جو دن گزرتا ہے وہ 8فروری کو قریب لاتا جا رہا ہے اور اب تو صرف 29روز باقی رہ گئے، یہاں سال گزرتے پتہ نہیں چلتا یہ تو دن ہیں، یوں بھی نااُمیدی اور تنازعات کا زمانہ بھی تو تھا جب یہ محسوس ہوتا کہ وقت ٹھہر گیا ہے اور نہ جانے اب کیا ہوگا اور پھر بات بننے لگی تو نہ صرف الیکشن کی تاریخ آئی بلکہ سپریم کورٹ نے 8فروری پر مہر لگا کر اسے بند بھی کر دیا یوں جب بات چل نکلی تو پھر چل سو چل اور اب تو پہلے تمام مراحل مکمل ہوئے اور آج (جمعرات) امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کر دی جائے گی جس کے بعد جماعتی ٹکٹوں کا معاملہ ہوگا اور وہ بھی اب بتانا ہی پڑے گا کہ دو روز بعد انتخابی نشان ملنا ہیں، سیاسی جماعتوں کے حتمی امیدوار وہی ہوں گے جن کو ٹکٹ ملے گا تاکہ وہ ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کراکے نشان حاصل کر سکیں۔ تاحال سیاسی جماعتوں نے اپنے پورے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی سندھ اور بلوچستان سے امیدواروں کے نام مشتہر کر چکی تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تاحال خیر کی خبر ہے اگرچہ بعض حضرات نے کہیں کہیں از خود یقین کے بعد انتخابی نشان کے ساتھ تشہیر شروع کر دی ہے، البتہ جماعت اسلامی کو پریشانی نہیں، اس کی طرف سے فیصلہ قبول، قبول ہے، والی بات ہے۔ مسلم لیگ (ن) روز ایک یوم مقرر کرتی اور پھر ایک روز اگلے دن پر چلا جاتا ہے۔ یوں ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ یقینی ٹکٹوں والی خبریں موجود ہیں۔

1پہلی بار پاکستان کی سیاست میری سمجھ سے باہر ہے، شیخ رشید

ذرا غور کریں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلم لیگ (ن) میں ٹکٹوں کے حوالے سے کشمکش ہے۔ ایک بڑا دھڑا پرانے اور آزمودہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے الیکٹ ایبلز اور تحریک انصاف کو ”طلاق“ دے کر استحکام پاکستان پارٹی میں آنے والوں کے لئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بھی خلاف ہے اور اس کی ترجمانی پارلیمانی میٹنگ میں حمزہ شہباز نے بھی کی۔ اس کے بعد سے اب تک حالات جوں کے توں یعنی ”سٹیٹس کو“ ہے اور خاموشی طاری ہے لیکن ٹکٹوں کا اعلان باقاعدہ طور پر نہیں کیا گیا، چنانچہ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ بعض حلقوں کے امیدوار ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاج کی راہ بھی اپنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔ استحکام پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ (ق) سے بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونا ہے، چنانچہ اس مرحلے کے طے ہو جانے پر جب فیصلہ سامنے آئے گا تو معلوم ہوگا کہ ”طوطا فال“ کس کس کے نام نکلی ہے اور وہ کون خوش نصیب ہوں گے جو ٹکٹ کے اہل تصور ہوں گےّ ویسے بھی زبانی طیور کی یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہی کنگز پارٹی ہے، باقی جماعتیں متفقین میں ہوں گی۔

ایم کیو ایم نے کراچی سے انتخابات میں حصہ لینے والےامیدواروں کے نام فائنل کرلیے

ایسی کچھ صورت حال پی پی پی پارلیمنٹرین کی بھی ہے جس کو سندھ ہی کے کئی حلقوں سے رکاوٹ پیش آئی اور آصف علی زرداری نے مراد علی شاہ کی قیادت میں مصالحتی وفد بنا کر بھیجا، جس نے متنازعہ حلقوں اور علاقوں کا دورہ کیا اور متعلقین سے ملاقاتیں کرکے مصالحت کی کوشش کی تاحال یہ سلسلہ جاری ہے، مکمل کامیابی نہیں مل رہی، آصف علی زرداری کے مطابق نئے اور پرانے لوگوں کو جماعتی نظم و ضبط کا انتظار کرنا چاہیے، تاہم کراچی کی ایک قومی اور دوصوبائی نشستوں کے علاوہ اندرون سندھ میں بھی پانچ چھ حلقوں پر ابھی ”رولا“ ہے جو دور کرنا ہوگا۔

مسلم لیگ ن نے فرح گوگی کے سسر چوہدری محمد اقبال کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیا

میں نے پچھلے دنوں سے جان بوجھ کر تحریک انصاف کے ذکر سے گریز کیا کہ جو حضرات خود کردہ فیصلوں کی وجہ سے گرداب میں ہیں،ان کے بارے میں کیا کہا جائے لیکن گزشتہ روز شیر افضل مروت کے ساتھیوں کی طرف سے جو الزام سامنے آیا اس سے حیرت ہوئی اور سوچا کہ اب کچھ ذکر کرہی دینا چاہیے، مجھے تو اس بیان میں حقیقت نظر نہیں آتی کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ چار چار کروڑ روپے میں بک رہا ہے وہ بھی ایسی صورت میں جب مرکزی قیادت سنگین الزامات والے مقدمات کا سامنا کررہی ہے اور پہلے سے اراکین اسمبلی پارٹی ہی چھوڑ گئے اور اب تو انتخابی نشان کا بھی تنازعہ ہے،(تازہ اطلاع کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کی ڈویژن بنچ نے تحریک انصاف کی درخواست منظور کرلی اور الیکشن کمیشن کا وہ فیصلہ معطل کرکے انتخابی نشان بلا بحال کر دیا ہے) اس کے علاوہ یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ لوگ ٹکٹ کے لئے بے چین بھی نہیں ہیں، اس بارے میں بیرسٹر گوہر خان ریکارڈپر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کوئی نشست خالی نہیں چھوڑیں گے اور اکثریتی ٹکٹ وکلاء کو دیئے جائیں گے، مقصد یہ کہ جماعتی منصوبے پر عمل کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی ”پسند“ نہیں ہو سکتی، وکیل خود ہی اپنے مقدمہ کا دفاع بھی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

اب اگر زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو تحریک انصاف کے بانی نے خود ہی اپنے لئے مصائب کا بندوبست کیا، پہلے تواپنے دور اقتدار میں اپوزیشن کو دھتکار دیا، شدید نفرت کا اظہار کرکے ہاتھ تک ملانے سے انکار کر دیا اور یہ رویہ مستقل رکھا جو ان کے لئے مشکل کا باعث بنا کہ ان کے خلاف ایک بڑا اتحاد بن گیا اور بالآخر ان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، اس کے بعد ان کی انا اور مجروح ہوئی اور خود ان کا اپنا رویہ مزید سخت ہو گیا اور مصالحت کا بھی کوئی امکان نہ پیدا ہوا، چنانچہ اب وہ مشکلات کا شکار ہیں، ان دنوں جیل میں ہیں بہت سے مقدمات ہیں، خصوصی طور پر توشہ خانہ اور 190بلین پاؤنڈ والے مقدمات اہم کہے جا رہے ہیں، زیر سماعت پر رائے دینا مناسب نہیں تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی ان کی طبع کا کیا دھرا ہے کہ وہ کسی کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتے ورنہ ان کو تمام امور کا خیال رکھنا چاہیے تھا اس دور کے حوالے سے توشہ خانہ سے تحفے لینا اور طے شدہ ادائیگی کر دینا شاید عام بات ہو گی کہ ان سے پہلے بھی حضرات نے توشہ خانہ سے استفادہ کیا لیکن فرق یہ ہے کہ وہ اشیاء (گاڑیاں وغیرہ) اب تک ان کے پاس ہیں اور خان صاحب نے تحائف فروخت کردیئے اور مشکل میں پھنس گئے۔

بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں تاجر رہنماؤں، صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کے نمائندوں سے ملاقات

ان دنوں جو حالات ہیں، ان میں بھی تحریک انصاف کو مسلسل ریلیف مل رہی ہے اس کے باوجود ان کی زبان پر شکوے ہیں اور وہ احتجاج کرتے ہیں خصوصاً نووارد سینئر نائب صدر لطیف کھوسہ تو سراپا احتجاج ہیں حالانکہ سپریم کورٹ میں شکائت کی سماعت کے دوران خود تسلیم کیا کہ ٹربیونلز سے ریلیف ملی ہے اور فاضل چیف جسٹس نے اسی پر کہا کہ کیا آپ کے سوفیصد کاغذات نامزدگی منظور ہونا چاہئیں۔یہ وہ حالات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا جو سب کے سامنے ہیں اور ہر کوئی اپنا اپنا مطلب نکال رہا ہے اس کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ نگران حکومت کسی فکر کے بغیر ”سخت اقدامات“ کئے چلی جا رہی ہے، ایسے میں اگر عوام تاحال لاتعلق ہیں تو تعجب کیا ہے البتہ اب لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف مل جانے کے بعد الیکٹرونک میڈیا کے درمیان دوڑ شروع ہو گئی ہے اور رپورٹر بازاروں اور حلقوں میں گھوم رہے ہیں، شاید اسی طرح لوگوں میں ولولہ پیدا ہو ہی جائے۔ تحریک انصاف کو انتخابی نشان مل جانا بھی مزید سرگرمیوں کا باعث ہوگا۔

لکی مروت میں جھڑپ، 2 دہشتگرد ہلاک، 2 جوان شہید

QOSHE -        خود کردہ علاج را نیست - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       خود کردہ علاج را نیست

6 1
11.01.2024

جو دن گزرتا ہے وہ 8فروری کو قریب لاتا جا رہا ہے اور اب تو صرف 29روز باقی رہ گئے، یہاں سال گزرتے پتہ نہیں چلتا یہ تو دن ہیں، یوں بھی نااُمیدی اور تنازعات کا زمانہ بھی تو تھا جب یہ محسوس ہوتا کہ وقت ٹھہر گیا ہے اور نہ جانے اب کیا ہوگا اور پھر بات بننے لگی تو نہ صرف الیکشن کی تاریخ آئی بلکہ سپریم کورٹ نے 8فروری پر مہر لگا کر اسے بند بھی کر دیا یوں جب بات چل نکلی تو پھر چل سو چل اور اب تو پہلے تمام مراحل مکمل ہوئے اور آج (جمعرات) امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کر دی جائے گی جس کے بعد جماعتی ٹکٹوں کا معاملہ ہوگا اور وہ بھی اب بتانا ہی پڑے گا کہ دو روز بعد انتخابی نشان ملنا ہیں، سیاسی جماعتوں کے حتمی امیدوار وہی ہوں گے جن کو ٹکٹ ملے گا تاکہ وہ ریٹرننگ افسر کے پاس جمع کراکے نشان حاصل کر سکیں۔ تاحال سیاسی جماعتوں نے اپنے پورے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی سندھ اور بلوچستان سے امیدواروں کے نام مشتہر کر چکی تاہم پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تاحال خیر کی خبر ہے اگرچہ بعض حضرات نے کہیں کہیں از خود یقین کے بعد انتخابی نشان کے ساتھ تشہیر شروع کر دی ہے، البتہ جماعت اسلامی کو پریشانی نہیں، اس کی طرف سے فیصلہ قبول، قبول ہے، والی بات ہے۔ مسلم لیگ (ن) روز ایک یوم مقرر کرتی اور پھر ایک روز اگلے دن پر چلا جاتا ہے۔ یوں ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ یقینی ٹکٹوں والی خبریں موجود ہیں۔

1پہلی بار پاکستان کی سیاست میری سمجھ سے باہر ہے، شیخ رشید

ذرا غور کریں تو واضح ہو جائے گا کہ مسلم لیگ (ن) میں ٹکٹوں کے حوالے سے کشمکش ہے۔ ایک بڑا دھڑا پرانے اور آزمودہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے الیکٹ ایبلز اور تحریک انصاف کو ”طلاق“ دے کر استحکام پاکستان پارٹی میں آنے والوں کے لئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بھی خلاف ہے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play