جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن بہت خوش قسمت سیاستدان ہیں کہ ان کو آؤٹ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور انہوں نے صاحبزادگان کی وراثتی جنگ میں کامیابی کے بعد سے اب تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان کو ایک سے زیادہ بار آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ حنیف محمد کی طرح وکٹ پر جم کر کھڑے رہے، حتیٰ کہ ان کے اپنے دھرنے میں ان کو ڈبل کراس بھی کیا گیا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب ان کے سب سے بڑے محب جنہوں نے صاحبزادگان کی کشمکش میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی جدوجہد اور بے باکی نے امارت جماعت کی لڑائی میں فتح دی اور دوسرے صاحبزادگان اپنی اپنی کٹیا میں واپس ہو گئے ان میں سے ایک تو سیاست ہی سے دستبردار ہوئے۔ ایک نے اپنی جمعیت تشکیل دی اور وہ اب اسی میں خوش ہیں جبکہ ایک حریف صاحبزادے نے ان کی امارت تسلیم کرلی اور اب ایک بڑے عہدیدار بھی ہیں۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر سماعت آج ہو گی

قارئین! میں بوجوہ نام نہیں لکھ رہا، میں اپنے رپورٹنگ کے دور میں اس ساری کشمکش، عروج و ترقی کا عینی شاہد بھی ہوں، اسی دور اور جدوجہد کے دور سے مولانا سے تعلقات بھی خوشگوار ہیں، اگرچہ یہ تعلق جب بنا، جب ان کے والد محترم مفتی محمود حیات اور جماعت کے امیر تھے اور جماعت ایک تھی، مولانا شیرانی تب سے مفتی صاحب کے احترام میں صاحبزادہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رہے اور عدم اعتماد سے پہلے والے دور میں ان سے الگ ہوئے مولانا محترم کو ڈبل کراس کے معاملے میں، اپنے بڑے چودھری شجاعت حسین بھی شامل تھے جنہوں نے پشاور روڈ چوک کا دھرنا ختم کرانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں یقین دہانی بھی کروائی، مولانا خود بتا چکے ہوئے ہیں کہ ان کی ملاقات جنرل (ر) باجوہ سے ہوئی اور ان سے وعدہ کیا گیا کہ عام انتخابات کرا دیں گے۔

العزیزیہ ریفرنس: سابق وزیراعظم نوازشریف کی اپیل پر سماعت آج ہوگی

اپنے مولانا فضل الرحمن سیاست کے افق پر 1988ء میں زیادہ چمکے تھے کہ مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ خان (مرحومین) کی دوستی بھی ان کے کام آئی اور اب ان کو نواب صاحب مرحوم کے جانشین کے طور پر گردانا جاتا ہے۔ بعض لوگ حسد کرتے اور بُرا بھلا بولتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست میں جو کوئی بھی آئے اس کی منزل اقتدار ہی ہوتا ہے اس لئے یہ طعنہ نہیں بنتا کہ مولانا کو اسلام کی بجائے اسلام آباد کی زیادہ فکر ہے، یہ بات حال ہی میں پرویز خٹک نے کی جو خود اب اپنی سابقہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرکے پیپلزپارٹی کے راؤ سکندر اقبال (مرحوم) کی طرح پیٹریاٹ کی جگہ آصف علی زرداری کی طرح پارلیمنٹیرین کا لاحقہ لگا کر خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سب کو ہرا کر یہ اعزاز حاصل کریں گے۔

پاک فوج خون کے آخری قطرے تک وطن کی حفاظت کرے گی: آرمی چیف

جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو اگر وہ ملکی صدارت کی خواہش رکھتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔ آخر کار یہاں چودھری فضل الٰہی بھی تو صدر رہے اور اب ڈاکٹر عارف علوی کیسے خوش نصیب ہیں کہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہو جانے کے باوجود صدارت پر تشریف رکھتے ہیں اور نگران حکومتوں کے بارے میں دوسری نوعیت کے خیال رکھتے ہیں۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ابھی گزشتہ ہفتے ہی اپنے کالم میں بتایا تھا کہ مولانا صدارت کے امیدوار ہیں، الحمدللہ کہ یہ خبر یا اطلاع کی دو روز بعد ہی تصدیق ہو گئی جب ان کی جماعت کے ترجمان حافظ حمداللہ نے کہا کہ آنے والی حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہو یا پیپلزپارٹی کی مولانا صدر مملکت ہوں گے۔ اب اگر دوست اسے پہیلی جانیں تو ان کی مرضی کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تو جمعیت کا اتحاد ہو گیا۔ مولانا نے خود بھی اعلان کر دیا ہے لیکن سندھ میں تو مولانا کی جماعت پیپلزپارٹی مخالف اتحاد کا حصہ ہے۔ یوں شاید پیپلزپارٹی سے ان کو حمائت نہ مل سکے، لیکن میرا تجربہ اور مشاہدہ مختلف ہے کہ مولانا فضل الرحمن میں نوابزادہ نصراللہ خان کی قربت کے اثرات بہت ہیں اگر وقت آیا تو وہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے بھی تعاون حاصل کر ہی لیں گے کہ ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے، حتیٰ کہ مفتی محمود (مرحوم) کی صدارت میں متحدہ جمعیت علماء اسلام نے پیپلزپارٹی کے سلوگن ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کے خلاف کفر کے فتویٰ کو رد کرکے سوشلزم کو اقتصادی نظام قرار دیا تھا، یہ میرے روزنامہ امروز کے دور کا ذکر ہے اور زمانہ 1969-70ء کو تھا جب ایشیا سرخ اور ایشیا سبز تھا اور پیپلزپارٹی کے اہم دانشور سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ زور سے لگاتے اورہمارے بائیں بازو کے دانشور سوشلزم کے حامی تھے۔ ایک روز مجھے ہدائت ملی اور میں نے اس دور میں شیرانوالہ دروازہ جا کر مولانا عبیداللہ انور کا انٹرویو کیا تھا اور انہوں نے برملا سوشلزم کے خلاف کفر کے فتویٰ کو رد کیا اور قرار دیا کہ اقتصادی یا مساواتی نظام کو کفر قرار نہیں دیا جا سکتا چنانچہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی کے بہتر تعلقات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جمعیت علماء اسلام اپنے پہلے دور ہی سے ترقی پسند جماعت کے طور پر کام کرتی ہے اور اسی لئے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ بھی جمعیت کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے اور محترمہ بے نظیر بھٹوکے دور میں بھی دونوں جماعتوں میں قربت رہی۔ مولانا نواب زادہ نصراللہ کی طرح کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے جبکہ نوابزادہ نصراللہ 1988ء کے بعد ایوان میں نہ آ سکے تھے، اس لئے مولانا کو ستے خیراں ہیں، البتہ مسئلہ ہم جیسے دوستوں کا ہے کہ مولانا سے ملاقات تو دور کی بات سلام دعا بھی نہیں ہوتی۔

چین نے افغان حکومت کو ہمسایہ ممالک سے متعلق اہم مشورہ دے دیا

یہ اتحادی حکومت کے دور کی بات ہے، میں دوچار دن کے لئے اسلام آباد گیا تو سوچا لگے ہاتھوں مولانا سے تجدید تعلقات ہی ہو جائے۔ میں نے ان کے سیکرٹری کافون لے کر دو دن تک کوشش کی لیکن موصوف نے پیغام تک بھی مولانا تک پہنچنے نہ دیا، جب قومی اسمبلی کے سٹاف ممبران میں سے اپنے ایک برخوردار سے کہا کہ وہ مولانا کی اسلام آباد اور گھر میں موجودگی کا پتہ کر دے کہ ان سے ملا جا سکے تو جواب میں بتایا گیا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر مولانا کے پروگرام سے آگاہ نہیں کیا جا سکتا اور اب تو نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے تصدیق کر دی کہ مولانا کو خصوصی سیکیورٹی دی گئی ہے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے، گنجائش نہیں، باقی پھر کبھی، میں تو مولانا کا خیرخواہ ہوں۔

پی ٹی آئی اور بانی الیکشن میں حصہ لے سکتےہیں, نگراں وزیراعظم

QOSHE -     مولانا فضل الرحمن، اب زیرک سیاست دان ہیں! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    مولانا فضل الرحمن، اب زیرک سیاست دان ہیں!

9 18
07.12.2023

جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن بہت خوش قسمت سیاستدان ہیں کہ ان کو آؤٹ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور انہوں نے صاحبزادگان کی وراثتی جنگ میں کامیابی کے بعد سے اب تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان کو ایک سے زیادہ بار آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ حنیف محمد کی طرح وکٹ پر جم کر کھڑے رہے، حتیٰ کہ ان کے اپنے دھرنے میں ان کو ڈبل کراس بھی کیا گیا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب ان کے سب سے بڑے محب جنہوں نے صاحبزادگان کی کشمکش میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی جدوجہد اور بے باکی نے امارت جماعت کی لڑائی میں فتح دی اور دوسرے صاحبزادگان اپنی اپنی کٹیا میں واپس ہو گئے ان میں سے ایک تو سیاست ہی سے دستبردار ہوئے۔ ایک نے اپنی جمعیت تشکیل دی اور وہ اب اسی میں خوش ہیں جبکہ ایک حریف صاحبزادے نے ان کی امارت تسلیم کرلی اور اب ایک بڑے عہدیدار بھی ہیں۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر سماعت آج ہو گی

قارئین! میں بوجوہ نام نہیں لکھ رہا، میں اپنے رپورٹنگ کے دور میں اس ساری کشمکش، عروج و ترقی کا عینی شاہد بھی ہوں، اسی دور اور جدوجہد کے دور سے مولانا سے تعلقات بھی خوشگوار ہیں، اگرچہ یہ تعلق جب بنا، جب ان کے والد محترم مفتی محمود حیات اور جماعت کے امیر تھے اور جماعت ایک تھی، مولانا شیرانی تب سے مفتی صاحب کے احترام میں صاحبزادہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رہے اور عدم اعتماد سے پہلے والے دور میں ان سے الگ ہوئے مولانا محترم کو ڈبل کراس کے معاملے میں، اپنے بڑے چودھری شجاعت حسین بھی شامل تھے جنہوں نے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play