سیاست میں تیزی آئی ریٹرننگ افسروں کے دفاتر پر رونق ہو گئے۔ سیاسی چالیں اور حکمت عملی بھی جاری ہے ایسے میں تحریک انصاف کے بقول جماعت کے ساتھ ہی نہیں، 25 کروڑ عوام کے ساتھ انصاف ہو گیا۔ سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے سابق رکن سردار لطیف کھوسہ بہت پر جوش ہیں اور انہوں نے دعوی کر دیا کہ ان کی جماعت (جس میں اب شامل ہوئے) تحریک انصاف انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی۔ دوسری طرف یہی دعویٰ مسلم لیگ (ن) کا ہے تاہم خواجہ آصف کے بقول دو تہائی نہیں تو مسلم لیگ (ن) اکثریت ضرور حاصل کرے گی۔ رانا ثناء اللہ زیادہ تر پنجاب کی بات کرتے ہیں ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی کی 140 سے زیادہ اور پنجاب ہی سے قومی اسمبلی کی ایک سو نشستیں جیتے گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی جو انتخابی عمل میں کب سے شریک ہے اس کے رہبر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آئندہ اقتدار ان کو ملے گا اور حکومت پیپلزپارٹی کی ہو گی، اس ساری صورت حال سے تا حال عام آدمی لا تعلق سا ہے، اس کے ساتھ ہی عوام کا نام تو ہر کوئی لے رہا ہے لیکن ان کے مسائل کا ذکر نہیں۔ سب کا دعویٰ ہے کہ ان کو اقتدار دے دو تو وہ ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ البتہ بلاول بھٹو نے نعرہ ایجاد کیا کہ پیپلزپارٹی کا مقابلہ مہنگائی، افلاس اور بے روز گاری سے ہے، جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں۔ یہ سب آزمائے ہوئے ہیں کسی نے بھی عوام اور ملک کا بھلا نہیں کیا، سب اپنے اپنے مفاد کے لئے سیاست کرتے ہیں انہوں نے باریاں لگا رکھی ہیں، اس لئے اب آزمائے ہوؤں کو نہ آزمائیں اور جماعت اسلامی کو موقع دیں۔

مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام میں سیٹ ایڈجسمنٹ پر ڈیڈ لاک برقرار لیکن دراصل مولانا فضل الرحمان نے کیا مانگا تھا؟ ذرائع نے دعویٰ کردیا

ان حالات میں غور کیا جائے تو عوامی مسائل گم ہو گئے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ نگران حکومت عوام پر بوجھ پر بوجھ لادے چلی جا رہی ہے آج ہی او جی ڈی سی کی سالانہ رپورٹ کی خبر نشر کی گئی ذرا غور فرمائیں کہ توانائی سے متعلقہ کمپنیوں کے منافع کی شرح کیا ہے، اب تو گیس کمپنیوں کی سالانہ رپورٹیں شاید خفیہ ہو گئی ہیں، ورنہ ہر سال کروڑوں روپے کا منافع بتایا جاتا تھا اس سب کے باوجود بجلی اور گیس کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں، نومبر کے بلوں میں 172 فیصد اضافے کے بعد رقم مندرج ہے۔ ہر گھر کو کم از کم دو سو فیصد اضافہ ملا نومبر 2022ء کا بل دو ہزار تھا تو نومبر 2023ء کا بل 6 ہزار روپے آیا ہے اور اب گیس کمپنیوں کے مطالبے پر مزید اتنا ہی بوجھ لادا جائے گا تو یہ بارہ ہزار سے بڑھ جائے گا جس کا مقصد یہ ہے کہ نچلے متوسط طبقہ کے حضرات اور تنخواہ دار طبقہ گیس جلانے کی بجائے سونگھنے پر مجبور ہوگا کہ گیزر تو چل ہی نہ سکیں گے اگر چولہا جلا لیا تو ہزار شکر کیا جائے گا اسی طرح آج تک بجلی کے بلوں کے لئے یہ فیول ایڈجسٹمنٹ ذہن کے خانے میں گڈمڈ کر دیتی ہے، آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ فیول ایڈجسٹمنٹ ہوتی کیا ہے جو ہر ماہ تو ہوتی ہر تین ماہ کے بعد سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھی ڈاکا ڈالا جاتا ہے، یہ سب اپنی جگہ میں تو حیران ہوں کہ معاشی عدم استحکام کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اب تک جو مجموعی قرضہ ملک پاکستان پر واجب الادا ہے وہ کیسے اترے گا اور اسے کون اتارے گا ایک اور کارنامے کی طرف توجہ دلانا بھی لازم ہے وہ یہ کہ بجلی کے گردشی قرضوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ بجلی کمپنیوں سے بجلی لو یا نہ لو، کیپسٹی چارجز تو دینا ہی ہیں اب ذرا غور فرما لیں کہ قوم معاہدہ میں طے کئے گئے واجبات یا رقم تو دے گی لیکن لوڈشیڈنگ جاری ہے، اگر یہی صورت حال ہے تو ان کمپنیوں سے کیپسٹی چارجز کے مطابق بجلی کیوں نہیں لی جاتی؟

طلباء کیلئے خوشخبری، حکومت کا آدھی قیمت پر الیکٹرک بائیکس دینے کا فیصلہ

سوچا تو کچھ تھا لکھا یہ گیا کہ یہ سب مسائل براہ راست ہر شہری کو متاثر کر رہے ہیں اور سیاست دان سیاست کا کھیل کھیلے جا رہے ہیں بہرحال میں آج نگران پنجاب حکومت کی توجہ خصوصاً ہم پیشہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اطلاعات کی مذمت میں عرض کرتا ہوں کہ محسن نقوی صاحب کی شہرت تو سپیڈ کے نام سے ہو چکی ہے۔ ہم بھی ان کی سرگرمیوں کو سراہتے ہیں لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ان کی ترجیحات بہتر ہونے کے باوجود بعض خانے خالی ہیں ایک مرتبہ پہلے عرض کیا تھا کہ لاہور کو پلوں کا شہر بنا کر اس کا قدرتی حسن غارت کر دیا گیا، اس میں نگرانوں کا کوئی قصور نہیں شکوہ صرف یہ ہے کہ محسن نقوی ایک جرنلسٹ ہونے کی حیثیت سے یہ بھی جانتے ہیں کہ ٹریفک کے مسائل کا حل فلائی اوورز سے زیادہ اچھا انٹرچینج سے ہوتا ہے اس لئے یہ بھی بہتر ہوتا کہ جہاں جہاں ماہرین نے تجویز کر کے فزیبلٹی بنائی جو ٹیپا کے پاس موجود ہے وہاں انٹرچینج ہی بنائے جاتے بہر حال یہ محسن نقوی کا ذمہ نہیں، انہوں نے تجویز کردہ منصوبوں کی جلد تکمیل کرالی یہ غنیمت ہے لیکن ان کی توجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف کیوں نہیں ہوئی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی کیوں بڑھی یہ تو وہ جان سکتے ہیں لیکن ان کی ساری محنت کو ایک فقرے سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کا مہنگائی کرنے والوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی سرکاری مشینری متحرک ہوتی ہے، اس کی ایک مثال یہاں پنجاب فوڈ کنٹرول اتھارٹی ہے جو پریس ریلیز کے ذریعے ہفتے میں ایک دو بار ہزاروں من ملاوٹ اور کیمیکل والا دودھ بہا دیتی ہے لیکن موبائل لیبارٹیرز ہونے کے باوجود دودھ کی دوکانوں سے موقع پر نمونے حاصل کرکے پڑتال نہیں کرتی اور نہ ہی ان کے ناقص دودھ اور اشیاء پر کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔

دورہ آسٹریلیا، کھلاڑیوں پر سختی شروع، محمد حفیظ نے نئے ایس اوپیز لاگو کردیئے

بہر حال یہ سب اپنی جگہ آج کل نگران حضرات کی توجہ ٹریفک اور سموگ کے مسائل پر ہے اور وہ درد مندی سے مداوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں میں یہ عرض کروں ان مسائل کا ایک حل پبلک ٹرانسپورٹ بھی ہے۔ آج کل سپیڈو، میٹرو بسیں اور گرین لائن ٹرین لاہور کے شہریوں کے لئے غنیمت ثابت ہو رہی ہیں لیکن آبادی کے مقابلے میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اب تو سپیڈو بسیں پرانی ہو چکیں اور کم بھی بہت ہیں،اِن میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ سانس گھٹ جاتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سپیڈو بسوں کی تعداد میں مطلوبہ اضافہ کیا جائے فوری طور پر بارہ سو بسوں کی ضرورت ہے جن کو بتدریج بڑھا کر پانچ چھ ہزار تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ شہر کی کوریج کے ساتھ ساتھ توسیعی شہر کی ضرورتیں پوری ہوں، پھر اڈوں پر پارکنگ کی سہولت ہو تاکہ شہری اپنی گاڑیاں اور سواریاں پارک کر کے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں آج اسی پر اکتفا ہے ورنہ کہنے کو تو بہت کچھ ہے اگر ………………

اداکارہ ثنا نادر بھی رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں

QOSHE -           شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات!

10 1
28.12.2023

سیاست میں تیزی آئی ریٹرننگ افسروں کے دفاتر پر رونق ہو گئے۔ سیاسی چالیں اور حکمت عملی بھی جاری ہے ایسے میں تحریک انصاف کے بقول جماعت کے ساتھ ہی نہیں، 25 کروڑ عوام کے ساتھ انصاف ہو گیا۔ سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے سابق رکن سردار لطیف کھوسہ بہت پر جوش ہیں اور انہوں نے دعوی کر دیا کہ ان کی جماعت (جس میں اب شامل ہوئے) تحریک انصاف انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی۔ دوسری طرف یہی دعویٰ مسلم لیگ (ن) کا ہے تاہم خواجہ آصف کے بقول دو تہائی نہیں تو مسلم لیگ (ن) اکثریت ضرور حاصل کرے گی۔ رانا ثناء اللہ زیادہ تر پنجاب کی بات کرتے ہیں ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی کی 140 سے زیادہ اور پنجاب ہی سے قومی اسمبلی کی ایک سو نشستیں جیتے گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی جو انتخابی عمل میں کب سے شریک ہے اس کے رہبر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آئندہ اقتدار ان کو ملے گا اور حکومت پیپلزپارٹی کی ہو گی، اس ساری صورت حال سے تا حال عام آدمی لا تعلق سا ہے، اس کے ساتھ ہی عوام کا نام تو ہر کوئی لے رہا ہے لیکن ان کے مسائل کا ذکر نہیں۔ سب کا دعویٰ ہے کہ ان کو اقتدار دے دو تو وہ ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ البتہ بلاول بھٹو نے نعرہ ایجاد کیا کہ پیپلزپارٹی کا مقابلہ مہنگائی، افلاس اور بے روز گاری سے ہے، جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں۔ یہ سب آزمائے ہوئے ہیں کسی نے بھی عوام اور ملک کا بھلا نہیں کیا، سب اپنے اپنے مفاد کے لئے سیاست کرتے ہیں انہوں نے باریاں لگا رکھی ہیں، اس لئے اب آزمائے ہوؤں کو نہ آزمائیں اور جماعت اسلامی کو موقع دیں۔

مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام میں سیٹ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play