انتخابی عمل جاری اور ملک کی عدالتیں بھی مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ میں سات رکنی بنچ تا عمر نااہلیت کے حوالے سے استدعا پر غور کررہا ہے، عدالت کی اب تک کی کارروائی سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں یہ بنچ آئین کے آرٹیکل 63-62اس کے ماخذ اور اثرات کے حوالے سے بھی فیصلہ کرنے کے لئے ذہن بنا چکا ہے، اس مسئلہ پر تفصیل سے دلائل سنے جا رہے ہیں اور موجودہ چیف جسٹس کے حالیہ دور میں شاید یہ پہلا مسئلہ ہے جس کے حوالے سے دلائل بھی تیاری کے ساتھ دیئے جا رہے ہیں۔ فاضل جج حضرات کے ریمارکس اور سوالات سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے لیکن اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والا فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہوگا اور آنے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں کو اس کی روشنی میں بہت کام کرنا ہوگا۔ بہرحال اس فیصلے پر نگاہیں لگی ہوئی ہیں کہ بڑے لیڈروں کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔

پتوکی جھونپڑی میں لیجاکر اوباش ملزم کی شادی شدہ لڑکی سے زیادتی دوسرا ملزم پہرا دیتا رہا

اس کارروائی کا ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اب یہ بھی انتخابی عمل ہی کا حصہ بن گیا ہے جبکہ دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے موقف اور خواہشات کے مطابق مصروف ہیں چنانچہ اب کسی کا دھیان عوامی اور ملکی مسائل کی طرف نہیں جاتا، صرف امیر جماعت اسلامی ذکر کرتے اوربلاول بھٹو مقابلے کا اعلان کرتے ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ ان حضرات کی گفتگو سے زمینی حقائق متاثر نہیں ہوتے جو یہ ہیں کہ ہماری نگران حکومتیں اور ان کے کرتا دھرتا حضرات کو کوئی فکرنہیں وہ نہ تو عوام کو کوئی ریلیف دے رہے ہیں اور ن ہی کسی مشکل کو حل فرما رہے ہیں جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے تو وزیراعظم سے وزراء تک کسی کو ایسی کوئی فکر لاحق نہیں کہ وہ بھی عوام کا سامنا کر سکتے ہیں، شاید اسی لئے بجلی اور گیس جو انتہائی مہنگی ہو چکیں ان کو مزید مہنگا کرنے سے روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں، بجلی کا یونٹ پہلے ہی 35سے 80روپے تک ہو چکا، اس پر یہ بے نامی ایڈجسٹمنٹ مار دیتی ہے ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ اور ہر تین ماہ بعد سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کی جیبوں سے مجموعی طور پر اربوں روپے نکلوائے جا رہے ہیں، اس کے باوجود صارفین کو نہ تو گیس مل رہی ہے اور نہ ہی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہوا ہے۔فرق اتنا ہے کہ بارہ سے سولہ گھنٹے والی لوڈشیڈنگ سمٹ کر چھ گھنٹے تک آ گئی ہے کہ گدو پاور سٹیشن کی ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کر گئی، مرمت کے بعد پھر ایسا ہی ہوا جبکہ نگران وزیرتوانائی کے بقول یہ مسئلہ حل کر دیا گیا ہے۔ شاید ان کو ایسی ہی رپورٹ دی گئی ہو لیکن حقائق یہ ہیں کہ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور اب تو غیر اعلانیہ سلسلہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ بری حالت قدرتی گیس کی ہے جو صرف چار گھنٹے کے لئے دو دو گھنٹے کے وقفہ سے ملتی ہے اور پریشر نہیں ہوتا کہ سالن اور روٹی بن سکے۔ کئی بار روٹی تو بازار ہی سے لانا پڑتی ہے اس پر کہا یہ جاتا ہے کہ گیس کی قلت ہے اور ایل این جی بہت مہنگی ہے چنانچہ گھریلو صارفین پر 172فیصد بوجھ بڑھانے کے بعد اب پھر تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

ٹیسلا کا چین میں 16لاکھ سے زیادہ گاڑیاں واپس منگوانے کا اعلان

صرف یہ مسئلہ ہو تو لوگ مطالبہ بھی کریں لیکن یہاں اس سے بھی اہم مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی قابو نہیں آ رہی اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے، اشیاء کے نرخ بڑھنے کی رفتار یہ ہے کہ دو روز قبل برائلر مرغی کا گوشت 460سے 470روپے فی کلو تھا، آج یکایک 570روپے سے 580 روپے فی کلو ہو گیا۔ نرخ بڑھنے کی رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کوکس طرح لوٹا جا رہا ہے،برائلر انڈے 400 روپے درجن سے بڑھ گئے اور جو پیک ملتے ہیں وہ ان سے بھی 50سے 60روپے درجن مہنگے بک رہے ہیں، سبزی کی مثال دینا بیکار ہے، ایک روز مٹر 150روپے فی کلو تھے آج 200روپے فی کلو ہیں، پیاز پرچون میں 200روپے اور ٹماٹر 180 روپے فی کلو فروخت کئے جا رہے ہیں کبھی غریب لوگ دال پکا کر گزارہ کر لیتے تھے اب دال کے نرخ بھی پہنچ سے باہر ہیں۔

آئی ایم ایف کی تجاویز پر عمل جاری، ایف بی آر کی تنظیم نو کے منصوبے کو حتمی شکل دیدی گئی

جہاں تک ہماری نئی نسل کا سوال ہے تو اسے شاید وبائی امراض سے بچانے کے لئے ملاوٹی دودھ پر لگا دیا گیا ہے۔ پریسچرائزڈ دودھ 300 روپے فی لٹر سے زیادہ مہنگا ہے دکانوں سے ملاوٹ والا دودھ 200 روپے فی کلو بیچا جا رہا ہے، ان کو کوئی چیک نہیں کرتا اور بچے کیمیکل والا دودھ پی کر بڑھ رہے ہیں اور اسی نسل نے جوان ہو کر ملک کا دفاع بھی کرنا ہے دوسرے معنوں میں عام آدمی زیادہ پیسے خرچ کرکے بھی سکھی نہیں ہے۔

ایسے میں ایف بی آر والے پرچون فروشوں پر ٹیکس لگانے کی تیاری کررہے ہیں۔ ٹیکس ہی سے حکومتیں چلتی ہیں اور یہ وصول کرنا چاہیے لیکن آج تک جو بھی ٹیکس لگتا ہے اس کا بوجھ کنزیومر (صارف) پر منتقل کر دیا جاتا ہے، ایسا کوئی انتظام نہیں کہ صارف کا تحفظ ہو یوں تمام تر بوجھ عام آدمی پر ہے جس کی کمر دہری ہو چکی اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ بھوکے سو رہے ہیں تو غلط نہیں،ایک عام گھرانے کا کھانے پینے اور یوٹیلٹی بلوں کا خرچ قریباً سوا لاکھ روپے ماہانہ تک پہنچ گیا ہے جو لوگ20سے 25ہزار ماہوار کماتے ہیں یا دیہاڑی دار ہیں ان کا والی وارث کون ہے۔

فٹبالر کو بوسہ دینے کا معاملہ،خاتون فٹبالر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروادیا

انہی حالات میں الیکشن کا ہنگامہ ہے اور بے یقینی بھی پھیلائی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں انتخابات کی بات ہو رہی اور سینٹ میں کثرت رائے سے الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی ہے، اس وقت صرف14ارکان موجود تھے، کورم پورا نہیں تھا۔ چیئرمین نے کارروائی جاری رکھی اور کورم کی نشاندہی نہ کی گئی۔اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا، اب اگر لوگ یہ پوچھیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو اس میں بُرا کیا ہوگا۔

میری تو یہی دہائی ہے اور مسلسل کہتا چلا آ رہا ہوں اگر ملک چاہیے اورعوام کا خیال ہے تو سب بلالحاظ سرجوڑ کر بیٹھیں اور قومی اتفاق رائے پیدا کریں کہ اب عام لوگ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت نے کچھ دیا نہ آمریت سے بھلا ہوا اور نہ ہی نگران حکومتیں عوامی بھلائی کر سکیں۔اللہ ہی حافظ ہے۔

بوائے فرینڈ نے متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا، عائشہ عمر

QOSHE -        عام آدمی کی فکر کسے ہے؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

       عام آدمی کی فکر کسے ہے؟

9 7
06.01.2024

انتخابی عمل جاری اور ملک کی عدالتیں بھی مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ میں سات رکنی بنچ تا عمر نااہلیت کے حوالے سے استدعا پر غور کررہا ہے، عدالت کی اب تک کی کارروائی سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں یہ بنچ آئین کے آرٹیکل 63-62اس کے ماخذ اور اثرات کے حوالے سے بھی فیصلہ کرنے کے لئے ذہن بنا چکا ہے، اس مسئلہ پر تفصیل سے دلائل سنے جا رہے ہیں اور موجودہ چیف جسٹس کے حالیہ دور میں شاید یہ پہلا مسئلہ ہے جس کے حوالے سے دلائل بھی تیاری کے ساتھ دیئے جا رہے ہیں۔ فاضل جج حضرات کے ریمارکس اور سوالات سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے لیکن اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والا فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہوگا اور آنے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں کو اس کی روشنی میں بہت کام کرنا ہوگا۔ بہرحال اس فیصلے پر نگاہیں لگی ہوئی ہیں کہ بڑے لیڈروں کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔

پتوکی جھونپڑی میں لیجاکر اوباش ملزم کی شادی شدہ لڑکی سے زیادتی دوسرا ملزم پہرا دیتا رہا

اس کارروائی کا ذکر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اب یہ بھی انتخابی عمل ہی کا حصہ بن گیا ہے جبکہ دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے موقف اور خواہشات کے مطابق مصروف ہیں چنانچہ اب کسی کا دھیان عوامی اور ملکی مسائل کی طرف نہیں جاتا، صرف امیر جماعت اسلامی ذکر کرتے اوربلاول بھٹو مقابلے کا اعلان کرتے ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ ان حضرات کی گفتگو سے زمینی حقائق متاثر نہیں ہوتے جو یہ ہیں کہ ہماری........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play