور یقینا الیکشن کا موسم پاکستانیوں کے لئے کسی بھی عید کے تہوار سے کم نہیں فرق صرف یہ ہے کہ عید کا تہوار تین دن تک رہتا ہے لیکن جشن انتخابات تو مہینوں جاری رہتا ہے اور جشن انتخابات میں ووٹروں کی عید ہوتی ہے۔کھانے کے لئے رنگ بر نگے مرغن کھانے ملتے ہیں اور بھاری بھاری رقمیں بھی عیدی کی صورت میں عوام میں تقسیم کی جاتی ہیں اور یہ عیدی کا سلسلہ انتخابات کے انعقاد تک رہتا ہے اور یقینا ہم بھی اس جشن الیکشن کو بہت قریب سے دیکھتے آئے ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی بتلا دیں کے ہم نے بچپن اہل سیاست میں ہی گزارا اور بڑے بڑے لیڈروں کو اپنے گھر دیکھا میاں نواز شریف کو بھی اپنے پیارے نانا ابو کی وفات پہ اس وقت دیکھا جب وہ افسوس کے لئے لاہور ہمارے گھر تشریف لائے اور اس سے پہلے نئی نئی آئی جے آئی بنی تھی یعنی نو ستاروں کا اتحاد ہوا تھا اور ہم نے اپنے گھر بڑے شامی صاحب کی بیٹھک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play