اردو شاعری میں محبوب کا وہی مقام ہے جو کسی سیاسی پارٹی میں بانی جماعت کا، اُس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا،اُس کے ایک اشارہ ابرو پر عاشقوں کی فوج اور جاں نثاروں کی جماعت کَٹ مرنے کو تیار رہتی ہے۔محبوب کی ناز و ادا اور عِشوہ گری کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا، عُشاق اُس پر جان چھڑکتے ہیں اور محبوب کا قُرب حاصل کرنے کیلئے دیوانہ وار پھرتے ہیں۔ محبوب چاہے تو عاشق کو اپنے دیدار سے فیض یاب کردے اور چاہے تو اُس سے نظریں پھیر لے، محبوب سے پُرس نہیں کی جا سکتی ،محبوب پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا،وہ جتنے مرضی یو ٹرن لے اسے کوئی غلط نہیں کہہ سکتا ، وہ چاہے تو رقیب کے ساتھ مے پیے اور چاہے تو نامہ بر کےساتھ فلرٹ کرے، کسی عاشق کی مجال نہیں کہ اُس کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھے کہ تمہارا نظریہ عشق کیا ہے، اگر جلوت میں رقیب کو برا بھلا کہتے ہو تو خلوت میںنامہ برکو مذاکرات کا پیغام کیوں دیتے ہو؟ غالب کہیں کہیں موقع پا کر اُس سےسوال کر لیتا ہے مگر اِس انداز میں کہ محبوب کو برا نہ لگے۔ملاحظہ ہو:’’میں مضطرِب ہوں وصل میں خوفِ رقیب سے...ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں ۔‘‘یعنی میں تو اِس لیے مضطرِب ہوں کہ کہیں ہماری ملاقات کے دوران رقیب نہ آجائے مگر اے محبوب تم کیوں فکر مند ہو، کیا تمہارے دل میں بھی چور ہے ؟یوں لگتا ہے جیسے غالب نے یہ شعر ایوان ِصدر میں بیٹھ کر کہا تھا!

اردو شاعری کا دوسرا دلچسپ کردار عاشق ہے، پاکستانی ووٹر کی طرح اِس بیچارے کی بھی کوئی زندگی نہیں، اِس کے صرف فرائض ہیں حقوق نہیں ۔ یہ محبوب پر منحصر ہے کہ کبھی کبھار اُس پر ترس کھا کر اپنی محفل میں بلا لے اور وہاں بھی عاشق کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے غیر کے ساتھ چہلیں کرتا رہے۔یہ عاشق کی ڈیوٹی ہے کہ وہ محبوب کو ہمہ وقت اپنی وفاداری کا یقین دلاتا رہے،اُس کے حسن و پیراہن کی تعریف کرے، گاہےگاہے محبوب کو خط لکھے اورآشفتہ سری میں اُس کے گلی کوچے کا طواف کرتا رہے۔’’وائے دیوانگی ِ شوق کہ ہر دم مجھ کو...آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا۔‘‘ اِس کے ساتھ ساتھ عاشق رقیب پر بھی نظر رکھتا ہے اورنامہ برکوبھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ کہیں عاشق کا خط پہنچاتے پہنچاتے وہ خود ہی محبوب پر لٹّو نہ ہوجائے ۔’’تجھ سے توکچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم.... میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے۔‘‘اِس سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اردو شاعری کا محبوب خاصادل پھینک واقع ہوا ہے مگرسچے عاشق کو لفٹ نہیں کرواتاکیونکہ محبوب جانتا ہے کہ عاشق اپنے عشق کے ہاتھوں مجبور ہے ،اگر اسے صحبت میسر نہ بھی آئی تو پھربھی وہ اُس کے درپر ہی پڑا رہے گا ،کسی دوسرےکو ووٹ نہیں دے گا۔

رقیب کو آپ اردو شاعری کا ولن سمجھیں، محبوب کی نظرِ التفات رقیب پر ہی رہتی ہیں اور اِس کا عاشق کو بے حد قلق رہتا ہے ،عاشق مختلف ذریعے سے اپنا مدعا محبوب کے سامنے پیش توکرتا ہے مگر رقیب کی بزم میں اُس کا بس نہیں چلتا ۔’’اُس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالب...ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے۔‘‘محبوب اور رقیب کا قُرب دیکھ کرعاشق آہیں بھرتا ہے اور اپنی بد نصیبی پر ماتم کرتا ہے۔کبھی کبھار عاشق جی کڑا کرکے محبوب سے رقیب کے تعلق کی بابت پوچھ بھی لیتا ہے مگر یہ ہمت غالب کے سوا کسی میں نہیں ۔’’کہا تم نے کہ ’کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی؟... بجا کہتے ہو،سچ کہتے ہو،پھر کہیو کہ ’’ہاں کیوں ہو؟‘‘اِس شعر میں عاشق نے جب محبوب سے پوچھا کہ تم غیر سے کیوں ملتے ہو تو محبوب نے جواب دیا کہ اِس میں کوئی ایسی بات نہیں ، He is just a friend، اِس پر عاشق نے طنزاً کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو ذرا پھر سے کہو تاکہ سب سُن لیں۔اصل میں غریب عاشق کا کوئی قصور نہیں ،اُس کے ساتھ کبھی کسی نے وفا ہی نہیں کی ،لہٰذا اُس کا ہر کَس و ناکَس پر شک کرنا قابل فہم ہے ۔عاشق خلوص نیت کے ساتھ محبوب کی وفا کا دم بھرتا ہے اور اسے یقین دلاتا ہے کہ اُس کا شوق ِ شہادت کبھی ماند نہیں پڑے گا ، وہ تو قتل گاہ میں عریاں شمشیر دیکھ کر بے حال ہوجاتا ہے کہ آج محبوب کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوگی ۔’’عشرتِ قتل گہِ اہل ِتمنا مت پوچھ...عید ِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا۔‘‘مگر محبوب اِس قدر کٹھور ہے کہ سچے عاشق کو ٹھکرا کر کوچہ رقیب میں سر کے بل جاتا ہے۔

ناصح کو آپ اردو شاعری میں سول سوسائٹی یامیڈیا کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں، یہ عاشق کو نصیحتیں کرتا ہے اور اسے سمجھاتا ہے کہ کچھ عقل سے کام لو،کیوں اپنی زندگی ایسے پتھر دل محبوب کے پیچھے برباد کرتے ہو،تمہارا یہ مقام تو نہیں کہ اُس کی ہر بات پر لبیک کہو، کچھ دماغ سے کام لو،سوچو،سمجھو، دیکھو، کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ محبوب تم سے زیادہ رقیب سے گفتگو کرنے میں دلچسپی رکھتاہے،شاید وہ رقیب کو طاقت کا منبع سمجھتا ہے۔لیکن اِن پند و نصائح کا عاشق پر کچھ اثر نہیں ہوتااور وہ اُلٹا سوال کرتا ہے۔’’حضرتِ ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش ِ راہ... کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟‘ یعنی ناصح کی کسی دلیل کا اثر عاشق پر نہیں ہوسکتا کیونکہ اُ س کے دماغ میں وہ ’چِپ‘ ہی نہیں لگی جو اسے محبوب سے بیزار کرسکے۔ویسے بھی عاشق کا خیال ہے کہ اُس کے محبوب نے آج تک کس سے وفا کی ہے جو رقیب سے نبھائے گا!’’رشک کہتا ہے کہ اس غیر سے اخلاص حیف...عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا؟‘‘مجھے اِس قسم کےعاشقوں سے ہمدردی ہے مگر فی الحال اِن کا چمن ویران ہے،بھیڑ کسی اور مے خانے میں لگی ہے ،بلبلیں نغمہ سرا تو ہیں مگر دوسرے گلستاں میں ۔ عاشق ،محبوب ، رقیب اور غیر اُس گلستاں میں بھی ہیں مگر فی الحال وہاں کسی کو شوق شہادت نہیں ، وہ شامِ تنہائی کاٹ چکے، اب انہیں ساقی کا انتظار ہے جو اُن کی تشنہ کامی کا مداوا کرے گا۔’’میں اور بزم ِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں...گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟‘‘اب انتظار ساقی کا ہے، دیکھئے اِس مرتبہ وہ کس کے سامنے جام رکھتا ہے!

فرانس میں بھی امیگرینٹس کیخلاف قوانین مزید سخت کیے جانے لگے، ایوان زیریں نے بل منظور کرلیا۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیل اور امریکا قرارداد میں جنگ بندی کی اصطلاح استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔

جنوبی افریقہ نے بھارت کو سیریز کے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں 8 وکٹ سے شکست دے دی۔

شارع فیصل پر عمارت میں لگی آگ پر فائر بریگیڈ کی پانچ گاڑیوں نے تقریباً ایک گھنٹے کی جدوجہد کے بعد قابو پالیا، عمارت کی چھت پر جانے والے تین افراد کو بھی ریسکیو کرلیا گیا۔

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے بجلی 4 روپے 66 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست جمع کرادی۔

گجرات سے تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے سابق رکن قومی اور صوبائی اسمبلی نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینئر وکیل خامد خان نے کہا ہے کہ ہم انتخابات کا التوا نہیں چاہتے، پارٹی کو بلے کا انتخابی نشان ملنا چاہیے۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے کہا ہے کہ تاثر ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار انتخابات کا التوا چاہتی ہے۔

دوحہ سے کراچی آنے والے قطر ایئر ویز کے طیارے سے پرندہ ٹکرا گیا تاہم طیارے کو باحفاظت لینڈ کروا دیا گیا۔

راولپنڈی پولیس کا لاپتہ سابق پولیس اہلکار 7 سال بعد بازیاب کرالیا گیا۔

قرارداد پاکستان اور فلپائن نے اسپانسر کی تھی۔

عالمی ادارے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ غزہ تنازع بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ناکامی ہے۔ ریڈ کراس کی صدر مرجانہ اسپولجرچ ایگر نے دورہ غزہ اور اسرائیل کے بعد جینوا پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی۔

ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کے وکلاء کے مطالبے کو مسترد کردیا۔

کوئٹہ سے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اسلام آباد سے وفاقی وزارت ہیلتھ سروسز کے ترجمان کے مطابق کوئٹہ سے سیوریج کے پانی کے 2 نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق حادثہ درخشان تھانے کی حدود میں خیابان شمشیر پر پیش آیا۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی نے عام انتخابات کے حوالے سے اعلامیہ جاری کردیا۔

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

25 17
20.12.2023

اردو شاعری میں محبوب کا وہی مقام ہے جو کسی سیاسی پارٹی میں بانی جماعت کا، اُس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا،اُس کے ایک اشارہ ابرو پر عاشقوں کی فوج اور جاں نثاروں کی جماعت کَٹ مرنے کو تیار رہتی ہے۔محبوب کی ناز و ادا اور عِشوہ گری کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا، عُشاق اُس پر جان چھڑکتے ہیں اور محبوب کا قُرب حاصل کرنے کیلئے دیوانہ وار پھرتے ہیں۔ محبوب چاہے تو عاشق کو اپنے دیدار سے فیض یاب کردے اور چاہے تو اُس سے نظریں پھیر لے، محبوب سے پُرس نہیں کی جا سکتی ،محبوب پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا،وہ جتنے مرضی یو ٹرن لے اسے کوئی غلط نہیں کہہ سکتا ، وہ چاہے تو رقیب کے ساتھ مے پیے اور چاہے تو نامہ بر کےساتھ فلرٹ کرے، کسی عاشق کی مجال نہیں کہ اُس کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھے کہ تمہارا نظریہ عشق کیا ہے، اگر جلوت میں رقیب کو برا بھلا کہتے ہو تو خلوت میںنامہ برکو مذاکرات کا پیغام کیوں دیتے ہو؟ غالب کہیں کہیں موقع پا کر اُس سےسوال کر لیتا ہے مگر اِس انداز میں کہ محبوب کو برا نہ لگے۔ملاحظہ ہو:’’میں مضطرِب ہوں وصل میں خوفِ رقیب سے...ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں ۔‘‘یعنی میں تو اِس لیے مضطرِب ہوں کہ کہیں ہماری ملاقات کے دوران رقیب نہ آجائے مگر اے محبوب تم کیوں فکر مند ہو، کیا تمہارے دل میں بھی چور ہے ؟یوں لگتا ہے جیسے غالب نے یہ شعر ایوان ِصدر میں بیٹھ کر کہا تھا!

اردو شاعری کا دوسرا دلچسپ کردار عاشق ہے، پاکستانی ووٹر کی طرح اِس بیچارے کی بھی کوئی زندگی نہیں، اِس کے صرف فرائض ہیں حقوق نہیں ۔ یہ محبوب پر منحصر ہے کہ کبھی کبھار اُس پر ترس کھا کر اپنی محفل میں بلا لے اور وہاں بھی عاشق کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے غیر کے ساتھ چہلیں کرتا رہے۔یہ عاشق کی ڈیوٹی ہے کہ وہ محبوب کو ہمہ وقت اپنی وفاداری کا یقین دلاتا رہے،اُس کے حسن و پیراہن کی تعریف کرے، گاہےگاہے محبوب کو خط لکھے اورآشفتہ سری میں اُس کے گلی کوچے کا طواف کرتا رہے۔’’وائے دیوانگی ِ شوق کہ ہر دم مجھ کو...آپ جانا........

© Daily Jang


Get it on Google Play