اب ہمارا معیار؟ اور بھٹو کی یاد!
آج خلافِ معمول اصل موضوع سے قبل گذارش کرنے پر مجبور ہوں، میرے لکھے پر تنقید و توصیف ہوتی ہے اور یہ ایک معمول ہے جو ہر لکھنے والے کو پیش آتا ہے، میں نے کبھی ان باتوں کو کالم کا حصہ نہیں بنایا کہ بعض دوست تو سوشل میڈیا پر میری پوسٹ کے حوالے سے اپنی رائے دے دیتے ہیں، تاہم اکثر ذاتی طور پر بات کرتے ہیں،جن کو میری بات درست یا اچھی لگتی ہے اس سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور جو لوگ تنقید کرتے ہیں،ان کی بات کو بھی وزن دینا ہوتا ہے، ہر دو طبقات کا شکر گذار ہوں اور اُن سے ہمیشہ کی طرح رہنمائی کا طلبگار ہوں کہ قبر میں جانے تک انسان سیکھتا ہے اور ہم خاکی انسان تو غلطیوں کے پتلے ہیں۔ یہ عرض یوں کرنا پڑی کہ ایک تنقید نگار نے اپنا تعارف کرانے سے گریز کیا اور مسلسل بولتے چلے گئے،ان کا فرمان تھا کہ ہر وہ فرد جو قبر کے قریب ہو جاتا ہے اُسے آخرت یاد آ جاتی ہے،قریباً سبھی بوڑھے اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں۔یہ حضرت بے تکان بول رہے تھے اور انہوں نے طعنہ دیا کہ ’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘ والا معاملہ ہے کہ اب میں وعظ کرنے لگ گیا۔ان صاحب کی ساری گفتگو تو تحریر نہیں کی جا سکتی تاہم یہ عرض کر دوں،ان کو میرے ایک دو ایسے کالموں سے الرجی ہوئی تھی جن میں غزہ کے مسئلے پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے بس پالیسی کا ذکر تھا۔اس کے علاوہ یہ بات بھی بُری لگی تھی کہ میں نے اِس جدید سائنسی دور میں مصنوعی بارش سے انکار کیا اور نمازِ استسقاء کی تلقین کی،ان کا سوال تھا کہ کیا نماز ہوئی اور بارش ہو گئی۔
پیٹرول سیکٹر پر ٹیکسز بہت زیادہ ہیں،60 روپے فی لیٹر پیٹرول لیوی پر نظرثانی کی ضرورت ہے،وزیر توانائیمیں وضاحت کرنا چاہتا تھا،لیکن وہ صاحب اپنا غصہ نکال کر فون بند کر گئے،افسوس صرف یہ ہے کہ اپنی کہے گئے اور میری بات نہ سنی اِس لئے مجبوراً آج اس کالم کا سہارا لیا ہے،تو عرض یہ ہے کہ نہ میں کوئی پارسا، نہ واعظ اور نہ ہی عالم و معلم ہوں،میں خود ایک گناہ گار انسان ہوں اور اللہ سے معافی مانگتا رہتا ہوں تاہم ایک بات پر........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website