الیکشن کمیشن نے ایک اور مرحلہ طے کر لیا، حلقہ بندیاں مکمل کرکے اشاعت بھی کر دی ہے، نئی مردم شماری کے بعد یہ عمل ضروری قرار دیا گیا تھا، حالیہ فہرست کے مطابق قومی اسمبلی کے چھ حلقے کم ہو گئے ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے فرق پڑا ہے،اب پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، سندھ میں 61، خیبرپختونخوا میں 45اور بلوچستان میں 16 نشستیں ہوں گی خود الیکشن کمیشن کے مطابق باقی تمام امور بھی تکمیل پا چکے اب 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے شیڈول کا اعلان ہونا ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی تمام سرگرمیوں کا رخ اس طرف ہو جائے گا، اب تک مسلم لیگ (ن)کے علاوہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) متحرک ہیں جبکہ شیڈول کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کی اپنی سرگرمی شروع ہو گی جبکہ سیاسی جماعتیں بھی اپنی اپنی مہم تیز اور شروع کریں گی۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا ہے تاہم اس پر عمل اگر ناممکن نہیں تو مشکل نظر آ رہا ہے کہ ابھی سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی تو شروع ہو گئی اور بظاہر اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی آمنے سامنے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کا رخ زیادہ تر تحریک انصاف کی طرف ہے اور وہ سیاسی طور پر حملہ آور ہیں۔

ون ویلنگ کرتے ہوئے ایک نوجوان جاں بحق

پولیٹیکل سائنس کے اصول کے مطابق سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور سرگرمیوں کا مقصد ہی اقتدار کا حصول ہوتا ہے اس لئے کسی کو یہ طعنہ تو نہیں دیا جا سکتا کہ فلاں فلاں اقتدار کی بھوکی یا بھوکے ہیں، البتہ ہر جماعت اپنے حجم کے مطابق دعویدار ہوتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی مہم چلا رہی ہے، محمد نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کو ”انصاف“ بھی ملنا شروع ہو چکا اور اب صرف ایک سزا باقی رہ گئی اس کے خلاف بھی اپیل سماعت کے لئے منظور کی جا چکی ہے اور جلد ہی فیصلہ بھی ہو جائے گا تاہم یہ واضح نہیں ہو رہا کہ ان کی نااہلیت کا کیا بنے گا۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ اپیلوں کی منظوری اور سزاؤں کے خاتمے کے بعد وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے آزاد ہوں گے لیکن مخالفین تسلیم نہیں کرتے ان کا موقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل کے تحت دی گئی سزا اس وقت تک بحال رہے گی جب تک سپریم کورٹ سے فیصلہ نہیں لیا جاتا کہ سزا سپریم کورٹ نے دی تھی، مسلم لیگ (ن) کے وکلاء کے مطابق قومی اسمبلی نے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال متعین کی ہے۔ آرٹیکل 62۔63کے تحت کسی مدت کا تعین نہیں ہے،اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کرکے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5سال مقرر کی، نواز شریف یہ پانچ سال پورے کر چکے اس لئے اب وہ آزاد ہیں اور الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہیں،لیکن تحریک انصاف کے حلقے اس موقف اور قانون کو نہیں مانتے، ان کا موقف ہے اس سے سپریم کورٹ کا فیصلہ متاثر نہیں ہوگا لہٰذا اس مسئلہ پر پھر عدالتی جنگ شروع ہو گی اور فیصلہ عدالت ہی سے لیا جائے گا۔

لاہور میں طالبات کی بس پر فائرنگ کا واقعہ ، چھ ملزمان گرفتار

دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور انہوں نے خود کو آئندہ کے لئے وزیراعظم کے طور پر پیش کر دیا اور وہ انتخابی مہم میں بھی مصروف ہیں، حال ہی میں ان کے خلاف چاء کی پیالی والا طوفان اٹھا جسے باپ بیٹے نے مل کر ختم کر دیا اور کوئٹہ میں یوم تاسیس کے جلسہ عام میں دونوں باپ بیٹا موجود تھے بلکہ اب تو آصف علی زرداری نے بلاول کو لانا ہے، وزیراعظم بنانا ہے کا اعلان کر دیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے جلسہ میں جوابی طور پر یہ نعرہ لگوا دیا ”اگلی باری، پھر زرداری“……

مسلم لیگ (ن) دبئی نے متحدہ عرب امارات کا 52 واں نیشنل ڈے تزک و احتشام سے منایا

جیسا میں نے عرض کیا ہر سیاسی جماعت کا مقصد ہی اقتدار ہوتا ہے اور وہ بھی مکمل اقتدار ہی چاہتی ہے اس لئے جمعیت علماء اسلام (ف) بھی انتخابی مہم میں ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بہتری کی طرف لے جانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے خود ہی خود کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا اور یقین دلایا گیا کہ وہ ملک کے مسائل حل کرنے کی اہلیت اور ادراک رکھتے ہیں، بعض حضرات کو اس پر حیرت ہوئی تھی لیکن میرے لئے ایسا نہیں ہے کہ میں یقین سے کہہ دیتا ہوں کہ وہ خواہش مند ہیں اور اس بار صدارتی الیکشن میں قسمت آزمائی ضرور کریں گے کہ یہ خواہش 1988ء میں پیدا ہوئی تھی، جب وہ نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کے لئے لابنگ کررہے تھے۔

عجمان میں ایک اور ذائقے دار پاکستانی ریسٹورنٹ کا اضافہ

اس سے یاد آیا کہ 1988ء کے عام انتخابات میں نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمن منتخب اراکین قومی اسمبلی تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف کے درمیان وزارت عظمیٰ کی ریس لگ چکی تھی۔ ایسے میں محترمہ نے نوابزادہ صاحب کو صدارت کے حوالے سے یقین دلایا تھا، ان دنوں فیڈرل لاجز تعمیر نہیں ہوئی تھیں اور ایم این اے ہوسٹل میں سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ نوابزادہ مرحوم اور مولانا فضل الرحمن کے کمرے ایک ہی رو میں تھے، چنانچہ جوڑ توڑ کا مرکز بھی یہی تھے اور کبھی مولانا کی طرف اور کبھی نوابزادہ کی طرف اکٹھ ہوتا، میں ان دنوں روزنامہ امروز کی طرف سے کوریج کے لئے اسلام آباد تھا، چنانچہ دونوں حضرات سے یاد اللہ کی وجہ سے ساری سرگرمیاں دیکھتا تھا یہ حضرات مجھے روکتے بھی نہیں تھے کہ اعتماد کا رشتہ بہرحال قائم تھا، افسوس یہ ہوا کہ محترمہ وزار ت عظمیٰ کے لئے غلام اسحاق خان کو صدر بنانے کی شرط رد نہ کر سکیں تاہم میرا خیال یہ ہے کہ تب سے مولانا کے ذہن میں یہ بھی ہے، بہرحال ابھی حال ہی میں انہوں نے یہ کہا تھا، میں بھی وزیراعظم ہو سکتا ہوں۔ مولانا کا مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ہو گیا اس لئے اب ان کو محمد نوازشریف کی حمائت کرنا ہوگی، لہٰذا صدارت کے لئے آپشن کھلا ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتہ) کا دن کیسا رہے گا؟

اقتدار کے اس دنگل میں تحریک انصاف بھی شامل ہے اور اس نے عمران خان کے بغیر بھی پارٹی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور انٹرا پارٹی الیکشن میں عمران خان بوجوہ جماعت کی قیادت سے دستبردار ہو گئے ہیں اور یہاں مائنس ون ہو گیا جبکہ یہ عمل محترمہ کے لئے کامیاب نہ ہوا اگرچہ بھٹو اور نوازشڑیف کو الگ الگ وجوہ کی بناء پر اقتدار سے باہر رکھا گیا۔ اب وہ اندر ہیں اور بھٹو، بے نظیر کی نمائندگی بلاول بھٹو کررہے ہیں، سرپرستی آصف علی زرداری کی مان لی، دو دو قدم دونوں باپ بیٹے پیچھے ہٹے ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ الیکشن ہوں اور پرامن ہوں کہ سب کہتے ہیں کہ انتخابات ہی سے استحکام آئے گا، حالانکہ اگر کہے پر عمل کیا جائے تو انتخابات سے پہلے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

معروف موٹرسائیکل کمپنی کا پاکستان میں اپنا پلانٹ عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان

QOSHE -       مولانا فضل الرحمن صدارت کے امیدوار ہیں؟ - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      مولانا فضل الرحمن صدارت کے امیدوار ہیں؟

6 8
02.12.2023

الیکشن کمیشن نے ایک اور مرحلہ طے کر لیا، حلقہ بندیاں مکمل کرکے اشاعت بھی کر دی ہے، نئی مردم شماری کے بعد یہ عمل ضروری قرار دیا گیا تھا، حالیہ فہرست کے مطابق قومی اسمبلی کے چھ حلقے کم ہو گئے ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے سے فرق پڑا ہے،اب پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141، سندھ میں 61، خیبرپختونخوا میں 45اور بلوچستان میں 16 نشستیں ہوں گی خود الیکشن کمیشن کے مطابق باقی تمام امور بھی تکمیل پا چکے اب 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے شیڈول کا اعلان ہونا ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی تمام سرگرمیوں کا رخ اس طرف ہو جائے گا، اب تک مسلم لیگ (ن)کے علاوہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) متحرک ہیں جبکہ شیڈول کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کی اپنی سرگرمی شروع ہو گی جبکہ سیاسی جماعتیں بھی اپنی اپنی مہم تیز اور شروع کریں گی۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا ہے تاہم اس پر عمل اگر ناممکن نہیں تو مشکل نظر آ رہا ہے کہ ابھی سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی تو شروع ہو گئی اور بظاہر اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی آمنے سامنے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کا رخ زیادہ تر تحریک انصاف کی طرف ہے اور وہ سیاسی طور پر حملہ آور ہیں۔

ون ویلنگ کرتے ہوئے ایک نوجوان جاں بحق

پولیٹیکل سائنس کے اصول کے مطابق سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور سرگرمیوں کا مقصد ہی اقتدار کا حصول ہوتا ہے اس لئے کسی کو یہ طعنہ تو نہیں دیا جا سکتا کہ فلاں فلاں اقتدار کی بھوکی یا بھوکے ہیں، البتہ ہر جماعت اپنے حجم کے مطابق دعویدار ہوتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو چوتھی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play