ربع صدی ہوتی ہے۔ گائوں کو خیر آباد کہے ہوئے ،مگر دل ابھی تک وہی دھڑکتا ہے ،اس وجہ سے نہیں کہ وہاںزندگی سستی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ میرا خمیر اسی مٹی سے اٹھا ہے۔ خوبصورت پگڈنڈیاں، سہانی گلیاں، کشادہ سڑکیں اور بازاروں کے درودیوار میری پہلی محبت ہیں۔ پرائمری سکول کی تعلیم ڈیرہ ہاشم خاں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر حاصل کی ۔اس وقت سکول کی چار دیوار نہ تھی ،گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں کانٹے دار چھاڑیوں کی باڑ کاٹ کر لانا فرض عین ہوا کرتا تھا تاکہ تین مہینے سکول میں کوئی جانور نہ گھس جائے ۔بعد ازاں میانوال رانجھا میں حفظ قرآن مجید کے لیے داخل ہوا تو یہ گائوں میری دوسری محبت بن گیا ۔اس کے در دو دویوار سے ایسی محبت قائم ہوئی کہ عید کے موقع پر جب بھی گائوں جاتا ہوں تو میانوال رانجھا کا ایک چکر لازمی ۔اس باربھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ان تنگ گلیوں سے بھی گزارا جہاں کبھی ایک بالٹی اور تھال اٹھائے صبح و شام جاتے تھے ۔میانوال رانجھا کو شہرت انھے شریف کی وجہ سے ملی ۔میانوال رانجھا سے 3کلو میٹر کے فاصلے پر انھے شریف واقع ہے۔اس کیوجہ شہرت مولانا غلام رسول المعروف بابا جی انہی والے ہیں، جو اپنے دور کے بہت بڑے عالم دین تھے، پورے ایشیاء سے علم کے متلاشی یہاں آتے ۔مولانا غلام رسول ؒ کے دامادمولانا ولی اللہ ؒ کا چرچا دارالعلوم دیوبند تک رہا ۔ حضرت مولانا ولی اللہ استاذ الکل تھے ۔ فلسفہ، منطق پڑھانے میں مہارت تامہ کے حامل۔ ادارہ کیا تھا،ایک برگد کا درخت ۔ اس کے متصل چھوٹی سے کچی مسجد تھی، جہاں یہ چشمہ جاری ہوا۔ تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا کہ دارالعلوم دیوبند (انڈیا) سمیت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ،سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ،مولانا نذر الرحمن (امیر تبلیغی جماعت )اور مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ (بانی جامعۃ الرشیدکراچی) جیسے جید علما کرام نے یہاں تلمذ اختیار کیا ۔ عیدالفطر کے موقع پر جب میانوال رانجھا میں استاد محترم حافظ فیض اللہ صاحب کے پاس حاضری کا موقع ملا تو دل بجھ سا گیا ۔اڈا والی مسجد جو میرا مادر علمی ہے ،انھی شریف کے بعد جس نے میانوال رانجھا کو ایک علمی مقام کے طور پر متعارف رکھا،اس کا چراغ ٹمٹانہیں،مرجھا چکا ہے۔ میں نے دروازے پر موٹرسائیکل کھڑی کی اور اپنی مسجد میں داخل ہو کرکچھ لمحات حفظ والی جگہ پر کھڑا رہا۔محراب کے دائیں بائیں ویسے ہی الماریاں موجود تھیں مگر سامنے نشست خالی تھی، جہاں کبھی استاد محترم حافظ فیض احمد نورانی چہرے کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تھے۔ اڈا والی مسجد کے متصل جناز گاہ بھی تھا مگر جب اس میں جھانکا تو جنازہ گاہ کی جگہ گاڑیوں کا سٹینڈ پایا ۔ تب مجھے حاجی غلام رسول گنڈے کا شدت سے یاد آئے، اگر آج وہ زندہ ہوتے تو شاید کسی کو پارکنگ کی جرات نہ ہوتی ۔حاجی مشتاق کی کریانہ کی دکان کی جگہ الشفاء میڈیکل سٹور کا بورڈ چسپاں تھا۔ مگر سامنے چاچا نذیر کی دکان 1994ء کی طرز پر ہی موجود تھی ۔ اڈاوالی مسجد کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا۔پتھر اور مردہ دلوں پراس کا کیا اثر ہو گا؟یاد رکھیے ! جو فیصلے بروقت نہیں کئے جاتے، وقت ان کا فیصلہ خود کرتا ہے اور وقت کا فیصلہ بے رحم ہوتا ہے۔دو چار دن کی بات نہیں،پون صدی کا قصہ ہے۔اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں،تو ہنستا مسکراتا چمن تھا ، جو آج ویران ہو چکا ہے۔ قوموں کی زندگی جب شرانگیزی میں مبتلا ہوتی ہے تو اخلاق ہی نہیں بگڑتے ،تخت و تاج بھی جاتے ہیں ۔جب تاج چھنتے ہیں تو اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔میانوال رانجھا سے علم کے تاج کیا چھنے۔ قاری محمد اشرف ؒ اور حافظ عنایت اللہ ؒ آسودہ خاک ہوگئے۔ حاجی غلام رسول قبرستان کے مکین بن گئے توحافظ فیض صاحب کو بڑھاپے نے گھیر لیا۔ یوں میانوا ل رانجھا میں تاریکیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔حاجی غلام رسول گنڈے کا کو اپنے گائوں میںباعث تکریم سمجھا جاتا۔ آج بھی وہ منظر یاد ہے، سردیوں کی ایک صبح تھی کُہر چھایا ہوا تھا انگیٹھی سلگانے دو شالہ اوڑھے بیٹھے تھے ۔لب ولہجے میں انفرادیت،آواز گرج دار۔ انھی شریف نفسوں کے اندر تغیر لانے کا اہتمام کرتا تھا۔ اس درس گاہ کا ابتدائی دور دِیا جلانے کا دور تھا۔ وسطی دوراس دِیے کی لَو کے لپکنے کا دور تھا ۔پھر اس دِیے سے دروبام روشن کا دور بھی آیا۔جب راقم نے میانوال حفظ میں داخلہ لیا تو اڈا والی مسجد ایک چراغ اور سراج الھدی ایک دِیے کی مانند تھا۔ مگر اس چراغ کی لو بھی بجھ گئی ۔ایک ویرانی سی ویرانی کامنظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔قوموں کی زندگیوں میں یہ وقت بہت منحوس ہوتا ہے، جب ان کے روبرو علمی اثاثے کے آثار ہی مٹنا شروع ہو جائیں۔ نئی نسل کی بے راہ روی ہو یا دین سے بیگانگی بگڑے رائیسوں کے شب و روز کے افسانے ہوں یا غزہ کی بدحالی کا رونا ہر موقع پر اڈاوالی مسجد نے ایک مثالی کردار ادا کیا۔ ایک صاحبزادے کی ذاتی زندگی کے واقعات سے لوگوں کے دلوں سے دین کی توقیر اٹھ گئی، ہر کس و ناکس اب صاحبزادے کی آڑ میں استاد محترم کی کردار کشی کرنا نظر آتا ہے، اب بھی کئی لوگوں نے خاموشی پر قناعت کر رکھی ہے۔ مگر زیادہ تر تختہ مشق بنانے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ کاش! اب کوئی میانوال رانجھا کی مذہبی نشاۃ ثانیہ کا سمبل بن کر ابھرے۔ منطق جس کی یخ بستہ ہو، خطابت میں شعلہ فشاں۔ دلائل پر جائے تو انبار لگا دے، خطابت شروع کرے تو بخاری کی یاد آ جائے، بذلہ سنج، شستہ مزاج ،سحر بیان اور دلائل کا پہاڑ ۔ ذخیر الفاظ، ان کی تراکیب، ان کی بندشیں ،ان کی گفتار، اسلوب بیان ،غرض ہر ادا مثالی ہو۔
QOSHE - گائوںمیں عید ! - امتیاز احمد تارڑ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

گائوںمیں عید !

9 0
15.04.2024




ربع صدی ہوتی ہے۔ گائوں کو خیر آباد کہے ہوئے ،مگر دل ابھی تک وہی دھڑکتا ہے ،اس وجہ سے نہیں کہ وہاںزندگی سستی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ میرا خمیر اسی مٹی سے اٹھا ہے۔ خوبصورت پگڈنڈیاں، سہانی گلیاں، کشادہ سڑکیں اور بازاروں کے درودیوار میری پہلی محبت ہیں۔ پرائمری سکول کی تعلیم ڈیرہ ہاشم خاں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر حاصل کی ۔اس وقت سکول کی چار دیوار نہ تھی ،گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں کانٹے دار چھاڑیوں کی باڑ کاٹ کر لانا فرض عین ہوا کرتا تھا تاکہ تین مہینے سکول میں کوئی جانور نہ گھس جائے ۔بعد ازاں میانوال رانجھا میں حفظ قرآن مجید کے لیے داخل ہوا تو یہ گائوں میری دوسری محبت بن گیا ۔اس کے در دو دویوار سے ایسی محبت قائم ہوئی کہ عید کے موقع پر جب بھی گائوں جاتا ہوں تو میانوال رانجھا کا ایک چکر لازمی ۔اس باربھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ان تنگ گلیوں سے بھی گزارا جہاں کبھی ایک بالٹی اور تھال اٹھائے صبح و شام جاتے تھے ۔میانوال رانجھا کو شہرت انھے شریف کی وجہ سے ملی ۔میانوال رانجھا سے 3کلو میٹر کے فاصلے پر انھے شریف واقع ہے۔اس کیوجہ شہرت مولانا غلام رسول المعروف بابا جی انہی والے ہیں، جو اپنے دور کے بہت بڑے عالم دین تھے، پورے ایشیاء سے علم کے متلاشی یہاں آتے ۔مولانا غلام رسول ؒ کے دامادمولانا ولی اللہ ؒ کا چرچا........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play