یہود، فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں۔ وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں وارد ہوئے، یہاں کے قدیم فلسطینیوں کو نکال باہر کیا اورخود ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔ آیندہ صدیوں میں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے اور ان کے ہیکل سلیمانی کو بھی نیست و نابود کردیا گیا۔ ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی اْنھیں منہ نہ لگاتا تھا۔ یہ مسلمان تھے جنھوں نے ان کی دستگیری کی۔ خاص طور پر اندلس کے مسلم حکمرانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، اندلس میں یہود طویل عرصے تک نہایت خوش و خرم رہے اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھرسقوطِ غر ناطہ کے بعد جب عیسائیوں نے انھیں وہاں سے نکالا تو ایک بار پھر پورے جہاں میں انھیں کہیں امان نہ ملی۔ ایسے وقت میں عثمانی ترکوں نے انہیں پناہ دی۔ یہودی سلطان سلیم عثمانی کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارِ گریہ کی جگہ دریافت کر کے اس جگہ کو صاف کرا کے یہود کو وہاں جانے اور گریہ کرنے کی اجازت دی۔

بھارت کی سب سے بڑی کار مینوفیکچرنگ کمپنی ماروتی سوزوکی نے گاڑیوں کے قیمتیں بڑھا دیں

احسان فراموشی یہود کی گھٹی میں پڑی ہے۔ عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ و خوش حال ہوئے تو اْنھوں نے پر پْرزے نکالے اور فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے 1914ء میں ایک قانون کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اور جائیدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ 1916ء میں وہ برطانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔ برطانیہ نے اس درخواست کو اعلانِ بالفور کی شکل میں پذیرائی بخشی۔ جنگ عظیم اوّل کے خاتمے پر برطانیہ نے عربوں سے کیے گئے تمام تر وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کر کے، فلسطین پہنچ رہے تھے اور ’آبادکاروں‘ کی حیثیت سے مختلف حیلوں بہانوں سے اور زور زبر دستی سے بھی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے تھے۔

امیر کویت کے حوالے سے تشویشناک خبر سامنے آگئی

بزم اقبال لاہورکے زیر اہتمام ماہر اقبالیات بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزمان طارق نے خطاب میں بتایا کہ1931ء میں دورہ انگلستان کے دوران، جہاں بھی موقع ملا،علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیں کیا، مثلاً: ایک موقع پر انگریزوں کو اہلِ فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی،اور فرمایا کہ اعلان ِ بالفور بالکل منسوخ کر دینا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ پر مسئلہ فلسطین کی نزاکت اور اہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انھوں نے بذاتِ خود فلسطین کا سفر کیا۔بزم اقبال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تحسین فراقی نے ڈاکٹر وحید الزمان طارق کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علامہ اقبالؒ ایک راسخ العقیدہ اور سچے مسلمان تھے۔ وہ ایک صوفی منش انسان تھے، ان کی شاعری قرآنی آیات پر مبنی ہے۔ ان کے اشعار اس قدر قیمتی ہیں کہ ان کا مول نہیں چکایا جاسکتا۔

عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کی سماعت آج ہوگی

محترم وحید الزمان طارق نے اقبالؒ کے شعر و پیغام کے فروغ کیلئے زندگی بھر قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں لیکن ایک طویل عرصے تک آپ منظر عام سے اپنی فوجی ملازمت اور بیرون ملک قیام کے باعث غائب رہے ہیں۔ زندگی بھر آپ نے کتب لکھیں، شاعری کی اور جہاں بھی رہے اقبالؒ کے پیغام کو عام کرتے رہے۔ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ منشی فاضل سے لے کر فارسی ادب میں ڈاکٹریٹ کی اسناد کے حامل تو اپنے اوائل شباب میں ہی تھے آپ نے قرآن، عرب شاعری اور فارسی شعر و ادب میں اپنا مطالعہ جاری رکھا اور اقبالؒ کو فارسی شعرو ادب کی طویل روایت کے پس منظر میں پڑھا اور پڑھایا۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

آپ کا اہم موضوع اقبالؒ اور مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر رہا۔ آپ نے فلسطین کے مسئلہ پر اقبالؒ کی پریس ریلیز، برطانوی نیشنل لیگ کی رہنما فرکشارسن سے خط و کتابت، قائد اعظمؒ کے نام لکھے گئے اکتوبر 1927ء کے خط اور اقبالؒ کے اشعار کے حوالے دیئے جس میں انہوں نے فرمایا

یہ پِیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منوّر کیے افکار

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھْلتا نہیں یہ عْقدہ دشوار

تْرکانِ ’جفا پیشہ‘ کے پنجے سے نکل کر

کراچی:بچے کی لاش چھوڑ کر فرار ہونے کا واقعہ،پولیس کا کار مالک کے گھر پر چھاپہ

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

آپ نے مفتی امین الحسینی کی دعوت پر علامہ اقبالؒ کے بیت المقدس میں دس روزہ قیام اور مؤتمر عالم اسلامی کے نائب صدر کی حیثیت سے فلسطین کیلئے عملی جدوجہد کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ فلسطین کی تاریخ ہندوستان میں بھی دہرائی جائے گی۔

آپ نے اپنی تقاریر میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمات اقبال ؒ کی روشنی میں اجتہاد اور مکالمے کی ضرورت پر زور دیا جو کہ پارلیمان کا کام ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب پارلیمنٹ میں باکردار اور با صلاحیت لوگ منتخب ہو کر آئیں اور پارلیمان کی امانت کیلئے ماہرین قانون و شریعت اور ماہرین علم ا لاقتصا کی ایک ٹیم مقرر ہو۔

سری لنکا کا 7ممالک کے لیے فری سیاحتی ویزوں کا اعلان

وحید الزمان طارق کی کاوشوں پر اقبالؒ کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے

وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

ماہر اقبالیات کا کہنا ہے کہ علامہ اقبالؒ کے افکار اور نظریات کے بارے آج کی نوجوان نسل کو بتانے کی بھی اشدت ضرورت ہے۔ جس کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبالؒ 61 سال کی عمر میں پاکستان بننے کے 9 سال قبل ہی انتقال کرگئے۔ پاکستان کا خواب حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا جس کی جھلک شعروں کی صورت میں ان کی شاعری میں ملتی ہے۔ انہوں نے اس وقت امت مسلمہ کے جن مسائل کی نشاندہی کی تھی وہ آج پوری ہورہی ہے۔علامہ اقبالؒ ایک ولی اللہ بھی تھے جو قدرت کی حقیقتوں کے بے حد قریب تھے۔ علامہ اقبالؒ نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل بھی اپنے اشعار ہی میں بتادیا تھا جسے کھوج لگا کر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سرکاری سطح پر نطریات و افکار اقبالؒ کو اجاگر کرنے کی مزید ضرورت ہے تاکہ نسل نو کا قبلہ درست کیا جاسکے۔

QOSHE -  اسرائیل دہشت گرد، فلسطین مسلمانوں کا ہے - ریاض احمدچودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 اسرائیل دہشت گرد، فلسطین مسلمانوں کا ہے

10 0
30.11.2023

یہود، فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں۔ وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں وارد ہوئے، یہاں کے قدیم فلسطینیوں کو نکال باہر کیا اورخود ان کی سرزمین پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔ آیندہ صدیوں میں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے اور ان کے ہیکل سلیمانی کو بھی نیست و نابود کردیا گیا۔ ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی اْنھیں منہ نہ لگاتا تھا۔ یہ مسلمان تھے جنھوں نے ان کی دستگیری کی۔ خاص طور پر اندلس کے مسلم حکمرانوں کے حسنِ سلوک کی وجہ سے، اندلس میں یہود طویل عرصے تک نہایت خوش و خرم رہے اور امن و اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھرسقوطِ غر ناطہ کے بعد جب عیسائیوں نے انھیں وہاں سے نکالا تو ایک بار پھر پورے جہاں میں انھیں کہیں امان نہ ملی۔ ایسے وقت میں عثمانی ترکوں نے انہیں پناہ دی۔ یہودی سلطان سلیم عثمانی کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارِ گریہ کی جگہ دریافت کر کے اس جگہ کو صاف کرا کے یہود کو وہاں جانے اور گریہ کرنے کی اجازت دی۔

بھارت کی سب سے بڑی کار مینوفیکچرنگ کمپنی ماروتی سوزوکی نے گاڑیوں کے قیمتیں بڑھا دیں

احسان فراموشی یہود کی گھٹی میں پڑی ہے۔ عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ و خوش حال ہوئے تو اْنھوں نے پر پْرزے نکالے اور فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ انجمن اتحاد و ترقی کی وزارت کے ذریعے 1914ء میں ایک قانون کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اور جائیدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ 1916ء میں وہ برطانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play