مولانا فضل الرحمن، حالات اور میری گزارش!
جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن یوں تو شگفتہ مزاج شخصیت ہیں لیکن آج کل کچھ برہم نظر آ رہے ہیں اور ان کے موقف میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ ایک طرف تو وہ مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کررہے اور نشستوں کے لین دین میں اپنا موقف سخت کئے ہوئے ہیں کہ جتنی نشستیں وہ پنجاب سے چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو منظور نہیں اور یوں وہ کچھ اکھڑے اکھڑے نظر آ رہے ہیں، اسی کشمکش کے دوران ہی انہوں نے انتخابی عمل کے حوالے سے اعتراض جڑ دیا اور اب تو بڑی بات کہہ دی کہ دہشت گردی اور برف باری کے دوران پولنگ مشکلات کا شکار ہو گا، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کا کوئی کارکن زخمی یا شہید ہوا تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہو گی اگرچہ بات کرتے وقت انہوں نے مقتدر قوتوں کا بھی ذکر کیا لیکن کسی نے ادھر توجہ ہی نہیں دی اور نہ ہی کسی نے ایک بہت ہی اہم حساس فقرے کا ذکر کیاہے تاہم مجھے یقین ہے کہ جن سے متعلق ہے انہوں نے ضرور نوٹ کیا ہوگا، مولانا نے یہ یاد دلایا کہ پار والے مسلک کے اعتبار سے تو غور کے قابل ہیں، میں تو ان کا یہ اشارہ طالبان کے بارے میں سمجھتا ہوں لیکن بیرونی دنیا کا کیا کیا جائے جو اسے کسی اور انداز سے سوچ رہے ہیں، اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے اس بارے میں کھل کر بات نہیں کی لیکن میں جان گیا ہوں اسی لئے خواہش ہے کہ حکمران مولانا سے مستفید ہوں اوران سے بات کرکے ان کے........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website