ہم ہمیشہ سے رونا روتے آئے ہیں کہ پاکستان لٹ گیا،برباد ہو گیا، بطور ریاست ناکام ہو چکا ہے، عالمی گداگر ہے، اس کی معیشت تباہ حال ہے, زراعت بے حال ہے، صنعتیں بند ہو چکی ہیں, بیروزگاری فزوں تر ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، دنیا ہمیں خاطر میں نہیں لاتی، کوئی ہمیں سہارا دینے کو تیار نہیں، ہمارا ہاتھ پکڑنے پر راضی نہیں, دوست ہم سے جان چھڑا رہے ہیں، اغیار ہم سے رابطہ کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں، دشمن ہماری زبوں حالی پر شاداں ہیں،بلکہ ہماری بربادی کے لئے کوشاں ہیں …… یعنی ہم ہر طرح سے اور ہر وقت رونے روتے اور کوسنے دیتے رہتے ہیں، لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں، آئینے میں اپنے چہرے کے داغ دیکھنے سے ڈرتے ہیں, اپنے دامن کی آلودگی صاف کرنے کو تیار نہیں۔آنکھوں دیکھی مکھی دیکھ کر نگل بھی لیتے ہیں اور بعد میں اْبکائیاں لے کر ماحول خراب کرنے لگتے ہیں۔ ہماری قومی نفسیات میں شامل ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا اور کسی دوسرے کو کرتے دیکھ کر اس پر حرف زنی شروع کر دینی ہے، اسے ہر طرح سے کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنی ہے،باز نہ آئے تو اسے جان سے مارنے سے بھی گریز نہیں کرنا، اسے ملک بدر کرنا تو معمولی بات ہے۔ لیاقت علی خان، بھٹو اور بی بی شہید جیسی بہت سی مثالیں سامنے ہیں، اسی لئے سابق صدر آصف علی زرداری جنہیں افہام و تفہیم کا گورو مانا جاتا ہے اور بلا شک و شبہ وہ عصرِ حاضر میں پاکستان کے سب سے ذہین اور زیرک سیاستدان ہیں، آج اپنے بیٹے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ پاکستانی سیاست کے ہر پہلو سے آشنا ہیں، انہوں نے شکست خوردہ پاکستان کو مختصر مدت میں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرکے ایٹمی قوت بنانے والے بھٹو کا عبرتناک انجام دیکھا ہے،اپنی بیوی کو پاکستان کی تعمیر و ترقی اور مضبوطی اور دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر بنانے کے لئے جدید ترین ایٹمی میزائل پروگرام حاصل کرنے کے ”انعام“میں راولپنڈی میں سر عام خون میں نہاتے دیکھا ہے۔ نواز شریف کو موت کے جبڑوں سے لہو رنگ نکلتے دیکھا ہے اور خود بھی عرصہ صدارت میں مگر مچھ کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اٹھارویں ترمیم سے عوامی حقوق اور دستور کی بالادستی بحال کرنے کی کوشش کا انجام بھگتا ہے۔ وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اپنے مخالفین سے ”مردِ حُر“ کا خطاب پا کر اس کے ”ثمرات“ پا چکے ہیں، مگر آج یہ مردِ حُر اپنے واحد جواں سالہ بیٹے کو میدانِ سیاست میں شعلہ فشانی سے باز رکھنے کے لئے متحرک ہوا ہے تو بھٹو خاندان کا خاتمہ کرنے والے ایک زرداری کو بھٹو کا لاحقہ لگا کر وفاداری نبھانے کی سزا دینے کے درپے لوگ باپ بیٹے کے مابین ماضی کے شاہی خاندانوں کی سی تخت و تاج کی لڑائی دیکھنے کے متمنی ہیں۔ خدا جانے انسان ہوتے ہوئے آدم خوری کی جبلت ان میں کہاں سے آ گئی۔ اللہ جانے ہمارے لوگوں میں حسد اور آگ کا شعلہ کسی نہ کسی راکھ میں سے چنگاری بن کر نمودار ہو کر شرر فشاں کیوں رہتا ہے؟ سیاست کے میدان سے کھیل کے میدان میں کود کر اودھم مچا دیتا ہے اور بابر اعظم جیسے عظیم نامور کھلاڑی کو پویلین کی راہ پر ڈال کر باہر کا راستہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے یہ تو اس کھلاڑی کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے تاریخی ریکارڈ مخالفین کی راہ میں پہاڑ کی سی رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں، جن سے سر ٹکرانے کی کسی میں ہمت نہیں، خود ہی سوچئے کہ جس کھلاڑی کی کامیابیاں کرکٹ کی عالمی تاریخ میں سنہری حروف سے جگمگا رہی ہوں ان پر حسد کی راکھ پھینکنے کے خواہشمندوں کی جلن انہیں کیوں نہ اپنی ہی سموگ کے غبار میں گم کرکے رکھ دے گی۔ آئیے ایک نظم پڑھ لیں:

ملک سردی کی شدید لہر کی لپیٹ میں آنیوالا ہے، محکمہ موسمیات

جہالت کی کھیتی!

فراغت کی چلمن سے لپٹی اداسی

جو ساکن خموشی میں صوتی ردھم ڈھونڈتی ہے

سماعت کے در پہ

صداؤں کی دستک نے

خوابوں کو توڑا

تو آنکھوں نے سب نیندیں

بیزار لمحوں کی آتش میں جھونکیں

اچانک سے بیدار ہونے کا ناٹک رچایا

کہ اذنِ تکلم کو ترسی زبانوں پہ

کانٹے پڑے ہیں

گماں ہے

گیانی نے جب آبِ گریہ سے

قْفلِ فراست کو دھویا

تو دیکھا کہ دانش کی کنجی لگی ہے

روضہ رسولﷺ کے ایک اور خادم الاغا علی بدایا کا انتقال

سوالوں کے زنداں میں

قیدی کبوتر بھی پر جھاڑتے ہیں

کہ وہ بھی جوابوں کا چوگا چنیں

یوں ہے پر تخم ِ عرفان

دیمک زدہ ہے

جہالت کی کھیتی ہری ہے

جہاں جھاڑیوں میں چھپے سانپ

ڈسنے کو تیار ہیں!

٭٭٭٭٭

QOSHE -          ہمیں کامیاب لوگوں سے دشمنی کیوں ہے؟  - علی اصغر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         ہمیں کامیاب لوگوں سے دشمنی کیوں ہے؟ 

7 0
27.11.2023

ہم ہمیشہ سے رونا روتے آئے ہیں کہ پاکستان لٹ گیا،برباد ہو گیا، بطور ریاست ناکام ہو چکا ہے، عالمی گداگر ہے، اس کی معیشت تباہ حال ہے, زراعت بے حال ہے، صنعتیں بند ہو چکی ہیں, بیروزگاری فزوں تر ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، دنیا ہمیں خاطر میں نہیں لاتی، کوئی ہمیں سہارا دینے کو تیار نہیں، ہمارا ہاتھ پکڑنے پر راضی نہیں, دوست ہم سے جان چھڑا رہے ہیں، اغیار ہم سے رابطہ کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں، دشمن ہماری زبوں حالی پر شاداں ہیں،بلکہ ہماری بربادی کے لئے کوشاں ہیں …… یعنی ہم ہر طرح سے اور ہر وقت رونے روتے اور کوسنے دیتے رہتے ہیں، لیکن کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں، آئینے میں اپنے چہرے کے داغ دیکھنے سے ڈرتے ہیں, اپنے دامن کی آلودگی صاف کرنے کو تیار نہیں۔آنکھوں دیکھی مکھی دیکھ کر نگل بھی لیتے ہیں اور بعد میں اْبکائیاں لے کر ماحول خراب کرنے لگتے ہیں۔ ہماری قومی نفسیات میں شامل ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا اور کسی دوسرے کو کرتے دیکھ کر اس پر حرف زنی شروع کر دینی ہے، اسے ہر طرح سے کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play