مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف نے مسلم لیگ(ق) کے مرکزی صدر چودھری شجاعت حسین سے ان کی رہائش پر ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان مل کر چلنے پر اتفاق ہوا اور یہ بھی طے پایا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی، بعض اہم نشستوں کے حوالے سے خبر بھی چھپی ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات پندرہ سال کے بعد ہوئی، اگرچہ اس عرصے میں چودھری شجاعت حسین اور شریف فیملی کے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی کہ چودھری شجاعت بہت صلح جو شخصیت ہیں اور تعلقات کو اہمیت بھی دیتے ہیں، یہ ٹھیک کہ نواز، شجاعت اتنے سالوں بعد ہی ملے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصہ میں جب تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا معاملہ تھا تو محمد شہبازشریف اس گھر میں آئے تھے اور یوں اس ملاقات کی راہ بھی تب سے ہموار تھی، اس کے علاوہ اسے حسن اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس گھر میں تین سابق وزیراعظم خوشگوار موڈ میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے رہے۔ محمد نوازشریف کے حوالے سے یہ تاثر مضبوط کیا گیا کہ وہ بہت سنجیدہ ہیں، یہ درست نہیں وہ ہروقت ایسے موڈ میں نہیں ہوتے البتہ ان کو بات سننے میں ملکہ حاصل ہے اور بات کو دل میں رکھنا بھی جانتے ہیں حالانکہ جب وہ نجی نوعیت کی مجلس میں ہوں تو ان کے قہقہے کی آواز بھی بلند ہوتی ہے، ان کو لطیفے بھی ازبر ہیں۔

تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ سے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی

پندرہ سال بعد ملاقات کا ذکر ہوا تو چودھری پرویز الٰہی زیر گفتگو نہ آ سکے کہ انہوں نے چودھری شجاعت سے بھی راہیں جدا کرلی ہیں اور تحریک انصاف کے ساتھ ہیں وہاں وہ اب پھر سے مرکزی صدر بنا ئے گئے ہیں اب وہ زیرحراست جیل میں مقدمات کا سامنا کرتے اور اپنی ثابت قدمی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

اس حالیہ ملاقات کے پس منظر میں بہت کچھ یاد آیا تاہم ایک واقعہ ایسا ہے جس کی وجہ سے چودھری پرویز الٰہی کے دل میں مسلم لیگ(ن) خصوصاً شہبازشریف کے حوالے سے گانٹھ بندھ گئی ہوئی تھی جو اب تحریک انصاف میں لے گئی حتیٰ کہ کزن بھی جدا ہو گئے، یہ واقعہ محمد شہبازشریف کے دور وزارت اعلیٰ کا ہے ان دنوں بھی چودھری پرویز الٰہی سپیکر تھے۔ ایک روز اچانک ان کی طرف سے ہنگامی پریس کانفرنس کی دعوت موصول ہوئی۔ بھاگم بھاگ ایف سی کالج روڈ پہنچا مجھ سے چند ہی لمحے قبل برادرم اشرف ممتاز(مرحوم) آ چکے تھے۔ ہم اور چند دوسرے دوست چودھری پرویز الٰہی کے منتظر تھے۔ اس عرصہ میں علم ہو گیا تھا کہ انتظامیہ کی طرف سے چودھری پرویز الٰہی کی فیملی مل پر چھاپہ مارا گیا اور ان کے والد چودھری منظور الٰہی کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ ہم منتظر تھے کہ پرویز الٰہی آج کوئی اہم ترین اعلان کریں اور شاید مسلم لیگ (ن) سے راہیں جدا کرلیں، تھوڑی دیر میں چودھری پرویز الٰہی آ گئے،رنجیدگی اور غصہ ان کے چہرے سے ظاہر تھا، ہم نے ان سے بات شروع کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواباً تھوڑا انتظار کے لئے تجویز دی کہ سب دوست آجائیں، اس عرصہ میں ان سے عام گفتگو ہو رہی تھی کہ گھر کے اندر سے ایک ملازم نے آکر اطلاع دی کہ چودھری شجاعت حسین کا فون ہے۔ یہ فون کال لندن سے تھی کہ چودھری شجاعت ملک میں نہیں تھے۔ چودھری پرویز الٰہی اٹھ کر فون سننے چلے گئے، ہم سب ان کا انتظار کرنے لگے اور یہ وقت یوں پورا ہوا کہ انہوں نے آتے ہی معذرت کی اور پریس کانفرنس ملتوی کر دی اور اصرار پر صرف اتنا بتایا کہ بڑے چودھری صاحب نے روک دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کو واپس آ لینے دیں، چنانچہ یہ مرحلہ اس روز بھی چودھری شجاعت حسین کے مفاہمانہ رویے کی وجہ سے گزر گیا اور پھر بعد میں ”مٹی پاؤ“ ہو گیا۔ خبر بنتے بنتے رہ گئی لیکن جو رنجش دل میں تھی وہ اب تک موجود ہے اور چودھری پرویز الٰہی اب تحریک انصاف کے ساتھ گئے تو ”وڈے چودھری“ صاحب کا بھی لحاظ نہیں کیا، اس قطع تعلق کی وجہ نوجوان نسل خصوصاً مونس الٰہی کو بتایا جاتا ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے دل میں جب سے پھانس لگی وہ حالات میں تو ڈھل گئے لیکن رنج نہیں گیا تھا۔

شیخ رشید کتنے حلقوں سے الیکشن لڑیں گے؟ سربراہ عوامی مسلم لیگ نے بتا دیا

یہ سب یاد آ گیا کہ چودھری شجاعت حسین تو محمد شہبازشریف کی آمد پر ہی مان گئے ہوئے تھے اور ان کی جماعت اتحادی حکومت میں شامل تھی۔ اس لئے قائد مسلم لیگ (ن) کی آمد میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یوں بھی نوازشریف نے اپنے وعدے کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے بعد ایک قدم اور بڑھا لیا ہے اور اب ان کو مسلم لیگ(ق) کی حمائت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ یوں وہ منظر پھر سے ابھر رہا ہے جس کے تحت محمد شہباز شریف وزیراعظم بنے تھے۔ اب محمد نواز شریف بھی مخلوط حکومت کی طرف ہی پیش قدمی کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں تسلیم بھی کیا تھا کہ مخلوط حکومت ہو گی۔

جنوبی افریقہ کے فاسٹ باؤلر جیرالڈ کوٹزی نے شادی کر لی

میری توقعات کے عین مطابق بات اسی طرف بڑھ رہی ہے جس کے حوالے سے سوچا گیا تاہم ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کہ اب تک جو بھی ہوا، اس سے پیپلزپارٹی مطمئن تو کیا خوش بھی نہیں ہے ان کو اپنے کمبل کی پڑ گئی ہے کہ چوری نہ ہو جائے، اس لئے دیکھنا ہوگا کہ محمد نوازشریف کی آصف علی زرداری سے ملاقات ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر ہوگئی تو بات کہاں تک پہنچے گی کہ اب تک تو سندھ سے وفاق تک جو اتحاد ہے وہ پیپلزپارٹی مخالف ہی ہے اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کو خون گرمانے کا موقع بھی مل رہا ہے کہ ان کی تربیت اور سیاسی زندگی ہی گرم سیاست میں گزری اور اب ان کو بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں لہو گرم رکھنے کا بہانہ مل رہا ہے۔ اگرچہ آصف علی زرداری اب بھی اپنے مزاج کے مطابق سنجیدہ بزرگی کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ان کے حلقہ کو ہاتھ ڈالیں اور وہ چپ چاپ برداشت کرلیں۔ ایم کیو ایم کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کے بعد اس جماعت کی طرف سے حال ہی میں بعض ایسی باتیں کی گئیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پھر سے واپس اپنی سیاست پر آ گئی ہے کہ ان کے مطالبات میں مہاجر،مہاجر والی گردان شروع ہے اور اب تو ان کی طرف سے یہ کہہ کر کہ سندھ تو تقسیم ہو چکا ہے،صرف وقت کی بات ہے۔ پیپلزپارٹی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے، اس سے قبل آئین کے بارے میں منفی بات کی گئی تھی اور پھر تنقید کے بعد اسے آئینی اصلاحات کے حوالے سے 18ویں ترمیم کے لئے تین ترامیم پیش کرکے سنبھالنے کی کوشش کی گئی۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف درخواست پر سماعت آج ہوگی

بہرحال میں تو اب بھی قومی مفاہمت ہی کا قائل اور یقین رکھتا ہوں کہ بات آگے بڑھے گی اور ہم ایک قوم بن ہی جائیں گے کہ مسائل اس اتفاق رائے کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ قارئین دل تو جیل اور سیاستدان کے حوالے سے لکھنے کو چاہ رہا تھا لیکن یہ ملاقات زیادہ اہم ہو گئی انشاء اللہ آپ کو جیل کے حوالے سے بھی حالات بتائیں گے۔

QOSHE -          مفاہمت ہی بہترین عمل اور حل ہے! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         مفاہمت ہی بہترین عمل اور حل ہے!

6 0
08.12.2023

مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف نے مسلم لیگ(ق) کے مرکزی صدر چودھری شجاعت حسین سے ان کی رہائش پر ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان مل کر چلنے پر اتفاق ہوا اور یہ بھی طے پایا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی، بعض اہم نشستوں کے حوالے سے خبر بھی چھپی ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات پندرہ سال کے بعد ہوئی، اگرچہ اس عرصے میں چودھری شجاعت حسین اور شریف فیملی کے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی کہ چودھری شجاعت بہت صلح جو شخصیت ہیں اور تعلقات کو اہمیت بھی دیتے ہیں، یہ ٹھیک کہ نواز، شجاعت اتنے سالوں بعد ہی ملے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصہ میں جب تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا معاملہ تھا تو محمد شہبازشریف اس گھر میں آئے تھے اور یوں اس ملاقات کی راہ بھی تب سے ہموار تھی، اس کے علاوہ اسے حسن اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس گھر میں تین سابق وزیراعظم خوشگوار موڈ میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے رہے۔ محمد نوازشریف کے حوالے سے یہ تاثر مضبوط کیا گیا کہ وہ بہت سنجیدہ ہیں، یہ درست نہیں وہ ہروقت ایسے موڈ میں نہیں ہوتے البتہ ان کو بات سننے میں ملکہ حاصل ہے اور بات کو دل میں رکھنا بھی جانتے ہیں حالانکہ جب وہ نجی نوعیت کی مجلس میں ہوں تو ان کے قہقہے کی آواز بھی بلند ہوتی ہے، ان کو لطیفے بھی ازبر ہیں۔

تحریک انصاف نے لاہور ہائیکورٹ سے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی

پندرہ سال بعد ملاقات کا ذکر ہوا تو چودھری پرویز الٰہی زیر گفتگو نہ آ سکے کہ انہوں نے چودھری شجاعت سے بھی راہیں جدا کرلی ہیں اور تحریک انصاف کے ساتھ ہیں وہاں وہ اب........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play