”پختون بیلٹ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے لیبارٹری کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی جنگوں اور تجربات کیلئے اس خطے کو میدان بنایا اور ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی۔ مجھے اس حوالے سے دیگر ملکی صحافیوں کی نسبت یہ سبقت حاصل رہی کہ میں ان بے چہرہ جنگوں کا حصہ بھی رہا، اس کے متاثرین میں بھی شامل رہا اور بطور صحافی انکا مشاہدہ اور تجزیہ کرنے والا بھی رہا اور ”ڈرٹی وار“ کی صورت میں ان مشاہدات کو سپرد قلم کرچکا ہوں۔ یوں تو اس لیبارٹری میں ان منحوس تجربات کا یہ سلسلہ گزشتہ چالیس سال سے جاری ہے لیکن میری کتاب ”ڈرٹی وار“ میں صرف بیس سال یعنی 2001 سے 2023تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اس بیس سالہ ہمہ پہلو جنگ کی روداد بھی ہے، اور ہر موڑ سے متعلق میرا تجزیہ اور اس وقت اس کے حل کے حساب سے میری تجاویز بھی ہیں۔

جو جنگ پختون بیلٹ میں وار آن ٹیرر کے نام پر لڑی گئی، اس کا صرف ایک پہلو یعنی ستر اسی ہزار انسانوں کا لقمہ اجل بن جانا دنیا کے سامنے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے پورے پاکستان اور بالخصوص پختون بیلٹ کے باسی کئی حوالوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس جنگ نے انکی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔سیاست اور اس کے کردار بری طرح متاثر کئے۔ انکے ادب اور شاعری کو غیرمعمولی حد تک متاثر کیا ۔ انکی تہذیب اور ثقافت اور سماجی رویوں کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا ۔لیکن دنیا اور باقی اہل پاکستان ان پہلوئوں سے بے خبر یا لاتعلق رہے ۔ یہ گندی اور زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرنے والی جنگ اگر دنیا کے کسی اور ملک میں لڑی گئی ہوتی تو اب تک اس پر سینکڑوں فلمیں بن چکی ہوتیں اور ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہوتیں یا پھر جگہ جگہ اس کے میوزیم بنے ہوتے (میں کئی سال سے یہ تجویز دے رہا ہوں کہ فضول کاموں کیلئے استعمال ہونے والے انگریز دور کے بنائے ہوئے وسیع و عریض گورنر ہائوس کو وار آن ٹیرر کے میوزیم کے طور پر استعمال کیا جائے ) لیکن افسوس اس حوالے سے پاکستان میں جو کچھ لکھا اور کہا گیا وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو کچھ لکھا بھی گیا ہے وہ مغربی مصنفین نے لکھا ہے جبکہ ہمارے اپنے لوگوں کی کتابیں یا دستاویزی فلمیں وغیرہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ”ڈرٹی وار“ جس میں صرف پاکستانی سائیڈ کے وارآن ٹیرر کی مختلف شکلوں اور اس کے اثرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ افغانستان کے حصے کی کتاب ”طالبان سے طالبان تک“ کے نام سے میں ابھی مرتب کررہا ہوں۔

عالمی اردو کانفرنس میں پشتو موسیقی سے متعلق بھی احمد شاہ صاحب نے سوال اٹھایا تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ ادب، شاعری اور موسیقی سے پختونوں کے لگائو کا یہ عالم ہے کہ آگ و خون کے یہ چالیس سال بھی انہیں ان چیزوں سے دور نہ کرسکے۔ البتہ ان جنگوں نے ان کے کلچر کے ساتھ ان چیزوں کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ ہم نے یہ صورت حال بھگتی ہے کہ بم دھماکے میں زندگی کھونے والے کسی عزیز یا دوست کی فوتیدگی کی اطلاع انکا کوئی عزیز دیتا تو ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا کہ بس صرف آپ کو مطلع کرنا تھا باقی پلیز آپ جنازے میں نہ آئیں کیونکہ مزید دھماکوں کا خطرہ ہے اور آپ کے آنے سے ہمارے جنازے میں بھی دھماکے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی معاشرے کی اقدار کی تباہی اور کیا ہوگی کیونکہ پختونوں میں غمی شادی پر نہ جانے کو معاف نہیں کیا جاتا تھا لیکن اس دور میں اپنوں کی شہادت کی اطلاع دینے والا یہ تلقین بھی کرتا کہ آپ جنازے میں نہ آئیں۔ شاعری کے ان حالات سے متاثر ہونے کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ اس دوران مقبول نظمیں اور غزلیں وہ رہیں اور ہیں جو وار آن ٹیرر اور اس کے اثرات سے متعلق تھیں۔ مثلاً اس وقت سب سے زیادہ فضل سبحان عابد کی جو نظم مقبول رہی وہ اس منحوس جنگ سے متعلق تھی۔ اس نظم کے الفاظ یہ ہیں کہ ”پہ پیخور کے پرھر مہ جوڑوہ لا د کابل پرھر ورغلے نہ دے۔ دلتہ لابل د وینو جام ڈکوے۔ ھغہ ڈک جام د لا گوٹلے نہ دے“ (ترجمہ اس کا یوں ہے کہ اے ظالم! پشاور کو زخمی نہ کرو۔ ابھی تو کابل کے زخم بھی مندمل نہیں ہوئے۔ تم ابھی یہاں خون کا نیا جام بھرنے لگے ہو حالانکہ پہلے سے موجود خون کے جام کو ابھی آپ نے پی کر ختم بھی نہیں کیا)۔ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہمارے ہاں جو لغو اور بیہودہ قسم کے سی ڈیزگانے بنتے رہے، وہ بھی ان حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مثلاً ایک بیہودہ گانا یہ رہا کہ خاتون بیہودہ ناچ کرتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ ”خود کشہ دھماکہ یمہ خودکشہ دھماکہ“ یعنی میں خودکش دھماکہ ہوں۔

میں نے اتنا یہ کتاب مرتب کرتے ہوئے نہیں سوچا جتنا کہ اس کا نام یعنی ”ڈرٹی وار“ رکھتے ہوئے سوچا ۔ اس کتاب میں آپ تفصیل دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ بھی ڈبل گیم کررہا ہے ۔ وہ القاعدہ سے نمٹنے کیلئے یہاں آیا لیکن پھر ابتدا میں افغانستان کو مسکن بنا کر پڑوسی ممالک کو سیدھا کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔ افغانستان کو پوری طرح سنبھالا نہیں تھا اور عراق میں جاگھسا ۔ اسی طرح امریکہ اور پاکستان نے مل کر سوویت یونین کے مقابلے میں جہادی کلچر کو پروان چڑھایا۔پھر مجاہدین میں پاکستان نے گلبدین حکمتیار کی سلیکشن کی اور ان سے دیگر مجاہد لیڈروں کو پٹوانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے خلق اور پرچم کے وابستگان کے علاوہ وہ مجاہد بھی پاکستان مخالف بن گئے ۔ پھر گلبدین حکمتیار کے مقابلے میں طالبان کو سپورٹ کیا۔ پھر نائن الیون کے بعد طالبان کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دیا لیکن 2003 میں جب امریکہ نے پاکستان کی انڈیا سے متعلق تشویش پر توجہ نہ دی تو پاکستان نے پھر درپردہ طالبان کو سپورٹ کرنا شروع کیا۔پاکستان ٹی ٹی پی سے لڑتا رہا لیکن ٹی ٹی پی کے سرپرست افغان طالبان کو سپورٹ کرتا رہا۔ ان بیس برسوں میں پاکستان امریکہ کا اتحادی بھی تھا لیکن دونوں کا ایک دوسرے سے رویہ دشمنوں والا بھی رہا ۔ اسی طرح پاکستان حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو باقی دنیا کی طرح تسلیم کرکے اس کا اتحادی بھی رہا لیکن بیس سال میں دونوں کا عملی رویہ ایک دوسرے کے ساتھ دشمن والا رہا ۔ طالبان کے کچھ لیڈروں کو پاکستان میں گرفتار بھی کیا گیا تھا اور اسکےساتھ پاکستان نے طالبان کو پناہ بھی دی ہوئی تھی ۔ گویا ایک گندی جنگ تھی جو عالمی اور علاقائی کھلاڑی پختون سرزمین پر لڑتے رہے ۔ اس لئے مجھے اردو میں کوئی ایسا لفظ نہیں ملا کہ وہ اس ہمہ پہلو ڈبل گیموں کا احاطہ کرسکے ۔یہی وجہ ہے کہ مجبوراً مجھے اپنی کتاب کانام ”ڈرٹی وار“ رکھنا پڑا جو کسی حد تک اس کتاب کے مندرجات کا احاطہ کرتا ہے ۔

(کراچی آرٹس کونسل کے زیراہتمام منعقدہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر میری کتاب ”ڈرٹی وار“ کی تقریب ِرونمائی میں کی گئی تقریر کا خلاصہ )

ترجمان اے ایس ایف کے مطابق مسافر سحر بانو نے ہیروئن اپنے پیٹ کے نیچے بیلٹ کے ساتھ مہارت سے باندھ رکھی تھی۔

نیلسن منڈیلا کی دسویں برسی کے موقع پر جوہانسبرگ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے تک افغانستان میں عورتیں کام کرتی تھیں، وزارتوں پر بھی فائز تھیں۔

دبئی کی پرواز میں 27 سال کے دھرووال دھرمیش کمار سونی کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔

بجلی کمپنیوں کے افسران کیلئے مفت بجلی کی سہولت ختم کردی گئی۔

پولیس کے مطابق واقعہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے۔

سعودی مجلس شوریٰ کے ارکان نے شادی سے قبل ڈرگ ٹیسٹ کی تجویز دی ہے۔ ریاض سے سعودی میڈیا کے مطابق 6 ارکان شوریٰ نے شادی سے قبل طبی معائنے میں ڈرگ ٹیسٹ کی تجویز دی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں سیکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، آئی ایس پی آر

پاکستانی لڑکی جویریہ خانم کو بھارتی نوجوان سمیر سے شادی کے لیے بالآخر بھارتی ویزا مل گیا۔

روسی صدر اسرائیل حماس جنگ، تیل کی پیداوار اور دیگر علاقائی امور پر بات کریں گے۔

اگر کوئی اور دشمن ایجنٹ گرفتار ہو تو کریمینل لا 1958 کے تحت ٹرائل ہوگا، حکم نامہ

برطانیہ میں پناہ طلب کرنے والوں کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ لندن سے میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ جیمز کلیورلی نے روانڈا میں نئے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔

اسرائیلی فوج کے دیرالبلح کے رہائشی علاقے میں فضائی حملے میں 45 افراد شہید ہوئے، فلسطینی وزارت صحت

ذرائع کے مطابق اسپائس جیٹ ایئر کی پرواز ایس جی 15 نے رات ساڑھے 9 بجے پر کراچی لینڈ کیا۔

بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے نااہلی فیصلے کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست دائر کی۔

محکمہ کالج کے پروفیسر حفیظ اللّٰہ کو سیکریٹری سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ تعینات کردیا گیا۔

QOSHE - سلیم صافی - سلیم صافی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سلیم صافی

35 38
06.12.2023

”پختون بیلٹ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے لیبارٹری کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی جنگوں اور تجربات کیلئے اس خطے کو میدان بنایا اور ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی۔ مجھے اس حوالے سے دیگر ملکی صحافیوں کی نسبت یہ سبقت حاصل رہی کہ میں ان بے چہرہ جنگوں کا حصہ بھی رہا، اس کے متاثرین میں بھی شامل رہا اور بطور صحافی انکا مشاہدہ اور تجزیہ کرنے والا بھی رہا اور ”ڈرٹی وار“ کی صورت میں ان مشاہدات کو سپرد قلم کرچکا ہوں۔ یوں تو اس لیبارٹری میں ان منحوس تجربات کا یہ سلسلہ گزشتہ چالیس سال سے جاری ہے لیکن میری کتاب ”ڈرٹی وار“ میں صرف بیس سال یعنی 2001 سے 2023تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اس بیس سالہ ہمہ پہلو جنگ کی روداد بھی ہے، اور ہر موڑ سے متعلق میرا تجزیہ اور اس وقت اس کے حل کے حساب سے میری تجاویز بھی ہیں۔

جو جنگ پختون بیلٹ میں وار آن ٹیرر کے نام پر لڑی گئی، اس کا صرف ایک پہلو یعنی ستر اسی ہزار انسانوں کا لقمہ اجل بن جانا دنیا کے سامنے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے پورے پاکستان اور بالخصوص پختون بیلٹ کے باسی کئی حوالوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس جنگ نے انکی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔سیاست اور اس کے کردار بری طرح متاثر کئے۔ انکے ادب اور شاعری کو غیرمعمولی حد تک متاثر کیا ۔ انکی تہذیب اور ثقافت اور سماجی رویوں کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا ۔لیکن دنیا اور باقی اہل پاکستان ان پہلوئوں سے بے خبر یا لاتعلق رہے ۔ یہ گندی اور زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرنے والی جنگ اگر دنیا کے کسی اور ملک میں لڑی گئی ہوتی تو اب تک اس پر سینکڑوں فلمیں بن چکی ہوتیں اور ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہوتیں یا پھر جگہ جگہ اس کے میوزیم بنے ہوتے (میں کئی سال سے یہ تجویز دے رہا ہوں کہ فضول کاموں کیلئے استعمال ہونے والے انگریز دور کے بنائے ہوئے وسیع و عریض گورنر ہائوس کو وار آن ٹیرر کے میوزیم کے طور پر استعمال کیا جائے ) لیکن افسوس اس حوالے سے پاکستان میں جو کچھ لکھا اور کہا گیا وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو کچھ لکھا بھی گیا ہے وہ مغربی مصنفین نے لکھا ہے جبکہ ہمارے اپنے لوگوں کی کتابیں یا دستاویزی فلمیں........

© Daily Jang


Get it on Google Play