بزرگوں نے جو بھی ضرب المثل بنائیں یا قراردادیں، زمانے گزر جانے کے باوجود وہ بدستور کارآمد اور قابل عمل ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کسی ضرب المثل کو اس کے پس منظر سے الگ کرکے کہا یا بولا جائے۔ ایسی ہی ایک ضرب المثل کمبل کے حوالے سے ہے اور یہ آج کل مجھ جیسے لوگوں پر صادق آتی ہے کہ میں کوشش کرکے موضوع تبدیل کرتا ہوں لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ کسی نئے حوالے سے مجبور ہو کر واپس پلٹنا پڑتا ہے، گزشتہ روز کرکٹ کے حوالے سے لکھا اور آج سموگ اور اس کو روکنے کے لئے احکامات اور ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھا کہ لاہور پھر سے ایک بار بازی لے گیا اور دنیا بھر میں اول آ گیا کہ کھیلوں میں تو ہم خود بگاڑ پیدا کر ہی چکے ہیں کہ اب ماحول کا حلیہ بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حالات نے یکلخت ایک اور کروٹ لی، دیر بعد زرداری صاحب بولے تو قائد مسلم لیگ (ن) میاں محمد نوازشریف نے بھی اظہار خیال کیا اور دونوں حضرات نہ چاہتے ہوئے بھی وہ باتیں کہہ گزرے جن کے حوالے سے بڑی بحث ہوئی کہ بیانیہ تبدیل ہو گیا اور اب وہ طریقہ بھی نہیں ہوگا جو ماضی میں کبھی روا رکھا گیا اور اب اس میں تبدیلی ہو چکی ہے۔ آصف علی زرداری تو جب بھی تفصیلی بات کرتے ہیں کئی پہلوؤں سے تبصرے کا ذریعہ بن جاتی ہے،میرے نزدیک انہوں نے بہت تفصیل سے کئی باتیں کہی ہیں لیکن دوچار ایسی ہیں جن سے ان کی ذہنی فکر واضح ہوتی ہے۔ ان دنوں بلاول بھٹو زرداری بعض ایسے کلمات ادا کر رہے ہیں جو پسند نہیں آتے، آصف علی زرداری نے اس حوالے سے صاف بتا دیا کہ وہ بلاول کو نہیں روکیں گے کہ نوجوان ہے اور آج کے سب نوجوان یہی موقف رکھتے ہیں کہ ”بابا آپ کو علم نہیں“ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خود کو اس صف سے نکال لیا اور دعویٰ کیا کہ بلاول ان کو بابا نہیں کہتا، مولانا فضل الرحمن کا جواب تو یہی تھا کہ بلاول کو اپنے والد کے بارے میں بھی کہنا اور والدہ کے حوالے سے سوچنا چاہیے کہ آج وہ زندہ ہوتیں تو؟ آصف علی زرداری نے اپنے انٹرویو کے دوران پدرانہ انداز سے آصفہ بھٹو کے حوالے سے بلاول کی تائید کی اور کہا اگر آصفہ انتخاب میں حصہ لینا چاہیں گی تو ان کو نہیں روکا جائے گا کہ ان کی مقبولیت ہے اور وہ ”جیتو امیدوار“ ہوں گی۔ محترم سابق صدر مملکت نے دو حقائق کا بھی ذکر کر دیا، ایک یہ کہ ان کو کسی طرف سے یہ پیشکش ہوئی کہ تحریک انصاف سے مل جاؤ اور چھ وزارتیں لے لو، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، زرداری صاحب نے اس شخصیت کا نام لینے سے انکار کر دیا جنہوں نے یہ پیشکش کی، اب لوگ قیاضے لگاتے رہیں کہ کس نے کہا ہوگا عام لوگوں کی سوئی ایک نکتہ پر جا کر ٹھہرتی ہے اور وہ اب ماضی ہے البتہ یہ بات اہم ہے اور مسلم لیگ (ن) سے نبھ سکتی ہے یا نہیں، یہ ابھی قبل از وقت اور پیپلزپارٹی اس بار بڑا سرپرائز دے گی۔

عام انتخابات، ایم کیوایم نے ن لیگ کو صاف انکار کر دیا

قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف مری کے خوشگوار مقام پر بیٹھ کر بولے اور انہوں نے پھر سے شکوہ کر دیا کہ ان کو ہر بار نکالا گیا اور جب بھی ایسا ہوا ملک کی ترقی کو بریک لگا،اگرچہ بات ان کی طرف سے حقائق پر مبنی کی گئی لیکن یہ بھی اپنی جگہ کہ وہ لاکھ کوشش کریں جب ان حقائق کی روشنی میں بات کریں گے تو پھر ممنوعہ نام نہ لینے کے باوجود ان کا ذکر ضرور آئے گا، آصف علی زرداری کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف ہمیشہ اتحاد بنتے رہے اور آئی جے آئی تو جنرل حمید گل نے بنایا تھا، اسی طرح جب محمد نوازشریف نے مجھے نکالا یا کیوں نکالا کی بات کی ہے تو غیر محسوس طور پر بات وہیں جاتی ہے لہٰذا یہ تو اب حکمت عملی اور برداشت کی بات ہے کہ ہر طرف سے مفاہمتی انداز ہی اپنائے رکھا جائے، قائد مسلم لیگ (ن) نے بڑے ٹھوس انداز میں دہرایا کہ انہوں نے عوام سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، ہمیشہ صاف بات کی ہے۔

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان 15 دن کی بجائے کتنے دن بعد کرنے کا فیصلہ کر لیا ؟ بڑی خبر

میں نے یہ کوئی ایسی بات نہیں کی کہ خفیہ گوشے ظاہر ہوں، یہ تو ہمارے سیاسی رہنما خود ہی موقع دیتے ہیں کہ ان کے کہے کو زیر غور لایا جائے سو ہر دو بڑے رہنماؤں نے اپنے اپنے دل کی بات کی ہے البتہ ایک ایسی بات بھی کہہ دی گئی جس سے میرے اور میرے جیسے کئی بھائی بندوں کے موقف کی تائیدہوتی ہے۔ محمد نوازشریف، محمد شہبازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے دوسرے رہنماؤں کی خواہش و حسرت ہے کہ 8فروری والے انتخابات میں دوتہائی اکثریت مل جائے اسی یقین کے ساتھ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کر دیا کہ مسلم لیگ (ن) صرف پنجاب سے قومی اسمبلی کی 125نشستیں جیت لے گی،یہ ان کی خواہش تو ہو سکتی ہے عملی طور پر یہ ممکن نہیں کہ پورا وزن ان کے پلڑے میں ہی ڈالا جائے۔ حالات اتنے بھی سازگار نہیں ہیں، اگر جماعت اسلامی نئے اتحاد سے باہر رہتی اور اپنے منشور پر انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو پھر قطعی طور پر ممکن نہیں کہ مسلم لیگ (ن) صرف اپنے بل بوتے پر ہی حکومت بنا لے کہ اسے سادہ اکثریت حاصل ہو جائے لیکن یہ ممکن نہ ہوگا، آصف علی زرداری نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت کی حامل نہیں ہوگی اور قومی اسمبلی کی 172 یا اس سے زائد نشستیں نہ حاصل کر سکے گی، یہی میرا بھی موقف ہے کہ اگلی حکومت بھی مخلوط اور اتحادی ہو گی، کون کون سی جماعت شامل ہو گی اس میں کچھ واضح ہو گیا باقی بھی جلد پتہ چل جائے گا کہ کنگز پارٹی کے لئے بھی کوشش جاری ہے اگر یہ رتبہ استحکام پارٹی کو نہ مل سکا تو وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملنا پسند کرے گی، اگرچہ تاحال وہ بھی کنگز پارٹی سمجھی جا رہی ہے۔ میں اس سلسلے میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوا ہوں اور اب پھر آصف علی زرداری کی تائید کرتا ہوں کہ کسی کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی اور مخلوط حکومت بنے گی البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ واحد اکثریتی جماعت کون سی ہوگی اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) دوڑ میں آگے ہے۔

قلات اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے

QOSHE -           مخلوط حکومت بنے گی؟ بڑوں نے بھی کہہ دیا! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          مخلوط حکومت بنے گی؟ بڑوں نے بھی کہہ دیا!

10 1
25.11.2023

بزرگوں نے جو بھی ضرب المثل بنائیں یا قراردادیں، زمانے گزر جانے کے باوجود وہ بدستور کارآمد اور قابل عمل ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کسی ضرب المثل کو اس کے پس منظر سے الگ کرکے کہا یا بولا جائے۔ ایسی ہی ایک ضرب المثل کمبل کے حوالے سے ہے اور یہ آج کل مجھ جیسے لوگوں پر صادق آتی ہے کہ میں کوشش کرکے موضوع تبدیل کرتا ہوں لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ کسی نئے حوالے سے مجبور ہو کر واپس پلٹنا پڑتا ہے، گزشتہ روز کرکٹ کے حوالے سے لکھا اور آج سموگ اور اس کو روکنے کے لئے احکامات اور ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھا کہ لاہور پھر سے ایک بار بازی لے گیا اور دنیا بھر میں اول آ گیا کہ کھیلوں میں تو ہم خود بگاڑ پیدا کر ہی چکے ہیں کہ اب ماحول کا حلیہ بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حالات نے یکلخت ایک اور کروٹ لی، دیر بعد زرداری صاحب بولے تو قائد مسلم لیگ (ن) میاں محمد نوازشریف نے بھی اظہار خیال کیا اور دونوں حضرات نہ چاہتے ہوئے بھی وہ باتیں کہہ گزرے جن کے حوالے سے بڑی بحث ہوئی کہ بیانیہ تبدیل ہو گیا اور اب وہ طریقہ بھی نہیں ہوگا جو ماضی میں کبھی روا رکھا گیا اور اب اس میں تبدیلی ہو چکی ہے۔ آصف علی زرداری تو جب بھی تفصیلی بات کرتے ہیں کئی پہلوؤں سے تبصرے کا ذریعہ بن جاتی ہے،میرے نزدیک انہوں نے بہت تفصیل سے کئی باتیں کہی ہیں لیکن دوچار ایسی ہیں جن سے ان کی ذہنی فکر واضح ہوتی ہے۔ ان دنوں بلاول بھٹو زرداری بعض ایسے کلمات........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play