یہ امر تو اب بالکل واضح ہے کہ عام انتخابات ہونا اور 8فروری ہی کو ہونا ہیں۔ اس حوالے سے جو رکاوٹ نظر آتی ہے اسے سپریم کورٹ دور کرتی چلی جا رہی ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کے مطالبے کی تحریک انصاف ہی نے تائید نہیں کی۔ بیرسٹر علی ظفر نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی جماعت اس وقت اس مطالبے کو غلط سمجھتی ہے اور انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتی۔تحریک انصاف تمام تر رکاوٹوں اور تحفظات کے باوجود انتخابات میں حصہ لے گی اس سلسلے میں پیپلزپارٹی زیادہ سرگرم اور مسلم لیگ (ن) بھی تیاریوں میں مصروف ہے۔ تاحال پارلیمانی بورڈ کے اجلاس جاری ہیں اور ٹکٹوں کا فیصلہ بہرحال کاغذات نامزدگی کی واپسی سے پہلے ہونا چاہیے۔ بادی النظر میں مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی درست نظر آ رہی ہے کہ روزانہ انٹرویوز سے ”میرٹ“ کے تاثر کو پختہ کیا جا رہا ہے اور اس الزام کو رد کرنے کی کاوش جاری ہے کہ امیدواروں کی تیار فہرست حوالے کر دی جائے گی جس کا اعلان ہوگا محمد نوازشریف مقدمات سے باعزت بری ہوئے ہیں تو ان کے لہجے میں زیادہ اعتماد آ گیا اور اب وہ یہ دریافت کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ صورت حال ہے تو ان کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ابھی گزشتہ روز انہوں نے بہت بڑی بات کی کہ آئین کو معطل کرنے والوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں بلکہ ان کے ساتھ تعاون کیا، انہوں نے عدلیہ کے ان فاضل جج حضرات کا بھی ذکر اور شکوہ کیا جنہوں نے نہ صرف آمروں کے اقدام کو تحفظ دیا بلکہ ان کی توثیق بھی کی حتیٰ کہ آئین معطل کرنے والوں کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دے دیا۔

ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سندھ محمد سلیم خان کا محکمۂ اطلاعات کے مختلف ڈائریکٹوریٹس کا دورہ

دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری بھی عدلیہ سے انصاف کا یقین رکھتے ہوئے سابقین کا شکوہ کررہے ہیں کہ بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔ گزشتہ روز ہی لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ موجودہ سپریم کورٹ سے بھٹو کو انصاف مل جائے گا کہ اب تیسری نسل اس طرف نگاہ لگائے بیٹھی ہے، ان کو یقین ہے کہ صدارتی ریفرنس پر مثبت فیصلہ آئے گا۔

حالات سے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت صرف دونوں بڑی جماعتیں ہی میدان عمل میں ہیں اور دوسری جماعتیں اپنے ہی دائرہ میں کام کررہی ہیں۔ پیپلزپارٹی تو بعض خدشات میں بھی مبتلا ہے اسی لئے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بار بار دہرایا جاتا ہے اب بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پارٹی پنجاب میں بھی سرپرائز دے گی۔ بلاول بھٹو نے بار ایسوسی ایشن کے اراکین کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی اور گالی گلوچ والی سیاست کی بھرپور مذمت کی۔

پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا: احسن اقبال

جہاں تک مجموعی طور پر تعلق ہے تو ابھی تک جلسوں اور کارکن کنونشنوں کے باوجود انتخابی ماحول نہیں بنا جس کی بنیادی وجہ ٹکٹوں کی تقسیم نہ ہونا ہے، تاہم اب یہ وقت بھی بالکل قریب ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے امیدواروں کو کاغذات جمع کرانے کی ہدائت کی ہے تاہم ٹکٹ نہ ملنے والوں کو کاغذات واپس لینا ہوں گے۔ یہ وقت بھی قریب ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف نے تحمل کا دیر تک مظاہرہ کرنے کے بعد اب حکمت عملی تبدیل کی۔ نام لئے بغیر تنقید کررہے ہیں۔ یوں بھی اگر وہ اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا ذکر نہ کریں تو بات نہیں بنتی اس لئے ان کو کہنا ہی پڑتا ہے، اب لوگ اسے بیانیہ بھی قرار دے رہے ہیں جبکہ ایسی بات نہیں۔ نوازشریف اب نام لئے بغیر تنقید کررہے ہیں اور یہ احتیاط کا بھی تقاضا ہے۔لوگ منتظر ہیں کہ وہ انتخابی مہم کے لئے نکلیں کہ زرداری اور بلاول کے علاوہ مولانا فضل الرحمن بھی متحرک ہیں۔ یوں نظر بظاہر مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ مقصد اور مدعا یہ ہے کہ پھر سے ایک وسیع البنیاد حکومت بنے تاکہ مشکل فیصلے اور ان پر عمل بھی اجتماعی نظر آئے۔

برطانیہ میں شدید طوفان کی پیش گوئی، انتظامیہ ہائی الرٹ

آئندہ انتخابات کے بارے میں عوامی رجحان کے بارے میں بعض باخبر، دانشور، صحافی دوستوں نے مسلم لیگ (ن) کو پسندیدہ جماعت قراردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک انصاف کی موجودگی پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن عوامی مزاج کا خیال نہیں آتا لوگوں کی دلچسپی ختم ہو چکی۔ ان کی بلا سے ”بوم بسے یا ہُما رہے“ان کو اپنی روزی روٹی کی فکر ہے اس لئے اب تک جو کیمپ لگے ہیں وہ بھی بے رونق ہیں یہ بھی اگلے ہفتے ہی میں آباد نظر آئیں گے۔

یہ ایک اجمالی سا جائزہ ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ کیا ہوگا کہ بانی کے خلاف اب اور بھی زیادہ گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ توشہ خانہ ریفرنس بھی دائر کیا گیا ہے اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ خان صاحب گھڑی چور نہیں ہیں۔ اس پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن وجہ بیان نہیں کی جاتی بلاول کی بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ کپتان نے گھڑی چرائی نہیں انہوں نے تو توشہ خانہ میں جمع رکھنے کی بجائے فروخت کر دی اور ان کے خلاف ریفرنس کی وجہ بھی یہی بنیاد ہے۔

سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی پر ووٹنگ تیسرے روز بھی مؤخر

قارئین کرام! آج ذہن کافی منتشر نظر آ رہا ہے کہ نگران حضرات بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود مہنگائی اور صحت کے مسائل میں کوئی ریلیف نہیں دے سکے۔ پٹرولیم مصنوعات تیسری بار سستی ہوئیں، مارکیٹ متاثر نہیں ہو سکی، ماسوا برائلر مرغی کوئی سبزی اور ضروری شے کی قیمت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی جا رہی ہے۔ مرغی سستی ہوئی،انڈے مہنگے کئے جا رہے ہیں، یہ 379روپے درجن تک فروخت ہو رہے ہیں، مرغی اس لئے سستی ہے کہ افغانستان نہیں جا رہی، طالبان حکومت نے برائلر مرغی کو ”حرام“ قرار دے دیا ہے، پولٹری والوں کا مال موٹا ہوتا جا رہا ہے، یہ مرغی ایک حد تک وزنی ہو جائے تو گوشت پھٹ جاتا ہے اس لئے سستی بک رہی ہے۔ اکثر علاقوں میں نرخ 450 روپے فی کلو تک ہیں۔ دوسری طرف ٹماٹر پرچون میں 120سے 160روپے فی کلو اور پیاز 180روپے فی کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہی حال فروٹ کا ہے، آٹا بھی مہنگا ہے، یوں مجموعی طور پر عوام پر یہ بوجھ سوار ہے۔ ایسے میں کسی کو انتخابات کی نہیں سوجھ رہی۔ ذہنی کیفیات مختلف ہیں جبکہ ممی، ڈیڈی طبقہ جو نیا ووٹر تھا اب تک وہیں ہے، کسی طرف نہیں گیا، یہ نوجوان پولنگ کے دن اور حالات کے منتظر ہیں، اس لئے ان کی ذہنی رو کو تبدیل کرنا لازم ہوگا اس کے باوجود کاغذات نامزدگی اور ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ہی تجزیہ ممکن ہوگا۔

سگریٹ نوشی سے دماغ سکڑ جاتا ہے، سائنسی تحقیق سامنے آگئی

QOSHE -            الیکشن تو ہوں گے! لیکن؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           الیکشن تو ہوں گے! لیکن؟

6 15
21.12.2023

یہ امر تو اب بالکل واضح ہے کہ عام انتخابات ہونا اور 8فروری ہی کو ہونا ہیں۔ اس حوالے سے جو رکاوٹ نظر آتی ہے اسے سپریم کورٹ دور کرتی چلی جا رہی ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کے مطالبے کی تحریک انصاف ہی نے تائید نہیں کی۔ بیرسٹر علی ظفر نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی جماعت اس وقت اس مطالبے کو غلط سمجھتی ہے اور انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتی۔تحریک انصاف تمام تر رکاوٹوں اور تحفظات کے باوجود انتخابات میں حصہ لے گی اس سلسلے میں پیپلزپارٹی زیادہ سرگرم اور مسلم لیگ (ن) بھی تیاریوں میں مصروف ہے۔ تاحال پارلیمانی بورڈ کے اجلاس جاری ہیں اور ٹکٹوں کا فیصلہ بہرحال کاغذات نامزدگی کی واپسی سے پہلے ہونا چاہیے۔ بادی النظر میں مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی درست نظر آ رہی ہے کہ روزانہ انٹرویوز سے ”میرٹ“ کے تاثر کو پختہ کیا جا رہا ہے اور اس الزام کو رد کرنے کی کاوش جاری ہے کہ امیدواروں کی تیار فہرست حوالے کر دی جائے گی جس کا اعلان ہوگا محمد نوازشریف مقدمات سے باعزت بری ہوئے ہیں تو ان کے لہجے میں زیادہ اعتماد آ گیا اور اب وہ یہ دریافت کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ صورت حال ہے تو ان کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ابھی گزشتہ روز انہوں نے بہت بڑی بات کی کہ آئین کو معطل کرنے والوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں بلکہ ان کے ساتھ تعاون کیا، انہوں نے عدلیہ کے ان فاضل جج حضرات کا بھی ذکر اور شکوہ کیا جنہوں نے نہ صرف آمروں کے اقدام کو تحفظ دیا بلکہ ان کی توثیق بھی کی حتیٰ کہ آئین معطل کرنے والوں کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دے دیا۔

ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سندھ محمد سلیم خان کا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play