غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے۔ مسلمان ممالک نے سعودی عرب میں جمع ہو کر او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں ہمیشہ کی طرح چند قراردادیں منظور کر کے اپنا اخلاقی فرض پورا کر دیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر وہ ہیں جو امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حاشیہ بردار ہیں اور قراردادیں منظور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ بعض مسلم ممالک تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن سائوتھ افریقہ جو کہ مسلمان بھی نہیں ہے اس کی حکومت نے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف باضابطہ درخواست دائر کر کے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم پر مبنی مقدمات چلائے جائیں۔ نسل کشی کنونشن میں 149ممالک فریق ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کنونشن میں دفعات دو، تین، چار، آٹھ اور نو کے مطابق اسرائیل جنگی جرائم اور نسل کشی کا مجرم ہے اور ان تمام ممالک بشمول پاکستان کا فرض ہے کہ غزہ میں جاری نسل کشی کو نہ صرف روکیں بلکہ اس نسل کشی کے مجرم اسرائیل کے سرپرستوں امریکہ اور برطانیہ کو بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کریں مگر یہ اس لیے ممکن نہیں کہ ان ممالک میں موجود بالخصوص مسلم ممالک کی اکثریت امریکی سامراج کو اپنا آقا تسلیم کرتی ہے اور اس کی خواہشات کو اپنے لیے حکم سمجھتی ہے جبکہ دنیا بھر کے لاکھوں عوام امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل سمیت ان تمام حکومتوں کو جو اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی مدد فراہم کر رہی ہیں برابر کا مجرم قرار دے رہے ہیں۔ نہ صرف یورپ، امریکہ، آسٹریلیا بلکہ دنیا بھر کے تمام ممالک میں ہر ہفتے لاکھوں عوام کے مظاہرے اور احتجاج بڑھتے جا رہے ہیں۔ نسل کشی کنونشن کی دفعہ دوم کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں قومی، نسلی، مذہبی گروہوں کی مکمل یا جزوی طور پر تباہی، قتل، جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر ایسے اجتماعی حالات پیدا کرنا بھی شامل ہیں جو جسمانی تباہی کے ذمہ دار ہوں۔ اسرائیل کی جانب سے شہریوں پر بمباری اور فلسطینیوں کو خوراک،پانی اور دیگر ضروریات زندگی سے محروم کرنے کی موجودہ صورت حال نسل کشی کنونشن کی دفعہ دوم کے زمرے میں آتی ہے۔ اسی طرح کنونشن کی دفعہ سوم کے مطابق نسل کشی، نسل کشی کی سازش رچانا، نسل کشی کے لیے براہِ راست اشتعال انگیزی، نسل کشی کی کوشش اور نسل کشی میں ملوث ہونا۔ یہ سب نسل کشی کے جرائم ہیں۔ اسی طرح دفعہ چہارم کے مطابق دفعہ تین کے زمرے میں آنے والے ان تمام فریقوںکو مجرم قرار دیا جائے گا خواہ وہ آئینی طور پر ذمہ دار حکمران ہوں، سرکاری عہدیدار ہوں یا نجی افراد ہوں لہٰذا نیتن یاہو، بائیڈن اور سوناک انفرادی طور پر بھی اس جرم میں ملوث ہیں اور وہ دانشور بھی جو آج کل صرف پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو یہ کہہ کر بالواسطہ طور پر جائز قرار دے رہے ہیں کہ ’’ حماس نے پنگا کیوں لیا تھا، اب بھگتو‘‘۔ وہ اپنے اس طرح کے تبصروں سے اسرائیلی مظالم، فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی مکمل تباہی کی معاونت کر رہے ہیں۔ اس طرح کے زرخیز دماغ والے ارسطو دانشور اور امریکہ نواز لبرلز عموماً پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔ چند سال پہلے لندن میں مقیم مارکیٹ کہلائے جانے والے خود ساختہ جلاوطن ایک پروفیسر لندن سکول آف اکنامکس کے پب میں میرے اس فقرے پر کہ ہر شخص حسنِ ناصر نہیں ہو سکتا، تبصرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ حسن ناصر کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ انجام کیا ہو گا۔ یعنی پنگا کیوں لیا تھا۔ میرے ایک عزیز ساتھی جو میرے ساتھ بیٹھے تھے آہستگی سے کہنے لگے کہ پھر تو امام حسینؑ کو بھی یہ معلوم تھا کہ انجام کیا ہو گا۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی جدوجہد تاریخ میں آنے والی نسلوں کے لیے نشان منزل اور مشعل راہ ہوتی ہے۔ فلسطینی جو 1947ء سے اپنی مادر وطن کے حصول، اپنی آزادی اور اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ کئی نسلوں سے حالت جنگ میں ہیں جن پر امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اور کچھ مسلمان حکمرانوں کی خاموش رضا مندی کے ساتھ اسرائیل مسلسل ظلم کرتا چلا آیا ہے۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے یہودی بستیاں بسا کر، ان کا قتل عام کر کے اب ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کے در پے ہے۔ پاکستان کی امریکہ نواز حکومتیں اسرائیل کے معاملے پر امریکہ کا ساتھ دیتی آئی ہیں اور بھٹو صاحب سے لے کر شاہ فیصل تک، ناصر سے لے کر قذافی تک، جس مسلمان سربراہ مملکت نے بھی امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی سے اختلاف کیا ہے اس کو نشان عبرت بنایا گیا ہے۔ 26جولائی 1956ء کو جب جمال عبدالناصر نے نہر سویز پر برطانیہ اور فرانس کے کنٹرول کو ختم کر کے اسے قومیایا تو 29اکتوبر کو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر نہر سویز پر حملہ کیا۔ اس حملے سے پہلے ستمبر میں برطانیہ نے جن ممالک کی کانفرنس بلائی اس میں پاکستان بھی تھا۔ مرحوم آصف جیلانی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ’’پچھلے دنوں میں برٹش لائبریری میں اس کانفرنس کا ریکارڈ دیکھ رہا تھا کہ یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے پاکستان کے وزیر خارجہ سرفیروز خان نون نے بڑے اعتماد اور وثوق سے اس کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ اسرائیل قائم رہنے کے لیے معرض وجود میں آیا ہے‘‘۔ ان کا یہ کالم 26نومبر 2019ء کو شائع ہوا تھا۔ یاد رہے کہ جناح صاحب واضح طور پر ارض فلسطین پر اسرائیل کی مملکت کے قیام کی مخالفت کر چکے تھے بلکہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گوریاں نے 1948ء میں جب جناح صاحب کو اسرائیل کی مملکت کو تسلیم کرنے کے لیے خط لکھا تھا تو جناح صاحب نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنا مؤقف بیان کر چکے تھے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہی جناح صاحب کی وفات کے بعد پاکستان امریکہ کی گود میں بیٹھ چکا تھا اور اس پر اینگلو امریکی نواز اور حاشیہ بردار قابض ہوتے چلے گئے تھے۔ فیروز خان نون کا تعلق میرے شہر سرگودھا کے اس جاگیردار خاندان سے تھا جو ہندوستان میں برطانوی راج کا اہم ستون مانا جاتا تھا اور برطانوی راج کی وفاداری کے عوض فیروز خان نون کو سر کا خطاب دیا گیا تھا۔ فیروز خان کی بیگم آسٹرین یہودی تھیں۔ اسی رشتے کے پیش نظر اس زمانے میں جب وہ 1931-36ء تک برطانوی ہندوستان کے لندن میں ہائی کمشنر تھے برطانیہ کے نو آبادیاتی امور کے وزیر لارڈ موین نے ان سے کہا تھا کہ وہ فلسطین کی سرزمین پر یہودی مملکت کے قیام کے بارے میں ایک ایسی سکیم تیار کریں کہ اس مملکت کے قیام کا الزام برطانیہ پر عاید نہ ہو۔ اس کے بعد سر فیروز خان نون نے ہندوستان کے امور کے وزیر لیو پولڈ ایمرے کو جو خود یہودی تھے، عرب سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے بارے میں ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ فیروز خان نے اپنے اس منصوبے میں تجویز پیش کی تھی کہ پہلے عرب ممالک کی فیڈریشن قائم کی جائے جس میں یہودی مملکت کو شامل کر لیا جائے۔ اس طرح یہ یہودی مملکت عرب فیڈریشن میں شمولیت کی بنیاد پر ایک آزاد اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے معرض وجود میں آ جائے گی۔ اس مملکت کو عرب فیڈریشن کی چھتری بھی حاصل ہو گی اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ یہ یہودی مملکت برطانیہ نے قائم کی ہے۔ یہ منصوبہ لیوپولڈ ایمرے نے 10ستمبر 1935ء کو برطانوی وزیر اعظم چرچل کو پیش کیا جس کو سراہتے ہوئے فیروز خان کو سر کا خطاب دیا گیا تھا۔ تل ابیب یونیورسٹی کی ریسرچ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ سر فیروز خان پاکستان کے اسرائیل نواز رہنمائوں میں نمایاں تھے۔(جاری ہے)
QOSHE - فلسطین اور جدوجہد آزادی……(6) - علی جعفر زیدی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

فلسطین اور جدوجہد آزادی……(6)

12 0
16.11.2023


غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے۔ مسلمان ممالک نے سعودی عرب میں جمع ہو کر او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں ہمیشہ کی طرح چند قراردادیں منظور کر کے اپنا اخلاقی فرض پورا کر دیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثر وہ ہیں جو امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے حاشیہ بردار ہیں اور قراردادیں منظور کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ بعض مسلم ممالک تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن سائوتھ افریقہ جو کہ مسلمان بھی نہیں ہے اس کی حکومت نے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف باضابطہ درخواست دائر کر کے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم پر مبنی مقدمات چلائے جائیں۔ نسل کشی کنونشن میں 149ممالک فریق ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کنونشن میں دفعات دو، تین، چار، آٹھ اور نو کے مطابق اسرائیل جنگی جرائم اور نسل کشی کا مجرم ہے اور ان تمام ممالک بشمول پاکستان کا فرض ہے کہ غزہ میں جاری نسل کشی کو نہ صرف روکیں بلکہ اس نسل کشی کے مجرم اسرائیل کے سرپرستوں امریکہ اور برطانیہ کو بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کریں مگر یہ اس لیے ممکن نہیں کہ ان ممالک میں موجود بالخصوص مسلم ممالک کی اکثریت امریکی سامراج کو اپنا آقا تسلیم کرتی ہے اور اس کی خواہشات کو اپنے لیے حکم سمجھتی ہے جبکہ دنیا بھر کے لاکھوں عوام امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل سمیت ان تمام حکومتوں کو جو اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی مدد فراہم کر رہی ہیں برابر کا مجرم قرار دے رہے ہیں۔ نہ صرف یورپ، امریکہ، آسٹریلیا بلکہ دنیا بھر کے تمام ممالک میں ہر ہفتے لاکھوں عوام کے مظاہرے اور احتجاج بڑھتے جا رہے ہیں۔ نسل کشی کنونشن کی دفعہ دوم کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں قومی، نسلی، مذہبی گروہوں کی مکمل یا جزوی طور پر........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play