جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن یوں تو شگفتہ مزاج شخصیت ہیں لیکن آج کل کچھ برہم نظر آ رہے ہیں اور ان کے موقف میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ ایک طرف تو وہ مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کررہے اور نشستوں کے لین دین میں اپنا موقف سخت کئے ہوئے ہیں کہ جتنی نشستیں وہ پنجاب سے چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو منظور نہیں اور یوں وہ کچھ اکھڑے اکھڑے نظر آ رہے ہیں، اسی کشمکش کے دوران ہی انہوں نے انتخابی عمل کے حوالے سے اعتراض جڑ دیا اور اب تو بڑی بات کہہ دی کہ دہشت گردی اور برف باری کے دوران پولنگ مشکلات کا شکار ہو گا، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کا کوئی کارکن زخمی یا شہید ہوا تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہو گی اگرچہ بات کرتے وقت انہوں نے مقتدر قوتوں کا بھی ذکر کیا لیکن کسی نے ادھر توجہ ہی نہیں دی اور نہ ہی کسی نے ایک بہت ہی اہم حساس فقرے کا ذکر کیاہے تاہم مجھے یقین ہے کہ جن سے متعلق ہے انہوں نے ضرور نوٹ کیا ہوگا، مولانا نے یہ یاد دلایا کہ پار والے مسلک کے اعتبار سے تو غور کے قابل ہیں، میں تو ان کا یہ اشارہ طالبان کے بارے میں سمجھتا ہوں لیکن بیرونی دنیا کا کیا کیا جائے جو اسے کسی اور انداز سے سوچ رہے ہیں، اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے اس بارے میں کھل کر بات نہیں کی لیکن میں جان گیا ہوں اسی لئے خواہش ہے کہ حکمران مولانا سے مستفید ہوں اوران سے بات کرکے ان کے خدشات پر ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ وہ طالبان سے تو کھلے بندوں ملتے اور ان کے حامی بھی ہیں تاہم ٹی ٹی پی کو اس میں منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا، میری تو یہ خواہش ہے کہ مولانا ذاتی اثر و رسوخ امن کے قیام کے لئے استعمال کریں،

پنجاب میں شدید دھند کے باعث فلائٹ آپریشن متاثر ، متعدد پروازیں منسوخ

یہ نہیں کہ وہ خود تو باہر رہیں اور الگ رہ کر دیکھتے رہیں لیکن اپنا اثر و رسوخ دراندازی روکنے اور خوشگوار تعلقات کے لئے تو استعمال کریں کیونکہ حکومت پاکستان کا یہ مطالبہ بے جا نہیں کہ کابل والے خود اپنے ہم مسلک تشدد پسند حضرات کو کنٹرول کریں،یہ نہیں کہ زبان سے کہا جائے لیکن عمل مختلف ہو، میں بھی چاہتا ہوں کہ مکمل امن قائم ہو، یہ سب ہمسایوں کے مفاد میں ہے کہ خطے میں امن ہوگا تو ترقی کے حوالے سے بھی غور کرکے عملی کام ہو سکے گا تاہم اس کے لئے دل کے دروازے کھولنا ہوں گے، یہ جو دہشت گرد ہیں، یہ بھی مسلمان ہیں اور خود مانتے بھی ہیں اور دلچسپ فلسفہ یہ ہے کہ وہ یہ دہشت گردی اور خون ریزی خود کو برحق قرار دے کر مخالفین کو الزام دیتے ہیں، اس لحاظ ہی سے تو ان کے ساتھ مذاکرات میں مشکل پیش آ رہی ہے اور اب تو ریاست کا حتمی فیصلہ ہے کہ قاتلوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے اور گنجائش صرف یہ ہے کہ جو غیر مشروط ہتھیار ڈال دے ریاست اس کے بارے میں غور کرے گی، دکھ کی بات یہ ہے کہ مولانا مسلک کے حوالے سے سوچنے سے گریز نہیں کرتے اور یہ معاملہ اسی لئے ٹیڑھا بھی ہو جاتا ہے کہ خود دین، قرآن اور رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ مسلمان پر مسلمان کا خون حرام ہے اور جس نے ایک بھائی (مسلمان) کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا میں تو حضرت مولانا سے یہ عرض کروں گا کہ وہ ان گمراہ حضرات کو راہ راست پر لانے کی کوشش فرمائیں۔

سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے سرعام پھانسی کی مخالفت کردی

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد کی واپسی کے مسئلہ پر کابل حکومت نے اتنا بُرا منا لیا کہ بھارت سے تمام تر تحفظات کے باوجود تعلقات استوار کر لئے بلکہ بھارتی تعاون سے دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان بلکہ بڑی حد تک ایران بھی متاثر ہوگا۔ بھارت پہلے ہی ہمارے دریاؤں پر قابض اور ڈیم بنا کر پانی روک چکا ہے۔اگر کابل نے بھی مل کر یہ کارنامہ سرانجام دیا تو خطے میں حالات بہت خراب ہوں گے اور اس کا نتیجہ کسی کے لئے بھی اچھا نہیں ہوگا، پاکستان تو مجبوراً غور کرے گا لیکن طالبان کو بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ یہ پاکستان ہے جس نے چالیس سال تک 30سے 40لاکھ مہاجرین کی خدمت کی اوربدستور کررہا ہے جبکہ سولہ لاکھ سے زیادہ افغان باشندے کسی قانون یا اخلاقی حیثیت کے بغیر مقیم ہیں اور اب ان (غیرقانونی مقیم) کی واپسی کا عمل شروع ہوا تو اسے تنازعہ بنا لیا گیا، پاکستان نے اس حوالے سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور پھر اتفاق رائے سے یہ طے کیا کہ غیر قانونی افراد واپس جائیں اور تصدیق شدہ کاغذات اور دستاویزات کے ساتھ واپس آنا چاہیں تو شوق سے آئیں، میرا خیال ہے کہ مولانا کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو ریاست سے تعاون کرکے اپنے اثر و رسوخ سے طالبان کو سمجھانے کی کوشش کرنا چاہیے، چہ جائیکہ وہ تحفظات کا اظہار کریں۔

سکیورٹی فورسز کا شمالی وزیرستان میں آپریشن، 5 دہشتگرد ہلاک

یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم اور ہمارے اس موقر اخبار نے ہمیشہ ہمیشہ اتفاق رائے ہی نہیں قومی اتفاق رائے کی بات کی،افسوس یہ نقارخانے میں طوطی والی آواز بن گئی، ہماری تمام سیاستدانوں کے سربراہ اور بڑے رہنما قومی اتفاق رائے کی بات کرتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اس سے سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا لیکن عملی پیش رفت نہیں ہوتی، مجھے رہ رہ کر نواب زادہ نصراللہ (مرحوم) یاد آتے ہیں جو اگر حزب اختلاف تھے تو جوڑنا بھی جانتے تھے اور اس کا ثبوت وہ سیاسی اتحاد بنا بنا کر دیتے رہے، عام خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمن ان کے جانشین کے طور پر یہ فرائض انجام دیں گے لیکن وہ تو روٹھے روٹھے رہتے ہیں، عرض ہے کہ یہ طرز عمل چھوڑ دیں۔

قیدیوں سے اہل خانہ کے رابطے کیلئے جدید سروس کا آغاز ہوگیا

QOSHE -       مولانا فضل الرحمن، حالات اور میری گزارش! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      مولانا فضل الرحمن، حالات اور میری گزارش!

7 2
30.12.2023

جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن یوں تو شگفتہ مزاج شخصیت ہیں لیکن آج کل کچھ برہم نظر آ رہے ہیں اور ان کے موقف میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ ایک طرف تو وہ مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کررہے اور نشستوں کے لین دین میں اپنا موقف سخت کئے ہوئے ہیں کہ جتنی نشستیں وہ پنجاب سے چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو منظور نہیں اور یوں وہ کچھ اکھڑے اکھڑے نظر آ رہے ہیں، اسی کشمکش کے دوران ہی انہوں نے انتخابی عمل کے حوالے سے اعتراض جڑ دیا اور اب تو بڑی بات کہہ دی کہ دہشت گردی اور برف باری کے دوران پولنگ مشکلات کا شکار ہو گا، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کا کوئی کارکن زخمی یا شہید ہوا تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہو گی اگرچہ بات کرتے وقت انہوں نے مقتدر قوتوں کا بھی ذکر کیا لیکن کسی نے ادھر توجہ ہی نہیں دی اور نہ ہی کسی نے ایک بہت ہی اہم حساس فقرے کا ذکر کیاہے تاہم مجھے یقین ہے کہ جن سے متعلق ہے انہوں نے ضرور نوٹ کیا ہوگا، مولانا نے یہ یاد دلایا کہ پار والے مسلک کے اعتبار سے تو غور کے قابل ہیں، میں تو ان کا یہ اشارہ طالبان کے بارے میں سمجھتا ہوں لیکن بیرونی دنیا کا کیا کیا جائے جو اسے کسی اور انداز سے سوچ رہے ہیں، اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے اس بارے میں کھل کر بات نہیں کی لیکن میں جان گیا ہوں اسی لئے خواہش ہے کہ حکمران مولانا سے مستفید ہوں اوران سے بات کرکے ان کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play