پاکستان پیپلزپارٹی نے گزشتہ روز جماعت کا 56واں یوم تاسیس منایا، اس بار بڑی تقریب کوئٹہ میں جلسہ عام کی صورت میں منعقد کی گئی۔ اس میں شراکت اور خطاب کے لئے دونوں باپ بیٹے گئے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دوبئی میں فیملی اکٹھ کے بعد اکٹھے ہی کراچی آ گئے تھے جیسے ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف اور پارٹی پر قبضہ تک کی خبریں چلائی گئیں ان کے مطابق تو ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا لیکن بلاول بھٹو تو آصف علی زرداری کے پہلو میں تھے، یوں فی الحال تو اختلافی غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ اب دیکھئے کیا اختلاف نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر دو حضرات کے درمیان جو چھوٹی سی لکیر ہے وہ ان کے لئے ہی فائدہ مند ہے کہ آصف علی زرداری ایک بزرگ اور تجربہ کار سیاست دان کی حیثیت سے سنبھال بھی لیتے ہیں۔ جہاں تک خبروں کا تعلق ہے تو ہمارے بھائیوں کو اور کچھ نہ ملا تو انہوں نے ایک پرانی بات کو نیا بنا کر چلا دیا کہ بلاول کی شادی ہونے والی ہے اور دبئی میں اکٹھا ہونے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ جو لڑکی پسند کی گئی اس کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ یہ خبر ایک سے زیادہ بار اسی طرح شائع ہوچکی اور اب پھر چلا دی گئی حالانکہ یہ ان کا خاندانی معاملہ ہے اور بہنوں کی خواہش بھی ہے کہ بھائی کے سر پر سہرا سجائیں، تاہم وقت کا تعین وہ سب حالات کے مطابق کریں گے کہ سیاست میں سرگرم بھی ہیں، ابھی تو دونوں باپ بیٹا چار روز تک کوئٹہ میں قیام کریں گے اور اس عرصہ میں آصف علی زرداری اپنے تعلقات آزمائیں گے۔ بلوچستان سے بھی اہم حضرات کو اپنے ساتھ ملائیں گے جیساکہ سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس نے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شمولیت کا اعلان کریں گے۔ آصف علی زرداری وہ شخصیت ہیں جنہوں نے بلوچستان میں بھی اپنا سحر جگایا تھا اور آج جو سینیٹ کے چیئرمین ہیں وہ اسی مرحلے کی دین کے باعث چیئرمین بنے اور ”باپ“ بھی وجود میں آئی۔ اب اس جماعت کے حصے بخرے ہو گئے اور اب اور بھی ہوں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کو بڑی خوشخبری سنا دی

پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کا فیصلہ گوہالہ شریف (سندھ) کے اجتماع یا کنونشن میں ہو گیا تھا جو محترم طالب المولیٰ کی دعوت پر منعقد ہوا تھا، تاہم باقاعدہ قیام کا اعزاز ڈاکٹر مبشر حسن کو ملا اور ان کے گھر گلبرگ میں قریباً ڈھائی سو افراد کی موجودگی میں پارٹی کا باقاعدہ اعلان ہوا، یہ 30نومبر 1967ء کی تاریخ تھی۔ اس اجتماع میں شریک اکثر حضرات وفات پا گئے اس کے باوجود کچھ حضرات ابھی حیات اور جماعت میں بھی ہیں۔

آج کے دن اگر پاکستان پیپلزپارٹی پر قبضہ کی بھرپور کوشش کا ذکر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ جماعت کئی راز داروں کے ہاتھوں بچی اور پھر جب قبضہ ہوا تو وہ بیٹی کا تھا حالانکہ بڑے لوگوں نے آشیرباد کے ساتھ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اسے باباء سوشلزم شیخ رشید نے ناکام بنا دیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو لاہور سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں اسیر قتل کے مقدمہ کا سامنا کر رہے تھے، انہی دنوں یہ شوشا چھوڑا گیا کہ جماعت چلانے کے لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر قائم مقام چیئرمین کا تقرر ہو جائے، یہ سب کرنے والوں نے مصطفےٰ جتوئی (مرحوم) کو یہ شرف بخشنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا، چنانچہ نون وِلا (مسلم ٹاؤن) میں پیپلزپارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا، شیخ رشید (مرحوم) سینئر وائس چیئرمین تھے، صدارت بھی انہوں نے کی جب یہ تجویز پیش کی گئی تو کسی نے یاد دلایا کہ شیخ رشید سینئر وائس ہیں وہی قائم مقام ہوں گے تاہم شیخ رشید اس حقیقت کو بھانپ چکے تھے چنانچہ انہوں نے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا اور پرزور انداز میں کہا کہ وہ اس مرحلہ پر خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتے اور ان کی تجویز یہ ہے کہ بیگم نصرت بھٹو کو قائم مقام چیئرمین بنا دیا جائے، یہ ایک ایسی تجویز تھی جس کا جواب مولاناکوثر نیازی کے پاس نہیں رہا اور شیخ رشید نے اصرار کرکے بیگم بھٹو کو قائم مقام چیئرمین بنوا دیااور پھر انہی کی قیادت میں پیپلزپارٹی جدوجہد کرتی رہی تاآنکہ یہ قیادت بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے پاس نہ آگئی، اس تبدیلی کا بھی پس منظر ہے اور اسے بھی پارٹی پر قبضہ ہی کا نام دیا جا سکتا ہے اگرچہ یہ صاحبزادی نے والدہ سے لی تھی۔ اس کے لئے اس تقریب کو چنا گیا جو اسلام آباد میں جماعت کی ہوئی اور اسے جنرل کونسل قرار دیا گیا،

علی امین گنڈا پور کا سابق پرسنل سیکرٹری گرفتار

اس اجلاس میں اچانک ڈاکٹر جہانگیر بدر (مرحوم) نے ایک قرارداد پیش کر دی جس کے مطابق بے نظیربھٹو کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا گیا تھا۔ یوں یہاں سے بے نظیر بھٹو کا دور شروع ہوا، جو 27دسمبر 2007ء کو ان کی شہادت پر اختتام پذیر ہو گیا اور ان کے بعد ان کی وصیت سامنے آ گئی جس کی رو سے اب آصف علی زرداری شریک چیئرمین اور بلاول بھٹو زرداری چیئرمین ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں بھی ایک ”پدرانہ قبضہ“ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لئے ”دور مشرفیہ“ میں جو قواعد نافذ کئے گئے ان کی وجہ سے ایک ہی روز میں چار پی (P)والی پیپلزپارٹی بنانا پڑی جس کے صدر مخدوم امین فہیم تھے اس جماعت کی رجسٹریشن کرائی گئی اور تلوار کی بجائے تیر کا نشان لیا گیا یوں اس جماعت کی طرف سے ٹکٹ بانٹے گئے، محترمہ کی واپسی کے بعد یہ جماعت بھی ان کے پاس گئی اور جب تک وہ زندہ رہیں، ٹکٹ یہی جماعت جاری کرتی اور تیر کے نشان پر انتخاب میں حصہ لیا جاتا، اب اس کے چیئرمین خود آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے فرحت اللہ بابر کی جگہ نیئر بخاری کو اصلی پیپلزپارٹی سے واپس لے کر سیکرٹری جنرل بنا لیا ادھر یہ عہدہ خالی ہو گیا اسی حوالے سے تو آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ بلاول کو بھی پارٹی ٹکٹ ان کے دستخطوں سے جاری ہوگا حالانکہ اس عرصہ میں 1967ء والی پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی رجسٹر کرا لیا گیا اور اب تلوار کا نشان واپس اس کے پاس ہے۔ غور طلب یہ بات ہے کہ باپ بیٹے میں اگر پارٹی ہی کشمکش کا باعث ہوتی تو بلاول کو بکھیڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی وہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں اور تلوار کا نشان بھی ہے، اس لئے بہتر عمل تو یہ ہوتا ہے کہ تمام پس منظر سامنے رکھتے ہوئے کوئی سٹوری بریک کی جائے۔ بہرحال یوم تاسیس ہی کے روز باپ نے بیٹے کے ساتھ جلسہ عام میں خطاب اور پھر جوڑ توڑ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ اختلاف کہیں دفن ہو چکا ہے۔

قومی شاہراہ پر ٹریفک حادثہ، پیپلزپارٹی کے جلسے سے واپس آنیوالے 5 افراد جاں بحق ہوگئے

QOSHE -   پیپلزپارٹی یوم تاسیس، افواہیں دم توڑ گئیں! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

  پیپلزپارٹی یوم تاسیس، افواہیں دم توڑ گئیں!

6 1
01.12.2023

پاکستان پیپلزپارٹی نے گزشتہ روز جماعت کا 56واں یوم تاسیس منایا، اس بار بڑی تقریب کوئٹہ میں جلسہ عام کی صورت میں منعقد کی گئی۔ اس میں شراکت اور خطاب کے لئے دونوں باپ بیٹے گئے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دوبئی میں فیملی اکٹھ کے بعد اکٹھے ہی کراچی آ گئے تھے جیسے ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف اور پارٹی پر قبضہ تک کی خبریں چلائی گئیں ان کے مطابق تو ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا لیکن بلاول بھٹو تو آصف علی زرداری کے پہلو میں تھے، یوں فی الحال تو اختلافی غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ اب دیکھئے کیا اختلاف نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر دو حضرات کے درمیان جو چھوٹی سی لکیر ہے وہ ان کے لئے ہی فائدہ مند ہے کہ آصف علی زرداری ایک بزرگ اور تجربہ کار سیاست دان کی حیثیت سے سنبھال بھی لیتے ہیں۔ جہاں تک خبروں کا تعلق ہے تو ہمارے بھائیوں کو اور کچھ نہ ملا تو انہوں نے ایک پرانی بات کو نیا بنا کر چلا دیا کہ بلاول کی شادی ہونے والی ہے اور دبئی میں اکٹھا ہونے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ جو لڑکی پسند کی گئی اس کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ یہ خبر ایک سے زیادہ بار اسی طرح شائع ہوچکی اور اب پھر چلا دی گئی حالانکہ یہ ان کا خاندانی معاملہ ہے اور بہنوں کی خواہش بھی ہے کہ بھائی کے سر پر سہرا سجائیں، تاہم وقت کا تعین وہ سب حالات کے مطابق کریں گے کہ سیاست میں سرگرم بھی ہیں، ابھی تو دونوں باپ بیٹا چار روز تک کوئٹہ میں قیام کریں گے اور اس عرصہ میں آصف علی زرداری اپنے تعلقات آزمائیں گے۔ بلوچستان سے بھی اہم حضرات کو اپنے ساتھ ملائیں گے جیساکہ سابق وزیراعلیٰ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play