سول سروس اور گورننس کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور سول سروس ہی حکومتی رٹ کو برقرار رکھتی ہے، سول سرونٹس آسودہ اور ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں تو ہی گڈ گورننس ممکن ہوتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ کہ یہ سول سرونٹس ہی ہیں جو حکومت اور حکمرانوں کو مناسب فیصلہ سازی کے قابل بناتے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، حکمرانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جبکہ سول سرونٹس30یا 35سال مستقل سروس کرتے ہیں، انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے کا تجربہ ہوتا ہے، کئی بار تو وہ ایک ہی شعبے میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے اس مخصوص شعبے کے تمام امور کے ایکسپرٹ بن جاتے ہیں، اس لیے انہیں پتا ہوتا ہے کہ کسی ایشو پر ماضی میں کیا فیصلے کیے گئے تھے،کیا پالیسیاں اور کیا اقدامات کیے گئے تھے۔ سول سرونٹس ماضی کے ان تمام معاملات کو مد نظر رکھ کر حال کے تقاضوں کا ادراک کرتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کی پیش بینی کر کے حکومتوں اور حکمرانوں کو بہترین تجاویز پیش کرتے ہیں کہ فلاں معاملے میں اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو اس کے ملک و قوم اور حکومت پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے بے شک حکومتیں کرتی ہیں لیکن حکومتوں کو کسی فیصلے تک پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ سول سرونٹس ہی ہوتے ہیں، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے معاملات عجیب سے ہو گئے ہیں، نہ سمجھ آنے والے، لیکن یہ معمہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ ملک میں جب سے نظریاتی سیاست کو ترک کر کے انتقامی سیاست کو رواج دیا گیا ہے، ریاست کے سبھی ستون اس سے متاثر ہوئے ہیں، بیوروکریسی یا دوسرے لفظوں میں سول سروس بھی ان متاثرہ شعبوں میں شامل ہے، انتقامی سیاست یہاں بھی در آئی ہے، قصور کسی کا تھا سزا کسی اور کو ملی اور ان کے خاندانوں نے بھی اس کا خمیازہ بھگتا، افسوسناک بات یہ ہے کہ جو ان خرابیوں کے مرتکب ہوئے ان کی کسی قسم کی کوئی پکڑ نہیں کی گئی اور وہ اب بھی آزادانہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، کیا یہ سلسلہ کبھی تمام ہو سکے گا؟

بانی پی ٹی آئی کی توہین الیکشن کمیشن، جیل ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر آج سماعت ہوگی

اسی معاملے کا ایک اور قابلِ غور بلکہ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ ناجائز پکڑے جانے والوں کے ساتھیوں اور انکے محکموں کی جانب سے بھی کبھی کوئی مزاحمت نہیں کی گئی،کوئی قابل ذکر احتجاج مشاہدے میں نہیں آیا۔ احد چیمہ، فواد حسن فواد اور عثمان انور کی مثالیں ہی لے لیں،ان کو نیب نے پکڑا معمولی احتجاج سے آگے کچھ نہ ہوا،ان کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر ان کی فیملیوں نے جو کچھ بھگتا وہ بھی کسی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں۔ آج فواد اور احد وفاقی حکومت کا حصہ اور عثمان پنجاب کے اہم محکمہ پراسیکیوشن کا سیکرٹری ہے، ان سے فائدے لینے کے لیے ان کی چوکھٹوں کے چکر لگانے والے جیل میں ان سے ملنے تک نہ گئے، آج یہ بے قصور ثابت ہو چکے ہیں تو ابن الوقت، موقع شناس اور موقع پرست ایک بار پھر ان کے آگے پیچھے ہیں۔ چلیں موقع پرستوں کا تو چلن ہی یہی ہے لیکن جنہوں نے انہیں پکڑا یا پکڑوایا ان کے خلاف مقدمات قائم ہوئے؟ جنہوں نے انہیں زمانے بھر میں بلا وجہ رسوا کیا،ان کے اہلِ خانہ کو ایک اذیت ناک صورت حال سے دوچار کیے رکھا، وہ اب کدھر ہیں؟ ان پر غلط، لغو اور بے بنیاد الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف کیا کچھ ہوا؟

لاہور ہائیکورٹ؛ شیر افضل مروت کی نظربندی کے خلاف درخواست پر آج سماعت ہو گی

احد چیمہ نے اچھا کیا اس سروس کو ہی خیر باد کہہ دیا جو اس سے فائدہ اٹھاتی تھی اور جس میں رہ کر وہ اپنی بہترین صلاحیتوں سے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف تھے، مگر یہ صلاحیتیں یہ سروس اور یہ خدمات خود انہی کو زیادتیوں سے نہ بچا سکیں، جب انہیں بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا تو وہ صلاحیتیں اور خدمات کوئی تحفظ بھی فراہم نہ کر سکیں۔ یہی کہانی فواد حسن فواد کی ہے، پوری لگن سے کام کرنے کے باوجود ان کی سنیارٹی کا کوئی لحاظ کیا گیا نہ ان کے عہدے اور سروس کی کوئی قدر کی گئی اور انہیں جیل میں ہی ریٹائر ہونا پڑا، ایسی سروس کا کیا فائدہ جس میں عزت اور عزتِ نفس بھی نہ رہ سکے، ان کی سروس کے آخری ڈھائی سال ضائع کر دیئے گئے، اس نقصان کے ذمہ داران کون ہیں؟ کیا ان کو کبھی پِن پوائنٹ کیا جا سکے گا؟ کبھی ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے گا۔؟

تحریک انصاف نے پارٹی چھوڑنےوالوں کیلئے مشروط واپسی پر آمادگی ظاہر کردی

یہ ایشوز ابھی جاری تھے کہ پنجاب ایگزیکٹو سروس کے ایک محنتی اور اچھے افسر عدنان رشید کا معاملہ سامنے آ گیا، ایک عدالتی بیلف نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو (اے ڈی سی آر) لاہور عدنان رشید کے ساتھ ان کے دفتر میں جس قسم کا رویہ اختیار کیا وہ قابل افسوس ہے، عدالت اور معزز جج صاحبان کا احترام محکم لیکن کیا معاملہ اتنا ہی اہم اور سنگین تھا کہ بیلف کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آ گئی؟ عدالت نے طلب کیا تھا تو عدنان کو پیش ہونا ہی تھا مگر ایک ذمہ دار افسر کو عدالت بلانے کا یہ کیا طریقہ ہے؟حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ بیوروکریسی کے خلاف کسی کاروائی سے پہلے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ان پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا جائے تاکہ سول سرونٹس کے تحفظات کو جلد از جلد دور کیا جا سکے،ورنہ کہاں کی گورننس اور کونسی حکومتی رٹ؟ پنجاب کے دو محنتی اور اچھے سیکرٹریوں احسان بھٹہ اور آصف بلال لودھی کے درمیان زیادہ سے زیادہ صوبائی محکموں میں پوسٹ ہونے کا مقابلہ جاری ہے،پنجاب حکومت نے بھی تہیہ کر رکھا ہے کہ ان دونوں کو کسی ایک محکمے میں ٹکنے نہیں دینا اور بار بار بدلنا ہے، دیکھتے ہیں کون فاتح بنتا ہے۔ ایک اور مقابلہ لاہور کے دو اعلیٰ افسران کے درمیان جاری ہے یہ مقابلہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے اور غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کا ہے،ایک کو موجودہ اور دوسرے کو سابقہ حکمرانوں کی آشیر باد حاصل ہے۔ پنجاب حکومت ان دنوں ایک اور مقابلہ بھی کرا رہی ہے جس کے تحت کئی افسروں کو کئی کئی محکموں کے چارج دینے اور کئی افسروں کو کئی کئی مہینے او ایس ڈی رکھنا ہے،اسی لئے پنجاب حکومت نے تقرری کے منتظر بے شمار سینئر افسروں کی موجودگی میں بھی بلدیات جیسے اہم محکمے کا سیکرٹری ریٹائر ہونے پر اس کا اضافی چارج ہی دیا ہے۔ پنجاب کے ایک اہم سیکرٹری،آئی ڈیپ کے حوالے سے بڑا نام بنا رہے ہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ یہاں کسی کو ٹکنے نہیں دیتے اور کسی نہ کسی طریقے سے اپنا تسلط یہاں قائم کئے ہوئے ہیں،ان کی اس ادارے میں اتنی دلچسپی اور محبت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی،اسی طرح پنجاب کے ایک کمشنر ڈی ایچ اے لاہور کے فیز آٹھ میں اپنے نئے اور بڑے گھر کے حوالے سے افسروں کی باہمی بات چیت میں بڑے ان ہیں جبکہ پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد زمان کی طرف سے پنجاب سول سیکریٹیرٹ اور دوسرے سرکاری محکموں کی عمارات کی تعمیر نو کے کام کو سراہا جا رہا ہے۔

سٹاک مارکیٹ میں تیزی،انٹربینک میں ڈالر مزید سستا ہو گیا

QOSHE -       گورننس اور حکومتی رٹ،تمام شد؟ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      گورننس اور حکومتی رٹ،تمام شد؟

9 0
18.12.2023

سول سروس اور گورننس کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور سول سروس ہی حکومتی رٹ کو برقرار رکھتی ہے، سول سرونٹس آسودہ اور ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں تو ہی گڈ گورننس ممکن ہوتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ کہ یہ سول سرونٹس ہی ہیں جو حکومت اور حکمرانوں کو مناسب فیصلہ سازی کے قابل بناتے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، حکمرانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جبکہ سول سرونٹس30یا 35سال مستقل سروس کرتے ہیں، انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے کا تجربہ ہوتا ہے، کئی بار تو وہ ایک ہی شعبے میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے اس مخصوص شعبے کے تمام امور کے ایکسپرٹ بن جاتے ہیں، اس لیے انہیں پتا ہوتا ہے کہ کسی ایشو پر ماضی میں کیا فیصلے کیے گئے تھے،کیا پالیسیاں اور کیا اقدامات کیے گئے تھے۔ سول سرونٹس ماضی کے ان تمام معاملات کو مد نظر رکھ کر حال کے تقاضوں کا ادراک کرتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کی پیش بینی کر کے حکومتوں اور حکمرانوں کو بہترین تجاویز پیش کرتے ہیں کہ فلاں معاملے میں اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو اس کے ملک و قوم اور حکومت پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے بے شک حکومتیں کرتی ہیں لیکن حکومتوں کو کسی فیصلے تک پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ سول سرونٹس ہی ہوتے ہیں، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے معاملات عجیب سے ہو گئے ہیں، نہ سمجھ آنے والے، لیکن یہ معمہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ ملک میں جب سے نظریاتی سیاست کو ترک کر کے انتقامی سیاست کو رواج دیا گیا ہے، ریاست کے سبھی ستون اس سے متاثر ہوئے ہیں، بیوروکریسی یا دوسرے لفظوں میں سول سروس بھی ان متاثرہ شعبوں میں شامل ہے، انتقامی سیاست یہاں بھی در آئی ہے، قصور کسی کا تھا سزا کسی اور کو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play