نعیم مسعود
ہمی نہیں جانے وہ خود بھی یہ کیوں سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ محض ایک فرد ہے جبکہ حقیقت میں وہ ایک سسٹم ہے۔ سسٹم کو اپ ڈیٹ ہوتے رہنا چاہئے، اور کسی بھی ریاست کو اگر ترقی یا منزل مطلوب و مقصودہے تو اسے اپنا ہر ہر سسٹم اپ ڈیٹ کرتے بھی رہنا چاہئے۔ جائزہ ، پھر میک اپ، یہی وہ حقائق ہیں جن سے کنی کترانا اس تیز رو اور تیز دھار پر چلتی زندگی کیلئے ممکن نہیں رہا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں تند نہیں تانی بگڑی ہو، جمہوریت مغلوب اور "سرکارِ عالیہ" غالب ہو وہاں بناؤ اور جمہوری رویوں کے پروان چڑھنے کیلئے کون سا مَنتر یا فارمولا درکار ہوگا، اور وہ کون سی چیز ہے جو قوم اور پیراڈائم شفٹ کا درمیانی فاصلہ کم کر سکتی ہے؟
اس سے قبل کہ میں اپنے اصلی مدعا اور دعا پر آؤں، قائدِ اعظم محمد علی جناح اور محترمہ بےنظیر بھٹو پر کچھ قلم بند کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ دسمبر کا آخری ہفتہ ان کے تذکروں اور محبتوں سے بھرا ہوتا ہے۔ تاریخ کہتی ہے تاریخ دان اسٹینلے والپرٹ ایک میرین انجینئر تھا، جب نیا نیا پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور بھارت اپنی جگہ بنا تو اس نےہندوستان کے ساحل پر قدم رکھا، اور دیکھتا ہے گاندھی کی وفات پر کثیر تعداد میں لوگ غم میں نڈھال ہیں اور آخری رسومات میں اتنی بڑی شرکت۔ اس موقع پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا علم تو گاندھی جی کے حوالے سے بہت سطحی ہے۔ واپس جاتا ہے، تاریخ میں دلچسپی ہی نہیں لیتا بلکہ انجینئر سے بڑا تاریخ دان بن جاتا ہے، وہ بھی مستند۔ 1959 میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے"تلک اینڈ گوکھلے" پر پی ایچ ڈی کرتا ہے بعد ازاں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پڑھانا شروع کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا اسٹینلے والبرٹ کی ریسرچ کا مرکز تھا، معروف تاریخ کے علاوہ ناول اور افسانے بھی لکھے۔ قائدِ اعظم، گاندھی اور نہرو کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے والدِ محترم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی اثرات پر بھی لکھا۔ جناح کے حوالے سے کہا:
’’ 1۔ چند ہی شخصیات ہوتی ہیں جو........
© Daily Jang
visit website