ان سطور کی اشاعت تک انتخابی عمل کے شروع ہونے میں ایک دن سے بھی کم وقت بچا ہوگا اور پاکستانی عوام اپنی رائےکا اظہار کرنے کیلئے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرنے کی تیاری کر رہے ہونگے ۔ ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت بہتر بنانا عوام کی ذمہ داری ہے اور اسکے ساتھ ساتھ درست طور پر ووٹ کااستعمال اس سے بھی زیادہ بڑی ذمہ داری ہے ۔ پاکستانی عوام کے سامنے تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس وقت جو کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے وہ اقتدار کے ایوانوں کی مکين رہ چکی ہے اور اسکے پاس اپنی دوران اقتدار کارکردگی پیش کرنے کیلئے اس دوران اٹھائے گئے اقدامات جن سے پاکستانی عوام کے معیار زندگی میں بہتری نظر آئی ہو ، ہونے چاہئیں اور اگر اسکے پاس اب بھی صرف دوسروں پر الزام تراشی اور مستقبل میں انتقام لینے کا جذبہ ہے تو اس سے صرف ایک ہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے دوران پاکستان اور اسکے عوام کیلئےکچھ بھی کرنے میں ناکام رہی اور اس ناکامی کی وجہ سے اس کو انتخابات میں بھی ناکام ہو جانا چاہئے ۔ 2013 سے 2018تک کے ترقیاتی کاموں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو عوام کو کوئی بھی فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔ کیونکہ اس دور میں تمام تر سیاسی جماعتیں صوبوں یا مرکز میں صاحب اقتدار تھیں اور ایک دوسرے کے مقابلے میں کارکردگی دکھانے کا موقع سب کو ميسر تھا ۔اس دوران پاکستان کی معیشت زبردست طور پر دو وجوہات سے متاثر ہو رہی تھی اور پاکستان کو ان وجوہات کے تدارک کی اشد اور فوری طور پر ضرورت تھی ۔ ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تھا۔ریاستی اداروں پر دہشت گردی کی کارر وائیوں سے لیکر فرقہ ورانہ اور علاقائی دہشت گردی کا دور دورہ تھا ،کراچی سے کوئٹہ تک زمین لہو رنگ تھی ، ہزارہ برادری سے لیکر لاہور تک کو اس خونی کھیل کا سامنا تھا ، دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی شدید قسم کی لوڈ شیڈنگ کا تھا ۔ دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے تک بجلی کی بندش سے عوام نڈھال تھے ۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے قومی معیشت کا بھی بھٹہ بیٹھا ہوا تھا ۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت نے نواز شریف کی قیادت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ دہشت گردی سے چاہے اس سے ریاستی ادارے متاثر ہو رہے تھے یا اس کا نشانہ فرقہ واریت اور علاقائیت تھی، سب کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی کو اختیار کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کوئٹہ سے کراچی تک دہشت گردی میں نماياں کمی دیکھنے میں آئی ۔ نواز شریف حکومت نے اس عفریت سے نمٹنے کیلئے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کیا اور ریاستی اداروں کو ان کے خلاف متحرک کیا ورنہ ریاستی مشينری تو اس سے پہلے بھی موجود تھی اور 2018کے بعد بھی موجود رہی مگر بعد میں تو دہشت گردی کا لقمہ بننے والوں کے لواحقین کوبلیک میلر تک قرار دے دیا گیا ۔ معیشت کو درست راستے پر ڈالنے کیلئے متعدد اقدامات کئے گئے اور یہ صرف تصور پاکستان میں ہی نہیں قائم ہوا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت معاشی میدان میں بہت متحرک ہے بلکہ اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا ۔ شہباز سپیڈ کے لقب سے سب ہی واقف ہیں اورمعاشی میدان میں یہ اصطلاح پہلے کبھی استعمال نہیں کی گئی تھی ۔کمیونسٹ پارٹی آف چین کے زینگ ژاؤسونگ نے اس اصطلاح کو سب سے پہلے 2016 میں متعارف کروایا اور کمیونسٹ پارٹی آف چین کی جانب سے اس اصطلاح کو اس لئے استعمال کیا گیا کہ سی پیک پر جس رفتار سے کام شہباز شریف کی زیر نگرانی ہو رہا تھا اس سطح کی کارکردگی تو کسی دوسرے صوبے کی جانب سے کیا آنی تھی اس کا عشر عشیر بھی کسی جانب سے دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا اور یہ بات بھی سامنے رہنی چاہئے کہ چین دنیا بھر میں مختلف نوعیت کے پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ان ممالک کے حکمراںطبقات کے ساتھ اس کے مراسم بھی ہیں مگر وہ سب کیلئے اس طرح کی تحسین آمیز گفتگو نہیں کرتا ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ چین کی سب کیلئے پالیسی ہے ۔ دنیا بھر کے ساٹھ سے زیادہ ممالک میں چین بی آر آئی پروجیکٹ سے وابستہ ہے مگر شہباز سپیڈ کی اصطلاح صرف پاکستان کو ہی ميسر آسکی ۔ جب 2013 میں نواز شریف حکومت قائم ہوئی تو اس وقت قومی معیشت کی ماليت 22385ارب روپے تھی جو اس دور میں 34996 ارب روپے تک جا پہنچی خیال رہے کہ 2018 کے تجربے کے بعد یہ معیشت پھر سکڑ کر نیچے کا سفر اختیار کرنے لگی تھی ۔ 2013سے 2018 تک پاکستان کی ایکسپورٹس کی رفتار دنیا میں 8ویں نمبر پر آ گئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پاکستان دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہونے والا تھا۔ بجٹ خسارہ آٹھ اعشاریہ دو سے کم ہو کر چار اعشاریہ چھ رہ گیا تھا ملک میں اوسط شرح مہنگائی صرف چار فیصد تک تھی مگر اس کے بعد دو ہزار اٹھارہ کا ایڈونچر کیا گیا اور جب دو ہزار بائیس میں اس ایڈونچر سے جان چھٹی تو پاکستانی معیشت گر کر سنتالیسویں نمبر پر آ چکی تھی اور شرح مہنگائی تیرہ فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ کچھ عرصے قبل’’ فیک ہیروز ‘‘ کے نام سے اوٹو انگلش نے ایک کتاب تحریر کی تھی کہ فیک ہیروز کیسے بنتے رہے اور ان کے بننے سے کیا نقصانات ہوتے رہے ہیں ۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے فیک ہیرو کو دیکھا بھی ہے اور اس کے اقتدار کو برداشت بھی کیا ہے کہ جس کے پاس سوائے دوسروں کو برا بھلا کہنے کے اور کچھ نہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم صرف برا بھلا کہنے والی حکومت چاہتے ہیں یا کارکردگی ہمارے پیش نظر ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق ہیلی کاپٹر حادثہ جنوبی چلی کے علاقے لوس ریوس میں پیش آیا، سابق صدر کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار دیگر 3 افراد زخمی ہوئے۔

ریسکیو اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لاش ضابطے کی کارروائی کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کردی گئی ہے۔

اپنے بیان میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا مجھے صرف آصف علی زرداری ہی بچا سکتا ہے، آصف زرداری نے نواز شریف کی حکومت بچائی۔

ہر 4 میں سے 3 پاکستانی انتخابی نتائج قبول کرنے کو تیار یں، اپسوس اور پاکستان پلس نے سروے جاری کردیا۔

لاہور ٹریفک پولیس نے 8 فروری تک شناختی کارڈ پر چالان نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حماس نے غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر اور مصر کی مجوزہ تجاویز کا جواب دے دیا.

الیکشن کمیشن کی جانب سے 6 فروری رات 12 بجے تک امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کا وقت دیا گیا تھا جو کہ ختم ہوگیا ہے۔

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں پٹاخوں کی فیکٹری میں دھماکے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد11 ہوگئی۔

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ فرح گوگی وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے پیسے پکڑتی تھی۔

کینیڈا نے حماس اور اسلامی جہاد کے 11 رہنماؤں پر پابندیاں لگا دیں۔ اوٹاوا سے کینیڈین وزارت خارجہ کے مطابق پابندیوں میں حماس رہنما یحیٰی سنوار اور محمد الضیف بھی شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی جو جمہوریت بچانے کے لیے ن لیگ کے ساتھ تھی اس نے ن لیگ کے خلاف بھی سیاست کی، جب پاناما آیا تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے تھے، سینئر تجزیہ کار

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کچھ دیر میں الیکشن مہم کا وقت ختم ہو رہا ہے۔

فوزیہ قصوری نے کہا کہ بلاول بھٹو کی والدہ اگر آج حیات ہوتیں تو وہ ضرور اپنے بیٹے کی زبردست محنت اور جذبے پر فخر کرتیں۔

واضح رہے کہ آن لائن ٹکٹ بکنگ کی ویب سائٹ پر شام 5 بجے سے آن لائن ٹکٹ کی بکنگ شروع ہونا تھی۔

فافن کا کہنا ہے کہ آبزرورز کو پولنگ عمل سے قبل اور اس کے دوران مشاہدہ کاری کیلئے رسائی فراہم کی جائے،

سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ہم صحافی ہیں، ہمیں آئیڈیل کی بات کرنی پڑتی ہے۔

QOSHE - محمد مہدی - محمد مہدی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد مہدی

12 9
07.02.2024

ان سطور کی اشاعت تک انتخابی عمل کے شروع ہونے میں ایک دن سے بھی کم وقت بچا ہوگا اور پاکستانی عوام اپنی رائےکا اظہار کرنے کیلئے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرنے کی تیاری کر رہے ہونگے ۔ ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت بہتر بنانا عوام کی ذمہ داری ہے اور اسکے ساتھ ساتھ درست طور پر ووٹ کااستعمال اس سے بھی زیادہ بڑی ذمہ داری ہے ۔ پاکستانی عوام کے سامنے تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس وقت جو کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے وہ اقتدار کے ایوانوں کی مکين رہ چکی ہے اور اسکے پاس اپنی دوران اقتدار کارکردگی پیش کرنے کیلئے اس دوران اٹھائے گئے اقدامات جن سے پاکستانی عوام کے معیار زندگی میں بہتری نظر آئی ہو ، ہونے چاہئیں اور اگر اسکے پاس اب بھی صرف دوسروں پر الزام تراشی اور مستقبل میں انتقام لینے کا جذبہ ہے تو اس سے صرف ایک ہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے دوران پاکستان اور اسکے عوام کیلئےکچھ بھی کرنے میں ناکام رہی اور اس ناکامی کی وجہ سے اس کو انتخابات میں بھی ناکام ہو جانا چاہئے ۔ 2013 سے 2018تک کے ترقیاتی کاموں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو عوام کو کوئی بھی فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔ کیونکہ اس دور میں تمام تر سیاسی جماعتیں صوبوں یا مرکز میں صاحب اقتدار تھیں اور ایک دوسرے کے مقابلے میں کارکردگی دکھانے کا موقع سب کو ميسر تھا ۔اس دوران پاکستان کی معیشت زبردست طور پر دو وجوہات سے متاثر ہو رہی تھی اور پاکستان کو ان وجوہات کے تدارک کی اشد اور فوری طور پر ضرورت تھی ۔ ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تھا۔ریاستی اداروں پر دہشت گردی کی کارر وائیوں سے لیکر فرقہ ورانہ اور علاقائی دہشت گردی کا دور دورہ تھا ،کراچی سے کوئٹہ تک زمین لہو رنگ تھی ، ہزارہ برادری سے لیکر لاہور تک کو اس خونی کھیل کا سامنا تھا ، دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی شدید قسم کی لوڈ........

© Daily Jang


Get it on Google Play