پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور پہنچ گئے اور ساتھ ہی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بھی بلا لیا جو آج (بدھ) شام بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن میں ہوگا۔ اس اجلاس میں عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی پر غور ہوگا اور بلاول بھٹو کی طرف سے لاہور اور مرکزی پنجاب میں انتخابی مہم کے حوالے سے کنونشنز کارنر میٹنگز اور جلسوں سے خطاب کا پروگرام بھی طے ہوگا۔ بلاول این اے 127 لاہور سے خود بھی امیدوار ہیں۔ اس لئے حلقہ نیابت کی انتخابی مہم کی حکمت عملی بھی طے کی جائے گی۔ توقع کے مطابق مختلف موضوعات کے حوالے سے کمیٹیاں بنیں گی، بلاول جب عوامی رابطہ شروع کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ عوامی سطح پر پذیرائی کی کیا کیفیت ہے۔ لاہور کی حد تک دیکھا جائے تو جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) والے سرگرم ہیں، مسلم لیگ(ن) کو ٹکٹوں کے لئے درخواستوں کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں، تاہم قائد مسلم لیگ(ن) محمد نواز شریف کی قیادت میں پارلیمانی کمیٹی یہ مسئلہ بھی حل کر ہی لے گی۔ البتہ لاہور میں جماعت کو اکا دکا سرگرم اراکین سے بھی مناسب برتاؤ کرنا ہو گا کہ بہت سے حضرات ٹکٹ نہ ملنے سے مایوس بھی ہوں گے اور ان میں سے بعض افراد باغیانہ روش بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ تاہم مرکزی کمیٹی جو فیصلہ کرے گی وہی حتمی مانا جائے گا اور مبینہ طور پر کمیٹی کا حلقہ 121 این اے کے حوالے سے رجحان ایاز صادق کی طرف ہے۔ جبکہ الحاج شیخ روحیل اصغر کا اصرار ہے کہ وہ اپنا آبائی حلقہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی صرف اسی حلقہ سے جمع کرائے ہیں کسی اور حلقہ میں کاغذات نہیں ہیں، شیخ روحیل اصغر اپنے والد شیخ اصغر کی طرح کھلے انداز میں بات کرنے کے عادی ہیں اس لئے انہوں نے پارلیمانی میٹنگ میں اپنے انداز میں بات کی اور یہ کہہ کر چلے آئے کہ ان کو آزاد امیدوار کے طور پر بھی انتخاب میں حصہ لینا پڑا تو لیں گے، اس حلقہ سے سابق سپیکر ایاز صادق بھی امیدوار ہیں اور جماعت کو کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، فیصلہ اب قائد جماعت محمد نوازشریف کی قیادت میں قائم کمیٹی کرے گی۔ شیخ روحیل اصغر پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں آئے تھے۔ وہ پیپلزپارٹی لاہور کے جنرل سیکریٹری تھے۔ اس حلقہ سے وہ قومی اسمبلی اور ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

سڈنی ٹیسٹ،شاہین کے نہ کھیلنے کے فیصلے کو وقار یونس نے مضحکہ خیز قرار دیدیا

لاہور میں اس وقت جو صورت حال ہے وہ جماعتی حوالے سے واضح نہیں ہو رہی۔ مجموعی طور پر تا حال تحریک انصاف کا ووٹ بنک بظاہر متاثرنہیں ہوا۔ لیکن بعض حلقوں سے پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں جانے والے حضرات نے یہ موقف اختیار کر لیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کا امیدوار نہ ہوا تو وہ اپنی پرانی پارٹی کی طرف رجوع کریں گے۔ یوں معروضی حالات کے مطابق بلاول کو توجہ ملنے کے امکانات ہیں اگرچہ اس بار جماعت اسلامی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جماعت نے بہت محنت کی ہے ان کے عہدیدار ایک سے زیادہ مرتبہ گھر گھر جا کر کنویسنگ کر چکے ہوئے ہیں اور خود امیر جماعت سراج الحق نے مسلسل جلسوں سے خطاب کر کے ایک تیسری قوت کا تاثر قائم کیا ہے۔ تاہم بعض حلقوں کا خیال ہے کہ لوگ متاثر تو ہیں اس کے باوجود جماعت اسلامی کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لینا چاہئے جبکہ جماعت کی حالیہ پالیسی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے۔

موٹروے پولیس کی کارروائی ، منشیات کی سمگلنگ ناکام ، 12 کلوگرام اعلی کوالٹی کی ہیروئن برآمد

اب اگر اپنے مولانا فضل الرحمن کی بات نہ کی جائے تو الیکشن کے حوالے سے ادھوری رہ جائے گی۔ مولانا نے حال ہی میں صاحبزدے کی شادی کی اور دعوت ولیمہ میں بلا امتیاز سیاسی حضرات کو مدعو کیا۔ لیکن اس عرصہ میں ان کے قافلے کے قریب فائرنگ ہوئی وہ محفوظ رہے کہ بقول خود وہ گاڑی میں نہیں اس وقت گھر پر تھے۔ لیکن اس حادثے نے ان کے سابقہ موقف کو تقویت دی کہ امن و امان کی حالت بہتر نہیں۔ اگر یہی حالات ہیں تو عام انتخابات کو موخر کیا جائے اور امن و امان پر توجہ دی جائے مولانا فضل الرحمن کے اس موقف کو مجموعی طور پر تائید نہ ملی، تاہم اب اچانک محسن داوڑ کے قافلے پر شمالی وزیرستان میں فائرنگ ہو گئی وہ تو محفوظ رہے تاہم مولانا کی بات میں وزن پیدا ہو گیا۔ لیکن اس میدان میں وہ اکیلے ہی کھڑے ہیں۔ کسی اور جماعت نے تائید نہیں کی بلکہ پیپلزپارٹی تو بضد ہے کہ انتخابات 8 فروری ہی کو ہوں اس سلسلے میں آصف علی زرداری کی طرف سے 8-10 روز آگے چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں والی بات پر بھی دھیان نہیں دیا جا رہا۔ پیپلزپارٹی اپنی حد تک مصر ہے کہ الیکشن اب ہونا ہی ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

میں نے یہ اجمالی سی وضاحت کی یقینی بات یہ ہے کہ تا حال عوامی سطح پر انتخابی عمل کے بارے میں خاموشی ہے بلکہ مردنی چھائی ہوئی ہے،جہاں کہیں کسی امیدوار نے انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے کیمپ لگا رکھے ہیں وہاں خاطر تواضع کے باوجود رونق نہیں ہوتی۔ تمام جماعتوں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ عوام الیکشن کے خواہش مند اس لئے ہیں کہ جو ہونا ہے ہو جائے، تا کہ ان کے مسائل کی طرف توجہ ہو، جو بڑھتے چلے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو گئی اور یہی گیس کی کیفیت ہے نرخ بڑھ گئے گیس نہیں ملتی اور اب مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ عوام سیاسی جماعتوں کے نعروں کا اپنے طور پر بھی تجزیہ کرتے رہتے ہیں، اس وقت تو حالات یہ ہیں کہ مہنگائی نے چھکے چھڑا دیئے اور کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی نہ ہی انتظامی طور پر کچھ ہو رہا ہے۔ تاجر (ہر قسم کے) بالکل آزاد ہو چکے ہیں حتیٰ کہ بازار مغرب کے بعد بند کرنے کی تجویز ہر مرتبہ رد کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں دوکانیں صبح جلدی کھلتی تھیں اور مغرب تک بند ہوتی تھیں اب یہ ٹرینڈ تبدیل ہو چکا اور دوپہر کو بازار کھلتے اور رات کو دیر تک کھلے رہتے ہیں۔ لاہورکے حوالے سے بہت کچھ لکھنے کی ضرورت تھی تاہم سیاسی اُبال نے چین نہیں لینے دیا کوشش ہو گی کہ اگلے روز مسائل کے حوالے سے بات کی جائے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے پلیئر آف دی ایئر کی نامزدگیوں کا اعلان کردیا

QOSHE -          لاہور اور سیاست گری - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         لاہور اور سیاست گری

7 1
04.01.2024

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاہور پہنچ گئے اور ساتھ ہی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بھی بلا لیا جو آج (بدھ) شام بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن میں ہوگا۔ اس اجلاس میں عام انتخابات کے حوالے سے حکمت عملی پر غور ہوگا اور بلاول بھٹو کی طرف سے لاہور اور مرکزی پنجاب میں انتخابی مہم کے حوالے سے کنونشنز کارنر میٹنگز اور جلسوں سے خطاب کا پروگرام بھی طے ہوگا۔ بلاول این اے 127 لاہور سے خود بھی امیدوار ہیں۔ اس لئے حلقہ نیابت کی انتخابی مہم کی حکمت عملی بھی طے کی جائے گی۔ توقع کے مطابق مختلف موضوعات کے حوالے سے کمیٹیاں بنیں گی، بلاول جب عوامی رابطہ شروع کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ عوامی سطح پر پذیرائی کی کیا کیفیت ہے۔ لاہور کی حد تک دیکھا جائے تو جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) والے سرگرم ہیں، مسلم لیگ(ن) کو ٹکٹوں کے لئے درخواستوں کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں، تاہم قائد مسلم لیگ(ن) محمد نواز شریف کی قیادت میں پارلیمانی کمیٹی یہ مسئلہ بھی حل کر ہی لے گی۔ البتہ لاہور میں جماعت کو اکا دکا سرگرم اراکین سے بھی مناسب برتاؤ کرنا ہو گا کہ بہت سے حضرات ٹکٹ نہ ملنے سے مایوس بھی ہوں گے اور ان میں سے بعض افراد باغیانہ روش بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ تاہم مرکزی کمیٹی جو فیصلہ کرے گی وہی حتمی مانا جائے گا اور مبینہ طور پر کمیٹی کا حلقہ 121 این اے کے حوالے سے رجحان ایاز صادق کی طرف ہے۔ جبکہ الحاج شیخ روحیل اصغر کا اصرار ہے کہ وہ اپنا آبائی حلقہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play