بے نظیر، بے نظیر ہے یہ الفاظ محترمہ کے والد اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے ہیں۔ جو انہوں نے محترمہ کی قیادت کے حوالے سے معترض حضرات کے جواب میں کہے۔ ان الفاظ کا ذکر بھٹو لیگسی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب ”میرا پاکستان“ میں درج کئے گئے یہ کتاب جس کی تدوین فاؤنڈیشن کے سربراہ بشیر ریاض نے کی درحقیقت اس بیان حلفی پر مشتمل ہے جو نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں بھٹو نے دیا اور یہ بیان حلفی انہوں نے خود تحریر کیا جب وہ زیر حراست تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اول روز ہی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو قیادت کے لئے تیار کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بے نظیر بھٹو کو اپنے ساتھ رکھا اور محترمہ نے خارجہ امور میں تجربہ حاصل کیا۔ بھٹو جب شملہ گئے تو بھی بے نظیر ان کے ساتھ تھیں اور انہوں نے اپنی کتاب دختر مشرق میں اپنے تاثرات بیان کئے ہوئے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

بے نظیر بھٹو کو دنیا سے رخصت ہوئے سولہ سال ہو چلے اور آج (بدھ) ان کی برسی ہے۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر کو لیاقت باغ کے جلسہ عام کے بعد واپس جاتے ہوئے شہید کر دیا گیا تھا اور یہ انتخابی مہم کا جلسہ تھا۔ لیاقت باغ میں ہونے والا یہ تیسرا واقع ہے۔ اس باغ میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی۔ قاتل سید اکبر کو موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور یہ فریضہ خود اس وقت کے آئی جی پولیس قربان صاحب نے انجام دیا۔ حالانکہ سید اکبر کی گرفتاری کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ لیکن اسے وہیں کے وہیں مار دیا گیا اور یوں بڑا ثبوت ختم ہو گیا اور اس شہادت کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا اور نہ ہی محترمہ کی ناگہانی موت کا اب تک پردہ چاک ہوا حالانکہ ایک سے زیادہ بار تحقیقات کا ڈول ڈالا گیا۔

ملک میں فارمی انڈوں کی قیمت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ، فی درجن نرخ 400روپے سے تجاوز کر گئے

محترمہ بے نظیر بھٹو یقیناً ایک بڑی لیڈر تھیں اور ان میں قائدانہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی میں ایک سے زیادہ بار ان کے حوالے سے لکھ چکا ہوں اس کے باوجود ان سے متعلقہ باتیں۔ واقعات ختم ہونے کو نہیں آئے۔ بے نظیر بھٹو نے تمام تر اندیشوں کو بالائے طاق رکھا اور جلسہ سے خطاب کیا اس روز محترمہ کے گلے میں پھولوں کا ایک گندھا ہوا ہار تھا جو ان کی شخصیت پر بہت جچ رہا تھا میں اور میری مرحومہ بیوی شادباغ والے گھر میں تھے اور ٹی وی کی لائیو نشریات دیکھ رہے تھے جب محترمہ نے تقریر کے بعد حاضرین کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا ہلا کر دیا تو میری اہلیہ مرحومہ نے بے ساختہ کہا ”میاں صاحب دیکھو بی بی حور لگ رہی ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ محترمہ کا چہرہ تمتما رہا تھا وہ بہت پر جوش اور پر یقین تھیں اور بے ساختہ مسکرا رہی تھیں۔ کس کو علم تھا کہ یہ ان کی آخری جھلک ہے جو آنکھوں میں ثبت ہو کر رہ جائے گی اور ایسا ہی ہے جب بھی محترمہ کا ذکر آئے ان کا وہی چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

لاہور سمیت پنجاب بھر کے میدانی علاقوں میں شدید دھند، آمد و رفت متاثر

محترمہ کے قتل کے حوالے سے تحقیق والوں نے بہت کچھ لکھا، آج بھی لکھ لکھ کر اشاعت کے لئے دے چکے ہوں گے لیکن کوئی بھی حتمی جواب نہ دے سکا کہ یہ سب کیا اور کیسے ہو گیا۔

آج بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جائے گا جبکہ گڑھی خدا بخش میں تاریخ ساز اجتماع پھر ہوگا اور پیپلزپارٹی کی قیادت نہ صرف موجود ہو گی بلکہ خطاب کرے گی۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ان کی شہادت انتخابی مہم کے جلسے کے دوران ہوئی اور آج ان کی برسی کا اجتماع اور اس سے بلاول بھٹو زرداری کا خطاب بھی انتخابی مہم ہی کے سلسلے میں ہوگا اسی لئے شاید اہتمام بھی انتخابی مہم ہی کے سلسلے جیسا ہوگا اسی لئے شاید اہتمام بھی بہتر ہو۔ یہاں ایک بات عرض کروں اسے چاہے جہالت کا نام دیں یا کم علمی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سندھ سے بے شمار جوڑے شادی کے پہلے روز یہاں سلام کرنے آتے ہیں اور اس عقیدت میں چھپی محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہاں میتیں دو اور قبر ایک والی بات بھی نہیں۔ یہاں تو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ ان کے بیٹے بھائی بھی مدفون ہیں اور یہ عقیدت سندھ میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی بھی علامت ہے اور بے نظیر بھٹو کو تو وہاں شہید رانی پکارا جاتا ہے۔

ممبئی میں 3 بڑے بینکوں کو دھمکی آمیز ای میل موصول، 11 مقامات پر بم کی اطلاع

اس سے پہلے کہ حالات حاضرہ کے حوالے سے بات کی جائے دو امور کا ذکر بے جا نہ ہوگا ایک تو یہ کہ جس روز محترمہ شہید ہوئیں،اسی روز راولپنڈی میں محمد نوازشریف بھی انتخابی ریلی کی قیادت کر رہے تھے اور ان کے قافلے پر بھی بم سے حملہ کیا گیا جس میں ان کے دو سے تین کارکن شہید ہوئے اور کچھ زخمی ہوئے تھے۔ راولپنڈی میں ہوتے ہوئے بھی نوازشریف محترمہ پر حملے کا سن کر ہسپتال پہنچے اور محترمہ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے اپنی ریلی ختم کر دی تھی، اس المناک سانحہ کی تحقیقات کئی پہلوؤں سے ہوئی لیکن محترمہ ناہید خان اور ان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی کے علاوہ مخدوم امین فہیم (مرحوم) کے تفصیلی بیانات کا کہیں ذکر نہیں ہے مجھے تو ایسا موقع نہ مل سکا کہ میں ناہید خان صاحبہ سے اس حوالے سے سوال کروں اگرچہ سنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے لب سیئے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ شخصیات اس لئے اہم ہیں کہ گاڑی میں موجود تھیں اور یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ محترمہ بے نظیر شہید نے گاڑی میں کھڑے ہونا کیوں گوارا کیا کہ جب وہ ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دے رہی تھیں کہ دھماکہ ہوا وہ ایک دم گر گئیں۔ لیور سے زخمی ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے حالانکہ ویڈیو میں پستول بردار بھی نظر آئے میری نظر میں یہ قتل امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل سے مماثل ہے ان کو ٹارگٹ کیا گیا تھا محترمہ کا پوسٹ مارٹم ہوتا تو چھپانے کے باوجود کبھی تو رپورٹ سامنے آ جاتی تو حقیقت واضع ہوتی لیکن پوسٹ مارٹم نہ ہوا۔ اس کے لئے وضاحت آصف علی زرداری کے ذمے ہے ہم تو محترمہ کی مغفرت کے لئے دعا گو ہیں۔

سعودی عرب: غلط جگہ سے سڑک پار کرنیوالے پاکستانی کو بھاری جرمانہ

QOSHE -     بے نظیر۔ بے نظیر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    بے نظیر۔ بے نظیر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو!

12 1
27.12.2023

بے نظیر، بے نظیر ہے یہ الفاظ محترمہ کے والد اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے ہیں۔ جو انہوں نے محترمہ کی قیادت کے حوالے سے معترض حضرات کے جواب میں کہے۔ ان الفاظ کا ذکر بھٹو لیگسی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب ”میرا پاکستان“ میں درج کئے گئے یہ کتاب جس کی تدوین فاؤنڈیشن کے سربراہ بشیر ریاض نے کی درحقیقت اس بیان حلفی پر مشتمل ہے جو نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں بھٹو نے دیا اور یہ بیان حلفی انہوں نے خود تحریر کیا جب وہ زیر حراست تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اول روز ہی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو قیادت کے لئے تیار کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بے نظیر بھٹو کو اپنے ساتھ رکھا اور محترمہ نے خارجہ امور میں تجربہ حاصل کیا۔ بھٹو جب شملہ گئے تو بھی بے نظیر ان کے ساتھ تھیں اور انہوں نے اپنی کتاب دختر مشرق میں اپنے تاثرات بیان کئے ہوئے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟

بے نظیر بھٹو کو دنیا سے رخصت ہوئے سولہ سال ہو چلے اور آج (بدھ) ان کی برسی ہے۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر کو لیاقت باغ کے جلسہ عام کے بعد واپس جاتے ہوئے شہید کر دیا گیا تھا اور یہ انتخابی مہم کا جلسہ تھا۔ لیاقت باغ میں ہونے والا یہ تیسرا واقع ہے۔ اس باغ میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی۔ قاتل سید اکبر کو موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور یہ فریضہ خود اس وقت کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play