پاکستان میں سوائے ایک کے کوئی انتخاب ایسا نہیں گزرا جس میں دھاندلی نہ ہوئی ہو یا ہارنے والے نے دھاندلی کا الزام نہ لگایا ہو۔لیکن 2018اور 2022کے انتخابات کی یاد چونکہ تازہ ہے اس لئے دونوں کا تقابل کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ جہاں تک قبل از انتخاب یعنی پری پول رگنگ کا تعلق ہے تو وہ دونوں میں ہوئی۔ 2018کے انتخاب سے قبل نیب اور دیگر ذرائع کو استعمال کرکے فوجی اسٹیبلشمنٹ الیکٹبلز کو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے توڑ رہی تھی اور انہیں پی ٹی آئی میں شامل کروارہی تھی لیکن عملاً یہ کام 2011سے شروع ہوا تھا اور سات سال مسلسل ہوتا رہا ۔اب 2024کے انتخابات میں نو مئی کی آڑ لے کر پی ٹی آئی سے لوگ توڑے جارہے تھے تاہم انہیں صرف مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا نہیں کہا جارہا تھا بلکہ پیپلز پارٹی، اے این پی ، جے یو آئی ، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین ، آئی پی پی اور ایم کیوایم بھی جائے پناہ تھیں۔فرق یہ تھا کہ 2018میں تمام پارٹیوں سے جمع کرکے الیکٹیبلز کو صرف پی ٹی آئی میں جمع کیا جارہا تھا جبکہ اس مرتبہ پی ٹی آئی سے نکال کر شمولیت کیلئے آپشن زیادہ دئیے گئے تھے ۔ نو مئی کی وجہ سے اب کی بار سختی زیادہ تھی یا پی ٹی آئی کی فریاد سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ نظر آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2018کی پری پول دھاندلی بڑی منظم اور موثر تھی ۔

دوسرا فرق دونوں انتخابات میں یہ تھا کہ 2018میں فوج کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات کیا گیا تھا جبکہ 2024میں فوج کو براہ راست کردار سے باہر رکھا گیا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2018کے انتخابات سے چند روز قبل میں نے اس وقت کے وزیرداخلہ اعظم خان کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے کہا کہ فوج پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات نہیں ہوگی تو اگلے دن ان سے اس بیان کی تردید یہ کہہ کر کروائی گئی کہ فوج پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات ہوگی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب نتیجہ تیار ہورہا تھا تو ٹارگٹڈ پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا ۔ پھر وہاں پر مرضی کے مطابق مطلوبہ تعداد میں مہریں لگوائی گئیں اور فارم 45تیار کئے گئے۔ پولنگ ایجنٹوں کی عدم موجودگی میں گنتی کی وجہ سے یہ انتخابات بالکل قابل وقعت نہیں رہے تھے اور شاید یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ پولنگ ایجنٹوں کی عدم موجودگی میں گنتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مقامات پر تیسرے نمبر پر آنیوالے امیدوار کامیاب ڈکلیئر کئے گئے ۔ آج پی ٹی آئی والے فارم 45کا بہت ذکرکررہے ہیں لیکن اس وقت بعض امیدواروں کو فارم 45نہیں دئیے گئے جبکہ مارکیٹ میں غیردستخط شدہ فارمز بھی گردش کرتے رہے ۔ اب کی بار فوج کا رول صرف امن و امان قائم رکھنے تک محدود تھا لیکن جو گند پھیلایا گیا وہ آراوز یا پھر ان کے ہینڈلرز نے پھیلایا۔ تاہم اب کی بار گنتی امیدواروں کی موجودگی میں کی گئی اور فارم 45بھی اکثر جگہ پر فراہم کئے گئے لیکن کچھ سیٹوں پرفارم 45اور فارم 47کے مابین موافقت نہیں تھی ۔اسی طرح اب کی بار الیکشن سے اگلی رات بعض آراوز اور ان کے ہینڈلرز کی طرف سے پیسہ لینے کی شکایت بھی عام ہے ۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے فارم 45اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے میں غیرمعمولی تاخیر کردی جس کی وجہ سے دھاندلی کی شکایت ہوئی۔

2018 کے انتخابات کے نتائج کو صرف پی ٹی آئی نے قبول کیا تھا جبکہ اس کے علاوہ باقی تمام جماعتوں (نون لیگ، پی پی پی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، ایم کیوایم، حتیٰ کہ مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی )نے مسترد کیا تھا جبکہ 2024کے انتخابات کو تین پارٹیوں یعنی نون لیگ ، پی پی پی اور ایم کیوایم نے تسلیم اور باقیوں نے مسترد کیا ہے لیکن اس مرتبہ جو کچھ ہوا مقامی سطح پر ہوا اور بعض جگہوں پر نہ سمجھ میں آنے والے نتائج اور الزامات سامنے آئے ہیں ۔ مثلا پی ٹی آئی بھی دھاندلی کا الزام لگارہی ہے اور جے یو آئی کو ساتھ لے کر احتجاج کرنا چاہتی ہے لیکن جے یو آئی کا الزام ہے کہ خیبر پختونخوا میں اس کی سیٹیں چھین کر پی ٹی آئی کو دی گئی ہیں ۔ اسی طرح اے این پی کا الزام ہے کہ اس کی سیٹیں چھین کر پی ٹی آئی کو دی گئی ہیں ۔ اب یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس نے اور کیوں ان جماعتوں کی سیٹیں پی ٹی آئی کو دلوادیں کیونکہ بظاہر تو اسٹیبلشمنٹ کی زیرعتاب جماعت پی ٹی آئی تھی۔اسی طرح بلوچستان میں بعض قوم پرست جماعتوں کو شکایت ہے کہ ان کی نشستیں جے یو آئی کو دی گئیں ۔ اسی طرح محسن داوڑ جس نشست پر انتخاب لڑرہے تھے وہ جے یو آئی نے جیتی ہے لیکن دوسری طرف دھاندلی کی شکایت مولانا فضل الرحمان سب سے زیادہ کررہے ہیں اور حالیہ انتخاب کے یہ کچھ پہلو ہیں جو کسی کو سمجھ نہیں آرہے ہیں کیونکہ جیتنے والے بھی خوش نہیں ہیں اور ہارنے والے بھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے کہ ہمارے انتخابات میں دھاندلی کی لعنت ختم ہو۔ ایک نکتے میں اس کا جواب یہ ہے کہ قانون سازی کرکے الیکشن کمیشن کو انڈین الیکشن کمیشن کے طرز پر مضبوط کیا جائے ۔ تمام جماعتیں باہمی مشاورت سے مزید قوانین بھی بناسکتی ہیں ۔ 2018کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین جیسے ڈراموں پر وقت ضائع کرتی رہی ۔ وہ اگر انتخابی اصلاحات کرلیتی تو آج اسے یہ دن دیکھنا نہ پڑتے ۔اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پاس موقع ہے کہ وہ ایسی انتخابی اصلاحات کرلیں کہ ہر قسم کی دھاندلی کا راستہ روکا جاسکے ۔ اب اگر ان جماعتوں نے اپنا یہ قومی فرض ادا نہیں کیا تو اگلے انتخابات میں پھر انہیں ایسےہی رونا پڑے گا جس طرح اب پی ٹی آئی رو رہی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

محکمہ موسمیات نے پیر کی شام کو رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے قوی امکانات ظاہر کردیے۔

کرکٹر کائنات امتیاز کا کہنا تھا کہ صائم ایوب کا کرکٹ میں بہت اچھا مستقبل ہے، ہمارے خلاف بھی صائم نے دو سو رنز کئے تھے۔

پارٹی رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دراڑ پڑنے کا انتظار نہیں کریں گے، اب ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت ہو۔

20 میں سے 15 سماعتیں ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق جبکہ 5 سماعتیں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بابر اعظم بھی انسان ہے، وہ کبھی ناکام بھی ہوسکتا ہے، بابر اعظم کی بطور کپتان حکمت عملی کافی شاندار ہے۔

پاکستان کے نئے صدر کا انتخاب آج ہوگا ، حکمراں اتحاد کی جانب سے آصف علی زرداری اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے محمود خان اچکزئی امیدوار ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنماؤں نےکہا ہے کہ عالمی یوم خواتین پر تحریک انصاف کی خواتین گرفتار ہیں۔

تامل، تلگو اور ملیالم فلموں کی معروف اداکارہ نین تارا نے اپنے شوہر وگنیش شیون سے طلاق کی افواہوں کو غلط اور بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ایک فیملی تصویر شیئر کی ہے۔

سہیل خان نے کہا کہ وکٹ بیٹنگ کیلئے مشکل نہیں تھا، کوشش کریں گے کہ اگلے میچز میں کم بیک کریں۔

برطانیہ کے صوبے ویلز میں طویل فاصلے کا ٹگ آف وار منعقد ہوا جو کہ 1694 فٹ پر محیط تھا۔

جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے تامل فلموں کے معروف اداکار اجیت کمار کو nerve swelling کے علاج جو کہ ایک چھوٹے میڈیکل پروسیجر پر مبنی ہے اسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔

جوائنٹ سیکریٹری وزارتِ دفاع عبدالجبار کاتبادلہ کردیا گیا، انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مقتولین ایک شوروم پر گاڑی لینے آئے تھے۔ موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

سوئیڈن کا جھنڈا پیر کو برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ایک تقریب لہرایا جائے گا۔

محمکہ ہاؤسنگ نے سابق نگراں وزیراعظم کی واجبات ادائیگی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 کے 25 ویں میچ میں پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 76 رنز سے شکست دے دی۔

QOSHE - سلیم صافی - سلیم صافی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سلیم صافی

51 19
09.03.2024

پاکستان میں سوائے ایک کے کوئی انتخاب ایسا نہیں گزرا جس میں دھاندلی نہ ہوئی ہو یا ہارنے والے نے دھاندلی کا الزام نہ لگایا ہو۔لیکن 2018اور 2022کے انتخابات کی یاد چونکہ تازہ ہے اس لئے دونوں کا تقابل کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ جہاں تک قبل از انتخاب یعنی پری پول رگنگ کا تعلق ہے تو وہ دونوں میں ہوئی۔ 2018کے انتخاب سے قبل نیب اور دیگر ذرائع کو استعمال کرکے فوجی اسٹیبلشمنٹ الیکٹبلز کو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے توڑ رہی تھی اور انہیں پی ٹی آئی میں شامل کروارہی تھی لیکن عملاً یہ کام 2011سے شروع ہوا تھا اور سات سال مسلسل ہوتا رہا ۔اب 2024کے انتخابات میں نو مئی کی آڑ لے کر پی ٹی آئی سے لوگ توڑے جارہے تھے تاہم انہیں صرف مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا نہیں کہا جارہا تھا بلکہ پیپلز پارٹی، اے این پی ، جے یو آئی ، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین ، آئی پی پی اور ایم کیوایم بھی جائے پناہ تھیں۔فرق یہ تھا کہ 2018میں تمام پارٹیوں سے جمع کرکے الیکٹیبلز کو صرف پی ٹی آئی میں جمع کیا جارہا تھا جبکہ اس مرتبہ پی ٹی آئی سے نکال کر شمولیت کیلئے آپشن زیادہ دئیے گئے تھے ۔ نو مئی کی وجہ سے اب کی بار سختی زیادہ تھی یا پی ٹی آئی کی فریاد سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ نظر آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2018کی پری پول دھاندلی بڑی منظم اور موثر تھی ۔

دوسرا فرق دونوں انتخابات میں یہ تھا کہ 2018میں فوج کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات کیا گیا تھا جبکہ 2024میں فوج کو براہ راست کردار سے باہر رکھا گیا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2018کے انتخابات سے چند روز قبل میں نے اس وقت کے وزیرداخلہ اعظم خان کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے کہا کہ فوج پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات نہیں ہوگی تو اگلے دن ان سے اس بیان کی تردید یہ کہہ کر کروائی گئی کہ فوج پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات ہوگی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب نتیجہ تیار ہورہا تھا تو ٹارگٹڈ پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹوں کو باہر........

© Daily Jang


Get it on Google Play