پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو جماعت کی طرف سے وزیراعظم کے لئے نامزد کر دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف کے بعد ایک اور امیدوار باقاعدہ طور پر سامنے آ گیا۔ بلاول بھٹو نے اجلاس کے بعد میڈیا سے جو گفتگو کی، اس سے اب یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ پیپلزپارٹی نے 8فروری کے عام انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) ہی کو حریف بنایا اور بلاول کا انداز چیلنج کرنے والا ہے، اب کاغذات نامزدگی داخل ہو کر منظور اور نامنظور ہونے کے بعد اپیلوں کے مرحلے میں ہیں اس لئے یہ چیلنج تو ہوا میں ہے کہ نوازشریف لاڑکانہ آکر الیکشن لڑیں، میں لاہور سے حصہ لے رہا ہوں جس کا حوصلہ ہے وہ مقابلے میں آ جائے، یہ کچھ عجیب لگا کہ اب تو کوئی نیا امیدوار میدان میں آ ہی نہیں سکتا البتہ جو کاغذات نامزدگی داخل کراکے میدان میں ہیں، مقابلہ تو انہی میں ہوگا اور ان میں مسلم لیگ (ن) کا امیدوار بھی یقینا ہوگا جب لاہور کی ٹکٹوں کا اعلان ہوگا تو معلوم ہوجائے گا کہ این اے 127 سے مسلم لیگ ن کی طرف سے کون امیدوار ہے اور وہی بلاول کا مقابلہ کرے گا اس کیلئے اب نوازشریف اور شہبازشریف تو آنے سے رہے اور ان پہلوانوں کے پٹھے ہی سے جوڑ پڑے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی میڈیا مینجمنٹ معمول کے مطابق کمزور ہے اغلباً عہدے تو بانٹ دیئے گئے لیکن ذمہ داری تفویض اور تقسیم نہیں کی گئی حالانکہ دور جدید میں تو اب سوشل میڈیا بھی بڑا اہم ہے لیکن پیپلزپارٹی استفادہ نہیں کر پا رہی جو کوئی بھی اس میڈیا پر پیپلزپارٹی کی حمائت کے حوالے سے لکھتا یا پوسٹ کرتا ہے وہ از خود کررہا ہے، پارٹی نے گروپ کا اعلان تو کیا لیکن ابھی تک متعین نہیں کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اتنا فرق ضرور تھا کہ انہوں نے فرائض تقسم کئے ہوئے تھے۔ جہانگیر بدر بطور سیکرٹری اور منور انجم ترجمان کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے نوید چودھری بھی فعال تھے اور ان حضرات کو لاہور کے صحافیوں کے حوالے سے مکمل معلومات تھیں اس لئے ان کا رابطہ بھی رہتا تھا، ان دنوں شاید کوئی ایسا اہتمام نہیں، اسی لئے بلاول اور آصف علی زردری کی آمد کے حوالے سے مکمل تفصیل معلوم نہیں ہو رہی تھی، حتیٰ کہ ان کے جلسے کا مقام اور وقت بھی فیڈ کر دیا گیا جبکہ مجلس عاملہ کی میٹنگ کے لئے بتایا گیا کہ بدھ کو صبح ہوگی جو منگل کی شام ہی کو ہوگئی اور الیکٹرونک میڈیا نے اسے کور کیا۔

سینئر بھارتی اداکار راکیش بیدی کو نوسرباز نے بڑی رقم سے محروم کردیا

بہرحال یہ اس جماعت کا اپنا مسئلہ ہے، اب تو ان کوکنفیوژن سے باہر نکل آنا چاہیے، جس پنجاب میں معرکہ آرائی کا تاثر دیا جا رہا ہے اس کے لئے تیاری تو نظر نہیں آئی، ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹکٹ کے لئے کتنے امیدواروں نے درخواستیں دیں اور کس کس کو ٹکٹ دیا، میری معلومات کے مطابق بعض جیالوں نے ازخود اپنے اپنے حلقے چن کر کاغذات داخل کراکے خود کو امیدوار بنایا ہے۔ پارٹی کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا، لاہور سے فیصل میر مستقل امیدوار رہے البتہ اس بار ڈاکٹر جہانگیر بدر کے بڑے صاحبزادے ذوالفقار علی بدر میدان میں ہیں اور بلاول بھٹو نے خود کہہ کر لاہور کے سابق صدر میاں مصباح الرحمن کے کاغذات نامزدگی صوبائی نشست پر جمع کرا دیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے سائنسی حکمت عملی کے تحت ڈویژن اور ضلع کی سطح پر انٹرویو کئے۔ جماعت کے اکثر حضرات نے کاغذات داخل کرا دیئے ہیں اور یہ بھی جماعتی ہدایت تھی، اب ٹکٹ کا اعلان ہو گا تو معلوم ہوگا کہ کون کہاں سے امیدوار ہے۔ اگرچہ حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کے علاوہ خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ جیسے حضرات تو مطمئن ہیں کہ ان کے ٹکٹ پکے ہیں۔

بیٹی ایرا کی شادی پر عامر خان کا سابقہ اہلیہ کو بوسہ

بات کہاں سے شروع کی ا ور کہاں پہنچ گئی۔ حالات حاضرہ میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں جب خود آصف علی زرداری نے بلاول کا نام پیش کیا تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا، انتخابی حالات 1988ء جیسے نظر آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلزپارٹی بھی پنجاب میں اپنی کھوئی عظمت کی بحالی کے لئے جدوجہد شروع کر چکی۔ جنوبی پنجاب میں دو مخدوموں کی وجہ سے حالات کافی مناسب نظر آنے لگے ہیں۔ مخدوم یوسف رضا گیلانی اپنے صاحبزادوں سمیت میدان میں ہیں۔ جبکہ مخدوم احمد محمود بھی بھائی سمیت امیدوار ہوں گے یوں میدان سجتا اور دنگل ہوتا نظر آنے لگا ہے دیکھئے آگے آگے کیا ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر بھائی تفنن طبع کے لئے آصف علی زرداری کو بھی وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل کر دیتے تھے انہوں نے خود اپنے بیٹے کا نام پیش کر کے یہ ابہام دور کر دیا ہے۔ اب کون اعتراض کر سکتا ہے۔

نرگس فخری کی حالیہ اور سابقہ بوائے فرینڈ کے ساتھ پارٹی میں شرکت

دوسری طرف پارٹی کی تنظیمی کیفیت جوں کی توں ہے۔ پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف سپیکر ہیں اور یہ عہدہ نئے سپیکر کے انتخاب تک ان کے پاس ہوگا۔ جب سے وہ سپیکر ہوئے جماعت کی تنظیمی سرگرمیوں سے الگ رہے اور نائب صدر فاروق (جو فوقاٹیرر کہلاتے تھے) ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں تاہم تنظیمیں مکمل نہ ہو سکیں اگرچہ جیالے موجود ہیں، اب تو انتخابی عمل شروع ہو چکا اس لئے انہی عہدیداروں سے گزارہ کرنا ہوگا۔

ایک بار پھر عرض کر دوں کو لاہور میں تا حال وہ گہما گہمی شروع نہیں ہوئی جو انتخابی عمل کا لازمی حصہ ہے لیکن خواہش مندوں نے رابطے شروع کر رکھے ہیں۔ اصل فضا اس وقت نظر آئے گی جب 13 جنوری کو کاغذات نامزدگی واپس لے لئے جائیں گے۔ فی الحال راوی چین لکھتا ہے البتہ اس بار ایک نیا طریقہ یہ بھی ہے کہ با اثر حضرات سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے کے گہر ہونے تک۔

رہنماؤں کی جانب سے ذاتی حیثیت میں دیئے گئے بیانات پارٹی پالیسی نہیں، تحریک انصاف

بلاول کی نامزدگی کے حوالے سے اتنا عرض کر دوں کہ یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوا مثال ماضی سے ملتی ہے جب بیگم نصرت بھٹو کے قائم مقام چیئرمین ہوتے ہوئے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک قرارداد کے ذریعے تا حیات چیئرپرسن بنا لیا گیا تھا۔ یہ سب اسلام آباد میں ہوا، جہاں ایک ہوٹل میں پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا اس اجلاس ہی کے موقعہ پر ڈاکٹر جہانگیر بدر (مرحوم) نے اچانک کسی ایجنڈے کے بغیر قرارداد پیش کر دی جس میں محترمہ کی تا حیات قیادت منظور کر لی گئی تھی۔ حالانکہ عملی پوزیشن بھی یہی تھی محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو تو ضرورت کے مطابق چیئرپرسن بنایا گیا تھا کہ ”خصوصی افراد“ سے جماعت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ کیونکہ مولانا کوثر نیازی، مصطفےٰ جتوئی اور بعض دوسرے حضرات نے قبضہ کی کوشش کی۔ مولانا کوثر نیازی نے قائمقام چیئرمین کے لئے مصطفیٰ جتوئی کا نام پیش کر دیا تھا اس کوشش کو بابائے سوشلزم شیخ رشید نے ناکام بنایا اور بیگم نصرت بھٹو کا نام تجویز کر کے منظوری دی تھی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -          وزیراعظم بلاول؟؟؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         وزیراعظم بلاول؟؟؟

7 1
05.01.2024

پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو جماعت کی طرف سے وزیراعظم کے لئے نامزد کر دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف کے بعد ایک اور امیدوار باقاعدہ طور پر سامنے آ گیا۔ بلاول بھٹو نے اجلاس کے بعد میڈیا سے جو گفتگو کی، اس سے اب یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ پیپلزپارٹی نے 8فروری کے عام انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) ہی کو حریف بنایا اور بلاول کا انداز چیلنج کرنے والا ہے، اب کاغذات نامزدگی داخل ہو کر منظور اور نامنظور ہونے کے بعد اپیلوں کے مرحلے میں ہیں اس لئے یہ چیلنج تو ہوا میں ہے کہ نوازشریف لاڑکانہ آکر الیکشن لڑیں، میں لاہور سے حصہ لے رہا ہوں جس کا حوصلہ ہے وہ مقابلے میں آ جائے، یہ کچھ عجیب لگا کہ اب تو کوئی نیا امیدوار میدان میں آ ہی نہیں سکتا البتہ جو کاغذات نامزدگی داخل کراکے میدان میں ہیں، مقابلہ تو انہی میں ہوگا اور ان میں مسلم لیگ (ن) کا امیدوار بھی یقینا ہوگا جب لاہور کی ٹکٹوں کا اعلان ہوگا تو معلوم ہوجائے گا کہ این اے 127 سے مسلم لیگ ن کی طرف سے کون امیدوار ہے اور وہی بلاول کا مقابلہ کرے گا اس کیلئے اب نوازشریف اور شہبازشریف تو آنے سے رہے اور ان پہلوانوں کے پٹھے ہی سے جوڑ پڑے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی میڈیا مینجمنٹ معمول کے مطابق کمزور ہے اغلباً عہدے تو بانٹ دیئے گئے لیکن ذمہ داری تفویض اور تقسیم نہیں کی گئی حالانکہ دور جدید میں تو اب سوشل میڈیا بھی بڑا اہم ہے لیکن پیپلزپارٹی استفادہ نہیں کر پا رہی جو کوئی بھی اس میڈیا پر پیپلزپارٹی کی حمائت کے حوالے سے لکھتا یا پوسٹ کرتا ہے وہ از خود کررہا ہے، پارٹی نے گروپ کا اعلان تو کیا لیکن ابھی تک........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play