سوچا تھا کہ آج سموگ کے حوالے سے تفصیلی گزارش کروں گا، لیکن سیاسی میدان میں کچھ ایسا گھمسان کا رن پڑ گیا ہے کہ مجبوری ہے۔ خصوصاً مخدوم سید شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو سلوک ہوا اور صدر مملکت نے اس پر جو بات کی اس سے لازم ہو گیا کہ بات سیاست پر بھی کر لی جائے بہر حال دل میں آئی کو بھی روکنا نہیں چاہیے اس لئے مختصر بات کر کے آگے چلتے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی بجا طور پر سموگ کے حوالے سے فکر مند ہیں کہ اسے کم کرنے کے لئے جو بھی کوشش کی گئی وہ کامیاب نہیں ہوئی، حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات کے فراخدلانہ تعاون سے مصنوعی (حقیقی بادلوں سے) بارش بھی آزما لی اور سنا ہے کہ اب پھر تیاری ہو رہی ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوست ممالک سے ماہرین کی مدد طلب کر لی اور جلد ہی چین سے ماہرین کی ایک ٹیم آنے والی ہے جو اپنی تحقیق سے آگاہ کرنے کے علاوہ یہاں بھی دیکھے گی کہ حقیقی اسباب کیا اور ان کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے کہ چین نے بیجنگ میں کامیاب تجربہ کیا ہے میں محسن نقوی کی درد مندی اور کوشش کی پوری تعریف کرتا ہوں اور یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ سائنسی تحقیق بھی حقیقت پسندی ہے، تاہم یہ عرض کرنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ اصل حل تو بارش ہی ہے کہ مصنوعی بارش نے ایک بار فرق تو ڈالا تھا میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس تجربے نے یہ پھر ثابت کیا کہ موسم کی تبدیلی بھی بہت بڑا عمل ہے کہ اب پہاڑوں پر برف تو گر رہی ہے لیکن بارش نہیں ہو رہی اور اگر ہوتی ہے تو بے وقت جس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے اس حوالے سے دنیا بھر میں تحقیق اور بات ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔

والد کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے، شاہ محمود قریشی کی بیٹی کا بیان

میں نے گزارش کی تھی کہ ان حقائق کے ساتھ ساتھ روحانیت بھی ایک حقیقت ہے اور تجویز کیا تھا کہ بارش کے لئے نماز استسقاء ادا کرکے اللہ سے رحمت مانگی جائے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی شاید اس کی وجہ ملائیت کے بارے میں خیالات اور مادیت کی طرف زیادہ رجحان ہے۔ تاہم نماز استسقاء کی ادائیگی تو سنت رسولؐ ہے اور یقینی بات ہے جب اجتماعی طو پر دعا مانگی جائے تو وہ قبول بھی ہوتی ہے کہ اللہ مہربان ہے، اس لئے میں اب زیادہ بات بڑھانے کی بجائے ایک بار پھر درخواست کروں گا کہ آپ حضرات سائنسی عمل کی مدد سے جو اقدامات کرنا چاہیں کریں لیکن نماز استسقاء اور اللہ سے طلب بھی کوئی بری بات نہیں اس پر تو خرچ بھی کچھ نہیں ہوتا اس لئے باردگر استدعا ہے کہ اس کا بھی اہتمام کر لیا جائے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا؟

اب بات کرنا ہے سجادہ نشین شاہ رکن الدین عالم حضرت مخدوم سید شاہ محمود قریشی کی یہ دھیمے لہجے کے سیاست دان ہیں اور اپنے مخصوص انداز میں تحمل سے بات کرنے اور اطمینان سے چلنے کے عادی ہیں، ان کے ساتھ پولیس نے اڈیالہ جیل کے گیٹ پر جو سلوک کیا وہ بہت ہی ناروا مانا گیا ہے، جو تھا بھی، اب اگر آپ ان حضرات (پولیس والوں) کو ایسا اختیار دیں گے تو وہ یہی کریں گے جو انہوں نے ان کے ساتھ کیا۔ اس سے مجھے بہت سے واقعات یاد آ جاتے ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ جس پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کا دعویٰ بانی تحریک انصاف کپتان صاحب نے کیا تھا، غالباً اس کا اثر نہیں ہوا اور موقع آیا تو خود ان کی جماعت اور رہنما متاثر ہیں اس سے قبل محترم عمران خان کو جب گرفتار کیا گیا تب بھی یہی شکایت تھی اور اسی حراست کی ویڈیو بھی بہت زور شور سے وائرل ہوئی تھی جیسے اب شاہ محمود قریشی کی ہو رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ حقیقتاً زیادتی ہوئی ہے اگر ان کی گرفتاری ہی مقصود تھی تو کسی اعلیٰ افسر کو ہی یہ ”فرض“ ادا کر لینا چاہیے تھا، کیونکہ ماتحت کو بھینس کا دودھ دھوہنے کے لئے حکم دیں گے وہ تو کہیں اور جا گھسیں گے، بہرحال صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی بول اٹھے ہیں اور انہوں نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لے کر مذمت اور نصیحت کی ہے، حالانکہ وہ تو باقاعدہ خط بھی لکھ سکتے تھے کہ قبل ازیں ایسا کرتے رہے ہیں، مجموعی طور پر اس واقعہ کو بہت برا جانا گیا اور اس کی مذمت بھی کی گئی جبکہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی نے الیکشن کمیشن کی توجہ تحریری طور پر دلائی ہے، جواب نہیں ملا، میں تحریکوں کی رپورٹنگ کرتا رہا ہوں اور متعدد گرفتاریوں کا عینی شاہد بھی ہوں، میں نے خوشگوار ماحول بنا کر بھی ایسا ہوتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جھک کر سلام کرنے والے ایس پی نے بھی محترم میاں محمد شریف کو ناروا طریقے سے گرفتار کیا اسی طرح چودھری پرویز الٰہی کے والد چودھری منظورالٰہی کی گرفتاری بھی ہوئی تاہم ایسا رویہ کسی کے ساتھ اختیار نہیں کیا گیا، اگرچہ گرفتاری نامناسب طور پر ہوئی۔

بلاول بھٹو نے شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی مذمت کردی

مجھے یاد ہے اور یہ تحریر بھی موجود ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو توڑنے اور ان کا حوصلہ ختم کرنے کے لئے بھی بہت کچھ کیا گیا،حتیٰ کہ ان کو سلیوٹ کرنے والوں نے سخت گفتگو بھی کی اور جیل میں ان کو علیحدہ رکھ کر قید تنہائی کا مزہ بھی چکھایا گیا، ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران احتجاجی اجتماعات اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا، ایک روز احتجاج بیرون دہلی دروازہ میلاد چوک میں ہوا، کارکنوں نے پرجوش نعرہ بازی کی پولیس جیل وین لے آئی اور پکڑدھکڑ شروع ہو گئی اور کارکنوں کو اٹھااٹھا کر گاڑی میں ڈالا گیا، میرے قریب ایک نہائت معزز عہدیدار موجود تھے اور ان کو گرفتاری سے منع کیا گیا ہوا تھا، وہ کھسکنے لگے تو دیکھ لئے گئے اور دو پولیس والے لپک کر آئے، محترم نے ان کو خبردار کیا کہ ہاتھ مت لگائیں اور پھر خود ہی ساتھ چلے گئے اور گاڑی کی جالی سے وکٹری کا نشان بناتے رہے جہاں تک کارکنوں کو حراست میں لئے جانے کا تعلق ہے تو یہ سرکاری اہل کار ان پر تو اپنی ڈیوٹی کا غصہ نکال لیتے ہیں۔

امرتا سنگھ سے شادی پر والدہ کا کیا ردعمل تھا،سیف علی خان نے کئی سال بعد بتادیا

اس حوالے سے میں مرکزی رہنماؤں کا ذکر ضرور کروں گا کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں دیکھا۔ نوابزادہ نصراللہ (مرحوم) کی گرفتاری دیکھی تو وہ خود چل کر پولیس کی گاڑی میں بیٹھ جاتے تھے۔ اسی طرح دوسرے بڑے رہنماؤں سے بھی گزارش کی جاتی اور وہ مان جاتے تھے لیکن ہم صحافیوں نے یہ بھی دیکھا کہ ڈیفنس میں تہمینہ دولتانہ کی رہائش گاہ پر میٹنگ ہو رہی تھی کہ پولیس نے چھاپہ مارا، کسی کے پاس کوئی وارنٹ وغیرہ نہیں تھا، دندناتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور کچن تک کی بھی تلاشی لی اور شرکاء کو گرفتار کر لیا بعض ہوشیار رہنما اس کے باوجود پکڑے نہ جا سکے، پھر یہ نظارہ بھی دیکھا کہ میاں محمود علی قصوری کی رہائش گاہ(پرانی) پر دھاوا بولا گیا اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو بھی دھکے دے کر ہی گرفتار کیا گیا۔ایک دو سیانے کارکن ہم صحافیوں میں گھل مل کر بچ گئے تو قارئین! یہ کلچر چلا آ رہا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔

8فروری کو تبدیلی خان کا پتہ صاف کردے گی،پرویز خٹک

جہاں تک حالیہ گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ بھی شاید شاہ محمود قریشی کے عزم کی وجہ سے ہے کہ ان کو کافی دیر سے اندر رکھا ہوا ہے اور انہوں نے ابھی تک پریس کانفرنس نہیں کی جو ویڈیو وائرل ہو گئی اس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مخدوم قریشی عدالت کا حکم دکھا کر گرفتاری سے انکار کرتے رہے اور جب وہ واپس ہونے لگے تو پھر ان کے ساتھ وہ سلوک ہو گیا جس کی مذمت ہو رہی ہے اور وہ اب واپس اڈیالہ جیل پہنچا دیئے گئے ہیں یہ سب افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔

QOSHE -           بارش کے لئے دعا اور مخدوم شاہ محمود قریشی سے سلوک - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          بارش کے لئے دعا اور مخدوم شاہ محمود قریشی سے سلوک

8 1
29.12.2023

سوچا تھا کہ آج سموگ کے حوالے سے تفصیلی گزارش کروں گا، لیکن سیاسی میدان میں کچھ ایسا گھمسان کا رن پڑ گیا ہے کہ مجبوری ہے۔ خصوصاً مخدوم سید شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو سلوک ہوا اور صدر مملکت نے اس پر جو بات کی اس سے لازم ہو گیا کہ بات سیاست پر بھی کر لی جائے بہر حال دل میں آئی کو بھی روکنا نہیں چاہیے اس لئے مختصر بات کر کے آگے چلتے ہیں۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی بجا طور پر سموگ کے حوالے سے فکر مند ہیں کہ اسے کم کرنے کے لئے جو بھی کوشش کی گئی وہ کامیاب نہیں ہوئی، حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات کے فراخدلانہ تعاون سے مصنوعی (حقیقی بادلوں سے) بارش بھی آزما لی اور سنا ہے کہ اب پھر تیاری ہو رہی ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوست ممالک سے ماہرین کی مدد طلب کر لی اور جلد ہی چین سے ماہرین کی ایک ٹیم آنے والی ہے جو اپنی تحقیق سے آگاہ کرنے کے علاوہ یہاں بھی دیکھے گی کہ حقیقی اسباب کیا اور ان کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے کہ چین نے بیجنگ میں کامیاب تجربہ کیا ہے میں محسن نقوی کی درد مندی اور کوشش کی پوری تعریف کرتا ہوں اور یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ سائنسی تحقیق بھی حقیقت پسندی ہے، تاہم یہ عرض کرنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ اصل حل تو بارش ہی ہے کہ مصنوعی بارش نے ایک بار فرق تو ڈالا تھا میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس تجربے نے یہ پھر ثابت کیا کہ موسم کی تبدیلی بھی بہت بڑا عمل ہے کہ اب پہاڑوں پر برف تو گر رہی ہے لیکن بارش نہیں ہو رہی اور اگر ہوتی ہے تو بے وقت جس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے اس حوالے سے دنیا بھر میں تحقیق اور بات ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔

والد کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے، شاہ محمود قریشی کی بیٹی کا بیان

میں نے گزارش کی تھی کہ ان حقائق کے ساتھ ساتھ روحانیت بھی ایک حقیقت ہے اور تجویز کیا تھا کہ بارش کے لئے نماز استسقاء ادا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play