گزشتہ دِنوں سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولتوں کا بہت چرچا رہا، حتیٰ کہ اب رانا ثناء اللہ نے بھی کہا ہے کہ خان صاحب کو جیل میں دیسی مرغی ملتی ہے، اس سے قبل ان کو جب اٹک جیل میں رکھا گیا تھا تو بہت احتجاج کیا گیا،ان کی اہلیہ اور وکلاء کی طرف سے الزام تھا کہ ان کو ایک تنگ کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے پھر اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست دائر ہوئی اور اس کی سماعت ہی کے دوران کپتان نے اٹک جیل سے اڈیالہ منتقلی سے انکار کیا،لیکن یہ دیر سے ہوا اور منتقلی کے احکام جاری ہو گئے۔اٹک جیل انتظامیہ کی طرف سے جواب دیا گیا تھا کہ قواعد ے مطابق حوالاتی کو تمام سہولتیں دی جاتی ہیں،ان کے لئے باتھ روم (واش روم) نیا بنایا گیا اور کمرہ بھی بڑا کیا گیا،جبکہ وہ اپنے اخراجات پر پسند کی خوراک کھانے میں بھی آزاد ہیں، جب وہ اڈیالہ جیل گئے تو یہاں کی حالت کے بارے میں بھی بہت احتجاج کیا گیا،چنانچہ سرکاری طو پر ان کو ایکسر سائز مشین مہیا کی گئی،ان کے کمرے کو ایک دوسرے کمرے کی دیوار توڑ کر وسیع کمرہ بنایا گیا،کولر، چار پائی، پنکھا اور جاء نماز دیا گیا، جبکہ یہاں بھی واش روم نیا بنایا گیا حتیٰ کہ ان کے پھرنے یا چہل قدمی کے لئے بھی گنجائش پیدا کی گئی، یہاں بھی خوراک ان کی پسند کے مطابق دیسی مرغی، مٹن اور پسند کی سبزی پر مشتمل ہے، ان کو خدمت کے لئے دو قیدی دیئے گئے،آٹھ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے حوالے سے پانچ ڈاکٹروں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ یوں ہمہ وقت طبی خدمات(میڈیکل سروس) بھی حاضر ہیں، اس کے باوجود احتجاج کیا گیا۔

اینیمل میں بوبی دیول کے کردار پر ان کی والدہ پرکاش کور کا موقف بھی آگیا

اِس سلسلے میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ معلومات شیئر کروں گا تو عرض ہے کہ جیل کوئی بھی ہو اس کے حکام زیر حراست افراد کی حیثیت کے حوالے سے اپنا رویہ متعین کرتے ہیں،جہاں تک سیاسی اسیروں کا تعلق ہے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ممکنہ سہولت دی جاتی ہے۔جیل حکام ایسی سہولت دے کر یہ خواہش کرتے ہیں کہ اسیر حضرات سے جب ملنے والے افراد آئیں تو وہ ان سے سہولتوں کا ذکر کرنے کی بجائے جیل حکام کے رویے کی شکایت کریں اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے تاہم اس حوالے سے بھی مستثنیات ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلزپارٹی والوں کے ساتھ ہوا اور محمد نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ پر خصوصی توجہ دی گئی اور کپتان کی مرضی کے مطابق بعض سہولتیں واپس بھی لی گئیں، جس کا ذکر ان سب حضرات نے کیا ہے۔

ہراسانی سے تنگ آکر اداکارہ کی خودکشی ، بھارتی اداکار کو گرفتار کرلیاگیا

میں اس حوالے سے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہنا چاہتا یہ سب عدلیہ اور وکلاء کے حوالے سے میں میڈیا میں آ چکا اور سب لوگ جانتے ہیں، میں تو آج اپنے چند تجربات شیئر کرتا ہوں۔ ابتدا70ء سے کریں تو اس دہائی میں ڈاکٹر جہانگیر بدر سے ملاقات کے لئے جانا ہوتا تھا تو اُن کی والدہ گھر سے کھانا پکوا کر لاتیں جو درجنوں افراد کے لئے کافی ہوتا۔جہانگیر سے تب ملاقات جیل کے دفاتر کے ساتھ ملحق ایک کمرے میں ہوتی تھی،ایک دور میں اللہ مغفرت کرے باغبانپورہ والے بابو مشتاق بھی سنٹرل جیل کورٹ لکھپت میں تھے وہاں ان کی بدر سے دوستی تھی، چنانچہ یہ معلوم ہوتا کہ اندر جیل کے کھانے کی بجائے یہ لوگ اپنا پکواتے اور کھاتے ہیں غالباً تب بھی ذاتی ادائیگی کا طریقہ رائج ہو گا اِس سلسلے میں جو دلچسپ بات ہے وہ یہ تھی کہ یہ دوست جیل حکام کی درخواست کے مطابق ہم سب سے یہی کہتے کہ واپس جا کر ان سہولتوں کے حوالے سے نہ بتائیں،بلکہ کہیں کہ تنگ کیا جا رہا ہے۔جیل حکام سیاسی رہنماؤں کا بہرطور خیال رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا ٹرول نے گھٹیا تبصرے سے شاہ رخ خان کو بھی غصہ دلا دیا

اب ذرا خود اپنا ذاتی تجربہ بیان کروں تو1974ء میں مئی، جون کی سخت گرمی میں پی ایف یو جے نے مساوات سے 39کارکنوں کی برطرفی کے خلاف تحریک شروع کی اور جلد ہی یہ سول نافرمانی کی شکل اختیار کر گئی کہ ہر روز پانچ افراد دفعہ144کی خلاف ورزی کر کے گرفتاری پیش کرتے تھے۔ اس تحریک میں بھی و کلاء، سول سوسائٹیز، مزدوو، اخباری صنعت کے تمام شعبوں کے کارکن اور صحافی شامل تھے۔ ابتداء میں میرے ذمہ قانونی پیروی اور جیل جانے والوں کا خیال رکھنا اور ان کو کھانا پہنچانا تھا، میں یہ فرائض بخوبی ادا کرتا رہا۔ ایک روز میری اپنی باری آ گئی چنانچہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق گرفتار ہوئے اور ایک رات سول لائنز حوالات میں گزار کر اگلے روز جیل چلے گئے۔معلوم ہوا کہ تحریک والوں کو بیرک نمبر 10 میں رکھا گیا ہے اور یہ بیرک تحریک والوں کے آنے سے پہلے خالی کرا لی گئی تھی، صرف ایک حوالاتی تھا جس کے خلاف قتل کا مقدمہ چل رہا تھا ہم جب گئے تو معمول کے مطابق پہلے سے موجود سلیم، عاصمی، عبدالحمید چھاپرا اور افضل خان نے خوش آمدید کہا، پہنچتے ہی ایک واقعہ پیش آیا کہ ہماے ایک ورکر غلطی سے بیرک سے نکل کر چکر کی طرف چلے گئے وہاں جیل اہلکاروں نے ان کو روک کر بدتمیزی کی، جب ہمیں پتہ چلا تو ہم نے سخت احتجاج کیا اور پھر باہر اطلاع بھیج دی کہ کارکن پر تشدد ہوا ہے،ان دِنوں پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور حاکمین خان وزیر جیل تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے اپوزیشن سے کہہ کر تحریک التواء پیش کرا دی جب تحریک سامنے آئی تو جواب دہی ملک حاکمین خان کے ذمہ تھی،وہ سپیکر سے مہلت لے کر جیل چلے آئے جہاں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں ابتدائی تحقیق ہوئی جب ہم متاثرہ کارکن کو لے پہنچے تو ملک حاکمین نے مجھے دیکھتے ہی نعرہ لگا دیا، میرا بھرا آ گیا ”ہُن کوئی فکر نہیں“ جب بات ہوئی تو وہ بار بار کہتے ”ایڈجون منٹ موشن“(تحریک التوا) بات چیت شروع ہوئی۔میں نے بتایا تشدد کیا گیا، لہٰذا معذرت کی جائے، بیرکس میں گرمی بہت ہے، رات کو جلد بند کیا جاتا ہے، ملاقات میں مشکل ہے، ملک صاحب نے بلا تردد سب مان لیا، اہلکار سے معذرت کے بعد پنکھے لگائے اور رات 10بجے کے بعد بیرک بند کرنے کا فیصلہ ہوا،اس کے بعد سپرنٹنڈنٹ نے مجھے ڈیوڑھی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں ڈیوٹی پر مامور کیا کہ روزانہ آنے والوں کو خوش آمدید کہوں، ان دِنوں موبائل نہیں تھے، چنانچہ لینڈ لائن فون کے استعمال کی بھی اجازت مل گئی، میں باہر بات کر لیتا اور ساتھ ہی اپنے گھر والوں کی خیر خیریت بھی پوچھ لیتا تھا۔

روسی صدر کا چھٹی مدت کے لیے بھی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان

اس کے علاوہ میرا ذاتی تجربہ ایک اور ہے کہ لاہور کے ایک نامور شخص(فوت ہو چکا نام کی ضرورت نہیں) قتل کے الزام میں اندر آ گیا تھا اُس نے عدالت سے بی کلاس لے رکھی تھی،اس کی مرحوم افضل خان سے دوستی تھی اور ہمارا بھی جاننے والا اور محلے دار تھا۔ایک روز افضل خان کے کہنے پر میں ان کو لے کر متعلقہ فرد سے ملنے گیا تو حیران ہو گیا، اُسے دو کمروں، صحن اور باورچی خانے پر مشتمل جگہ دی گئی تھی اور ایک قیدی خدمت گار تھا۔ایک کمرہ گودام کی صورت تھا اس میں روح افزا سمیت، مختلف مشروبات کے کریٹ، اوپر سے نیچے لگے ہوئے تھے، دیسی گھی اور لوازمات بھی تھے انہوں نے ہماری بھی خاطر تواضع کی اور پوچھا کوئی تکلیف ہو تو بتائیں۔

ہنر اور محنت کے بغیر قسمت کے ستارے بھی ساتھ نہیں دیتے‘ کیارا ایڈوانی

میں نے یہ ایک رخ ہی دکھایا،دوسری طرف حالات یہ تھے کہ مارشل لاء کے بعد ذوالفقار علی بھٹو قتل کے الزام میں سنٹرل جیل بھیجے گئے،تب بھی جہانگیر بدر، مولانا شاہ احمد نورانی کی توہین والے کیس میں اندر تھا،اُسے ایک سال قید اور پانچ کوڑوں کی سزا تھی۔ بھٹو صاحب کو ایک چھوٹی کوٹھڑی میں رکھا گیا اور سابق وزیراعظم کے باوجود کوئی سہولت نہ دی گئی،اس کے علاوہ اوپر سے حکم آتا کہ ان کو تنگ کرو کہ ٹوٹ جائیں،لیکن ایسا نہیں ہو رہا تھا پھر ایک روز ایک میجر صاحب تشریف لائے ان کو ہدایت تھی کہ جو شخص کوڑوں کی سزا والا ہے اُسے فوراً کوڑے لگائے جائیں اور بھٹو کو نظارہ کرایا جائے۔یہ ”مجرم“ بدر ہی تھا،اگرچہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے اس عذر کی بناء پر کہ ابھی بدر کی اپیل زیر سماعت اور باقی ہے لہٰذا عملدرآمد نہیں ہو سکتا تاہم میجر مصر رہا اور بدر کو بھٹو صاحب کے سامنے ٹکٹکی پر باندھ کر پانچ کوڑے لگا دیئے گئے۔اس دور میں جیل حکام بہت احتیاط کرتے تھے بھٹو صاحب سے معذرت کرتے ر ہتے تھے۔

مریم نفیس نے عثمان خالد بٹ کو جگر کا ٹکڑا قرار دیدیا

بات طویل ہو گئی یہاں ختم کرتا ہوں کہ یہ تو جانے پہچانے اور لیڈر لوگوں کا حال ہے، اصل حالت دیکھنا ہو تو ان زیر حراست افراد کی دیکھیں جو نہ صرف غریب بلکہ کسی سفارش والے بھی نہیں ہوتے،اُن کا بُرا حال ہوتا ہے اور ان سے کئی طریقوں سے پیسے بھی اینٹھے جاتے ہیں،ان کا سامان خوردبرد کیا جاتا اور کچی بیرکوں میں رکھا جاتا ہے اِس لئے میں جیل حکام کی رپورٹ کو درست سمجھتا ہوں، خان صاحب کو یہ سب سہولتیں یقینا حاصل ہیں!

QOSHE -         خان صاحب، جیل اور حکام کا رویہ؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        خان صاحب، جیل اور حکام کا رویہ؟

7 1
09.12.2023

گزشتہ دِنوں سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو جیل میں ملنے والی سہولتوں کا بہت چرچا رہا، حتیٰ کہ اب رانا ثناء اللہ نے بھی کہا ہے کہ خان صاحب کو جیل میں دیسی مرغی ملتی ہے، اس سے قبل ان کو جب اٹک جیل میں رکھا گیا تھا تو بہت احتجاج کیا گیا،ان کی اہلیہ اور وکلاء کی طرف سے الزام تھا کہ ان کو ایک تنگ کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے پھر اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست دائر ہوئی اور اس کی سماعت ہی کے دوران کپتان نے اٹک جیل سے اڈیالہ منتقلی سے انکار کیا،لیکن یہ دیر سے ہوا اور منتقلی کے احکام جاری ہو گئے۔اٹک جیل انتظامیہ کی طرف سے جواب دیا گیا تھا کہ قواعد ے مطابق حوالاتی کو تمام سہولتیں دی جاتی ہیں،ان کے لئے باتھ روم (واش روم) نیا بنایا گیا اور کمرہ بھی بڑا کیا گیا،جبکہ وہ اپنے اخراجات پر پسند کی خوراک کھانے میں بھی آزاد ہیں، جب وہ اڈیالہ جیل گئے تو یہاں کی حالت کے بارے میں بھی بہت احتجاج کیا گیا،چنانچہ سرکاری طو پر ان کو ایکسر سائز مشین مہیا کی گئی،ان کے کمرے کو ایک دوسرے کمرے کی دیوار توڑ کر وسیع کمرہ بنایا گیا،کولر، چار پائی، پنکھا اور جاء نماز دیا گیا، جبکہ یہاں بھی واش روم نیا بنایا گیا حتیٰ کہ ان کے پھرنے یا چہل قدمی کے لئے بھی گنجائش پیدا کی گئی، یہاں بھی خوراک ان کی پسند کے مطابق دیسی مرغی، مٹن اور پسند کی سبزی پر مشتمل ہے، ان کو خدمت کے لئے دو قیدی دیئے گئے،آٹھ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے حوالے سے پانچ ڈاکٹروں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ یوں ہمہ وقت طبی خدمات(میڈیکل سروس) بھی حاضر ہیں، اس کے باوجود احتجاج کیا گیا۔

اینیمل میں بوبی دیول کے کردار پر ان کی والدہ پرکاش کور کا موقف بھی آگیا

اِس سلسلے میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ معلومات شیئر کروں گا تو عرض ہے کہ جیل کوئی بھی ہو اس کے حکام زیر حراست افراد کی حیثیت کے حوالے سے اپنا رویہ متعین کرتے ہیں،جہاں تک سیاسی اسیروں کا تعلق ہے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ممکنہ سہولت دی جاتی ہے۔جیل حکام ایسی سہولت دے کر یہ خواہش کرتے ہیں کہ اسیر حضرات سے جب ملنے والے افراد آئیں تو وہ ان سے سہولتوں کا ذکر کرنے کی بجائے جیل حکام کے رویے کی شکایت کریں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play