چند روز ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک سروے رپورٹ جاری کی،جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیس بدعنوان ترین اداروں میں سرفہرست ہے، اس کے بعد ٹینڈرنگ، ٹھیکہ داری، عدلیہ اور تعلیم کا شعبہ ہے،یہ نتائج برلن میں قائم بین الاقوامی سول سوسائٹی آرگنائزیشن کے پاکستان چیپٹر کے نیشنل کرپشن پر سروے کا حصہ تھے۔سروے کے مطابق سندھ میں محکمہ تعلیم بدعنوان ترین شعبہ رہا، پولیس دوسرے نمبر پر کرپٹ جبکہ ٹینڈرنگ اور ٹھیکہ داری تیسرے نمبر پر بد عنوان قرار پائے۔ پنجاب میں پولیس سب سے کرپٹ محکمہ ہے، اس کے بعد ٹینڈرنگ، ٹھیکہ داری اور عدلیہ ہے۔ اس سال خیبرپختونخواہ (کے پی) میں عدلیہ سب سے کرپٹ سیکٹر رہا، اس کے بعد ٹینڈرنگ، ٹھیکہ داری اور پولیس کا نمبر رہا۔ بلوچستان میں ٹینڈرنگ اور ٹھیکے دینے والے کرپٹ اداروں کی فہرست میں سرفہرست ہیں، اس کے بعد پولیس اور عدلیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سندھ محمد سلیم خان کا محکمۂ اطلاعات کے مختلف ڈائریکٹوریٹس کا دورہ

پنجاب پولیس کے موجودہ آئی جی کی تمام توجہ اپنی فورس کا مورال اور مقام بہتر کرنے پر ہے،جس کا ڈھنڈورا وہ دن رات سوشل میڈیا پر پیٹ رہے ہیں، حالانکہ اس فورس کا اخلاق، معیار اور تربیت بہتر ہونی چاہیے تاکہ ان پر لگنے والے رشوت اوراختیارات سے تجاوز کے الزامات کم سے کم ہوں۔

پنجاب میں آئی جی کے عہدے پر فائز رہنے والے ایک بہت اپ رائٹ،نیک نام اور محنتی پولیس افسر بتا رہے تھے کہ ستر کی دہائی کے دوسرے حصے میں وہ پولیس میں اے ایس پی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تو انہیں لاہور کی لٹن روڈ پولیس چوکی جو اب تھانہ لٹن روڈ سے اطلاع آئی کہ وہ اپنے کوائف کی جانچ پڑتال بارے حاضر ہوں،انہوں نے اپنی سائیکل نکالی اور چوکی میں پہنچ گئے جہاں چوکی محرر نے انہیں بٹھا کر ان کے ماضی کاایکسرے کیا، سوال پوچھے،فارمز پر کچھ لکھا،دستخط کرائے اور جانے کی اجازت دے دی مگر اپنے لئے چائے پانی کے لئے بھی ہاتھ دراز کر دیا۔جلد ٹریننگ،اے ایس پی کی وردی پہننے،لوگوں کی حفاظت، مدد اور انہیں ظلم سے نجات دلانے کا خواب سجائے اس نوجوان کے لئے یہ سوال اپنے آنے والے محکمے کی کارکردگی جانچنے کا شائد یہ پہلا عملی تجربہ تھا،اس نے محرر سے کہا آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کے محکمے کا افسر بننا ہے اور آپ مجھ سے چائے پانی اور مٹھائی مانگ رہے ہیں تو محرر صاحب نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا،ریٹائرڈ پولیس افسر نے جب یہ واقعہ سنایا تو وہاں موجود چند اور بڑے افسروں کا موقف تھا کہ تھانہ کلچر کے حالات اب بھی ویسے ہیں جو ستر کی دہائی میں تھے۔ایک اور واقعہ سنیے جو میرے ساتھ پیش آیاکوئی پندرہ بیس سال قبل میں نے نئی گاڑی خریدی اور اس کی رجسٹریشن اور نمبر اپلائی کر دیا،کار پر اپلائڈ فار کی پلیٹ لگی تھی مجھے شام کے وقت ایک پولیس ناکے پہ دو پولیس اہلکاروں نے روکا اور گاڑی کی تصدیق کے لئے اس کے کاغذات مانگے،میں نے کہا یہ اپلائڈ فار ہے اور جمع کرائے گئے کاغذات بارے محکمہ ایکسائز کی رسید اور اپنا ڈرائیونگ لائیسنس دکھا دیا،وہ یہ سب دیکھ کر بولے اچھا یہ نئی گاڑی لی ہے تو پھر ہماری مٹھائی تو دیں،میں نے کہا میں آپ کے ایس پی صاحب سے کہتا ہوں وہ آپ کو کھلا دیں گے اس پر انہوں نے معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔

پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا: احسن اقبال

سال بدلے،حکومتیں بدلیں،کبھی فوجی، کبھی نیم فوجی،کبھی جمہوری اور کبھی عبوری حکمران آئے، پولیس کو بدلنے کی کوششیں ہوئیں،پولیس کے اعلیٰ افسر بدلے،پی ایس پی کلاس بدلی،ان کے دفتر بدلے،وردیاں بدلیں،تنخوائیں بدلیں مگر تھانہ کلچر،رویہ اور وہاں کے حالات نہ بدلے، کہتے ہیں پولیس شہریوں کی جان مال آبرو کی ضامن اور محافظ ہے،مگر ان محافظین کے سیلاب، بارشوں اور قدرتی آفات میں کردار پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے پولیس غریب عوام کی دشمن اور ان کے جان مال آبرو کے لٹنے سے بے پرواہ،کوئی ایک تھانہ بتا دیں جو کبھی سیلاب زدہ عوام کو پناہ دینے کیلئے کھلا ہو،کسی ایک تھانیدار کی نشاندہی کر دیں جس نے شہریوں کو سردی سے بچانے کی کوشش کی ہو۔

برطانیہ میں شدید طوفان کی پیش گوئی، انتظامیہ ہائی الرٹ

کسی دور میں سلوگن دیا گیاپولیس کا ہے فرض مدد آپ کی جس کے جواب میں عوامی سلوگن آیاپولیس کا ہے ڈنڈا کمر آپ کی اور یہ کچھ بے معنی نہ تھا،اگر یہ ڈنڈا مجرموں کی کمر پر برستا تو آج جرائم کی شرح انتہائی کم ہوتی،مگر یہ ڈنڈا ہمیشہ غریب کی کمر پر سرخ دھاریوں سے نقشے بناتا رہا،نتیجے میں مجرم منہ زور ہو گئے،ان کو معلوم ہو گیا جو مرضی کرو،کسی کی زمین مکان دکان پر قبضہ کر لو،جس کی دل کرے جان مال آبرو سے کھیل لو تھانہ میں پیسہ لگا کے با عزت قرار پا جاؤ گے تو جرم دھڑلے سے ہونے لگے،ہماری پولیس کے جوان تو ایسے ہیں کہ کوئی سڑک پر حادثے کا شکار ہو کر مر رہا ہو تو یہ اس کی مدد کرنے کے بجائے تھانے کی حدود جانچنا شروع کر دیتے ہیں۔

سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی پر ووٹنگ تیسرے روز بھی مؤخر

اس پولیس فورس سے اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ جرم کو ختم کر دیں گے مجرموں کو نکیل ڈالیں گے تو یہ بہت بڑی حماقت ہو گی،جس فورس کے بہت سے افسر علاقہ کے بڑے مجرموں کے مخبر ہوں اور مظلوم کے کہنے پر ایف آئی آر کاٹنے کے بجائے مجرم کی ہدائت پر ایف آئی آر مرتب کریں وہ فورس جرائم کا قلع قمع نہیں کر سکتی بلکہ جرائم کے فروغ اور مجرموں کو پناہ دینے کا سبب بنے گی،اس فورس کو راہ راست پر لانے کیلئے کئی بار اصلاحات متعارف کرائی گئیں مگر محکمہ نہ سدھرا اور اصلاحات فائلوں میں ہی دفن ہو گئیں، پولیس کمپلینٹ سیل اور سٹیزن لائزن کمیٹیاں بن سکیں نہ پولیس اور عوام میں دوریاں اور فاصلے کم کرنے کی کوشش کی گئی،کسی شہری کو اگر شکائت ہے تو وہ شکائت سیل میں درخواست دے اور سیل اس کی بات سن کر ذمہ دار پولیس اہلکار کے خلاف ایکشن لے تو بہت سے مسائل فوری حل ہو سکتے ہیں،ہمارے ہاں پولیس خوف کی علامت ہے تحفظ کی نہیں۔ منشیات کی خرید و فروخت پولیس کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں،گرام کے حساب سے منشیات خریدنے والا پکڑ میں آجاتا ہے مگر کلو گرام کے حساب سے خریدنے اور فروخت کرنے والا معزز ہے، سارا تھانہ جانتا ہے منشیات کون بیچتا ہے کہاں سودے ہوتے ہیں سپلائی کیسے دی جاتی ہے،دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے ملک کا پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے فرائض منصبی دیانتداری سے ادا کرے تو ملک سے 80فیصد جرائم از خود ختم ہو جائیں،لیکن جس معاشرے میں جو جتنا بڑا مجرم ہو اتنا ہی معزز اور اکرام کا مستحق ہووہاں جرائم کا قلع قمع دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا،اس محکمہ کو خراب کرنے میں ہر دور کے حکمرانوں کا بڑا کردار ہے جو اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے پولیس کا استعمال کرتے ہیں اور جب عوام کہ رہے ہوتے ہیں کہ تھانے میں ان سے رشوت لی جاتی ہے تو حکمران جواب دیتے ہیں پولیس تو بے چاری ہے۔

سگریٹ نوشی سے دماغ سکڑ جاتا ہے، سائنسی تحقیق سامنے آگئی

QOSHE -     ”پلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہ،، - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    ”پلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہ،،

10 0
21.12.2023

چند روز ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک سروے رپورٹ جاری کی،جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیس بدعنوان ترین اداروں میں سرفہرست ہے، اس کے بعد ٹینڈرنگ، ٹھیکہ داری، عدلیہ اور تعلیم کا شعبہ ہے،یہ نتائج برلن میں قائم بین الاقوامی سول سوسائٹی آرگنائزیشن کے پاکستان چیپٹر کے نیشنل کرپشن پر سروے کا حصہ تھے۔سروے کے مطابق سندھ میں محکمہ تعلیم بدعنوان ترین شعبہ رہا، پولیس دوسرے نمبر پر کرپٹ جبکہ ٹینڈرنگ اور ٹھیکہ داری تیسرے نمبر پر بد عنوان قرار پائے۔ پنجاب میں پولیس سب سے کرپٹ محکمہ ہے، اس کے بعد ٹینڈرنگ، ٹھیکہ داری اور عدلیہ ہے۔ اس سال خیبرپختونخواہ (کے پی) میں عدلیہ سب سے کرپٹ سیکٹر رہا، اس کے بعد ٹینڈرنگ، ٹھیکہ داری اور پولیس کا نمبر رہا۔ بلوچستان میں ٹینڈرنگ اور ٹھیکے دینے والے کرپٹ اداروں کی فہرست میں سرفہرست ہیں، اس کے بعد پولیس اور عدلیہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سندھ محمد سلیم خان کا محکمۂ اطلاعات کے مختلف ڈائریکٹوریٹس کا دورہ

پنجاب پولیس کے موجودہ آئی جی کی تمام توجہ اپنی فورس کا مورال اور مقام بہتر کرنے پر ہے،جس کا ڈھنڈورا وہ دن رات سوشل میڈیا پر پیٹ رہے ہیں، حالانکہ اس فورس کا اخلاق، معیار اور تربیت بہتر ہونی چاہیے تاکہ ان پر لگنے والے رشوت اوراختیارات سے تجاوز کے الزامات کم سے کم ہوں۔

پنجاب میں آئی جی کے عہدے پر فائز رہنے والے ایک بہت اپ رائٹ،نیک نام اور محنتی پولیس افسر بتا رہے تھے کہ ستر کی دہائی کے دوسرے حصے میں وہ پولیس میں اے ایس پی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تو انہیں لاہور کی لٹن روڈ پولیس چوکی جو اب تھانہ لٹن روڈ سے اطلاع آئی کہ وہ اپنے کوائف کی جانچ پڑتال بارے حاضر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play