حکم جاری ہوا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں کے بارے میں منفی تاثر پر مبنی بات کرنا اور لکھنا منع ہے. یہ کوئی نئی بات نہیں دستور میں بھی فوج اور عدلیہ کو تنقید سے مبرا قرار دیا گیا ہے جس بنا پر آمروں سے تنگ آئے لوگوں نے انہیں مقدس گائے کہنا شروع کر دیا اور یوں اس تقدیس پر تنقید شروع ہوگئی جسے قابل قبول بنانے کے لیے انگریزی کی اصطلاح (Critical Appreciation) کا سہارا لیا گیا کہ یہ تحسینی تنقید ہے جس کا مقصد اصلاح احوال ہے مگر یہ بات مانی نہیں گئی اور قلم سے نشتر چلانے والوں کی اصلاح کے مشن کو فروغ دیا گیا. جو ہنوز جاری و ساری ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اس سڑک پر لازمی گاڑی گھساتی ہے جس کے باہر بڑے واضح انداز میں لکھا ہوتا ہے "یہ شارع عام نہیں ہے " یا " یہ سڑک یکطرفہ ٹریفک کے لئے ہے"...ہم نے بڑی سڑکوں پر بنے سپیڈ بریکر توڑ دئیے اور گلی محلوں میں اپنے بچوں کو سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے کی سہولت دینے کے لئے اپنی مرضی سے ایسی نامناسب غیر قانونی رکاوٹیں بنا دیں جو آئے روز حادثات کا باعث بنتی ہیں. جن بچوں کو حادثوں سے بچانے کے لئے (گاڑی بریکر) بنا کر عام راہگیروں کو مشکل میں ڈالا وہ اپنے ہی بنائے گئے سپیڈ بریکرز تیز رفتاری سے عبور کرنے والوں کی زد میں آکر روز ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے جیلوں میں جارہے ہیں. جنہیں انصاف لوٹ سیل دھڑا دھڑ نواز رہی ہے جبکہ بے حیثیت بے چارے لوگوں کی جب بے گناہی ثابت ہونے پر انہیں رہائی ملتی ہے تو ان کی اکثریت یا تو زندگی سے رہائی پا چکی ہوتی ہے یا وہ عمر کی تین چار دہائیاں پسِ دیوارِ زنداں گذار کر اقبال ساجد کے اس شعر کی عملی تفسیر بن چکے ہوتے ہیں:

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تازہ لسٹ جاری ک دی ، سربراہان میں عمران خان کا نام شامل ہے یا نہیں ؟

درِ قفس جو کھلا, آسمان بھول گئے

رہا ہوئے تو پرندے اڑان بھول گئے

اس صورتحال کا سامنا کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے. ابھی کل کلاں ہی پڑھا ہے کہ ایک قیدی کو 48 برس جیل میں رکھنے کے بعد بے گناہ قرار دے کر رہا کیا گیا ہے…… اسی طرح دو ایک برس پہلے عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے چار مجرموں کو بیگناہی ثابت ہونے پر رہا کرنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ ان کی تو سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد بھی ہوچکا ہے…… اس کے بعد عدالت نے ان بے گناہوں کو تختہ دار پر لٹکانے والے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی اس بارے میں مکمل خاموشی ہے... خاموشی تو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف دائر اپیل پر بھی روا رکھی جا رہی تھی مگر اب شنید ہے کہ یہ اپیل سننے کا عندیہ دے دیا گیا ہے اور کیا فیصلہ آئے گا اس بارے میں راوی خاموش ہے البتہ ایک قیدی جسے جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی ہے اسے اعلیٰ عدالت کے ایک منصف کی جانب سے معصوم قرار دیا جا رہا ہے جبکہ مقدمہ ابھی ماتحت عدالت میں زیرِ التوا ہے..اب کوئی چپ رہے تو کیسے اور بولے تو کیا بولے……..ایسے میں صرف شاعری کی زبان ہی کام آتی ہے اسی کی سْن لیجئے:

آسٹریلیا کے خلاف دوسرے میچ کیلئے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو گیا، ایک اور کھلاڑی باہر

اندھیروں کے تقسیم کار!

اندھیروں نے مل کر

سبھی روشنی کے مآخذ پہ حملہ کیا

اور جلتے چراغوں پہ شب خون مارا

بے نور چہروں کو آگے کیا

جو ظلمت کدے سے یوں گویا ہوا

"سنو بستی والو!

آجالوں کا طوفان لانے کی کوشش میں

جلتے چراغوں نے اودھم مچایا ہوا تھا

تیرگی کے مراکز پریشان تھے

تاریکیوں کے ٹھکانوں کو خطرات لاحق تھے

سو ان سے نمٹنے کی خاطر

یہی فیصلہ ہے

کہ ہم نے چراغوں کو رخصت کیا

اور ظلمت کدے میں

مونس الہیٰ کے بیان پر چوہدی سالک حسین کا ردعمل سامنے آگیا

ضیا پاشیوں پہ ہے قدغن لگائی

کوشش کریں گے

کہ ظلمت کدے کے افق پر

کبھی کوئی سورج نہ چمکے

اور نہ ہی فلک پر کوئی چاند چمکے

نہ روشن ستاروں کا جھْرمٹ کہیں ہو

جہاں تک بھی ممکن ہو

گہری اندھیری سیاہ رات ہو

روشنی کے مآخذ

تا حکم_ ثانی

سیاہی کی تحویل میں ہی رہیں گے

کہیں سے نہ کوئی بھی چنگاری پھْوٹے

سو اپنے گھروں میں بھی چْولہا جلانے کی بے سْود کوشش نہ کرنا

روشنی یا آجالے کی کوئی کرن پاس رکھنا بھی اک جرم ہے

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

لہٰذا اندھیرے میں جْگنو کا باہر نکلنا منع ہے"

(علی اصغر عباس)

QOSHE -         کون سنتا ہے فغانِ درویش!  - علی اصغر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        کون سنتا ہے فغانِ درویش! 

10 0
25.12.2023

حکم جاری ہوا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں کے بارے میں منفی تاثر پر مبنی بات کرنا اور لکھنا منع ہے. یہ کوئی نئی بات نہیں دستور میں بھی فوج اور عدلیہ کو تنقید سے مبرا قرار دیا گیا ہے جس بنا پر آمروں سے تنگ آئے لوگوں نے انہیں مقدس گائے کہنا شروع کر دیا اور یوں اس تقدیس پر تنقید شروع ہوگئی جسے قابل قبول بنانے کے لیے انگریزی کی اصطلاح (Critical Appreciation) کا سہارا لیا گیا کہ یہ تحسینی تنقید ہے جس کا مقصد اصلاح احوال ہے مگر یہ بات مانی نہیں گئی اور قلم سے نشتر چلانے والوں کی اصلاح کے مشن کو فروغ دیا گیا. جو ہنوز جاری و ساری ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اس سڑک پر لازمی گاڑی گھساتی ہے جس کے باہر بڑے واضح انداز میں لکھا ہوتا ہے "یہ شارع عام نہیں ہے " یا " یہ سڑک یکطرفہ ٹریفک کے لئے ہے"...ہم نے بڑی سڑکوں پر بنے سپیڈ بریکر توڑ دئیے اور گلی محلوں میں اپنے بچوں کو سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے کی سہولت دینے کے لئے اپنی مرضی سے ایسی نامناسب غیر قانونی رکاوٹیں بنا دیں جو آئے روز حادثات کا باعث بنتی ہیں. جن بچوں کو حادثوں سے بچانے کے لئے (گاڑی بریکر) بنا کر عام راہگیروں کو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play